visitors

free counters

Saturday 8 October 2011

سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخِ ولادت و وصال کے متعلق اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ کی تحقیق


از: ندیم احمد قادری نورانی

کراچی میں ربیع الاول 1429ھ/2008ء کے جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقع پر ایک گروہ نے حسبِ عادت اور حسبِ معمول حضور اکرم شافع روز جزا، سید المرسلین خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت و تاریخ وصال سے متعلق جھوٹ بولنے اور لکھنے کے ساتھ ساتھ ایک کام یہ بھی کیا کہ اُس جھوٹ کو امام اہلسنت اعلیٰ حضرت عظیم البرکت مجدّدِ دین و ملت پروانۂ شمع رسالت الشاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے پمفلٹس اور اسٹیکرز نکالے اور شہر کی سڑکوں پر آویزاں اور بسوں وغیرہ پر چسپاں کیے اور اس جھوٹ میں ترقی کرتے ہوئے یہ تاثر دیا کہ یہ منجانب "انجمن فیضانِ رضا" ہے، وہ جھوٹ کیا تھا؟

وہ جھوٹ قارئینِ کرام کی خدمت میں نقل کرتا ہوں:

یا اللہ عزوجل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
ولادتِ (پیدائش) نبی صلی اللہ علیہ وسلم 8 ربیع الاول ہے
اور وفاتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم 12 ربیع الاول ہے
تحقیقِ اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی
(نطق الہلال، صفحہ 12۔13، فتاویٰ رضویہ، جلد: 26، صفحہ: 412۔415)
[انجمنِ فیضانِ رضا]

اس گروہ نے عوامِ اہلسنت کو یہ دھوکا دینا چاہا کہ "دیکھو تمہارے امام احمد رضا خاں علیہ الرحمۃ کی تو یہ تحقیق ہے کہ حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ مبارک آٹھ ربیع الاول ہے، تو تم 12تاریخ کو جشنِ ولادت کیوں مناتے ہو جبکہ تمہارے امام کے نزدیک تو 12 ربیع الاول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کا دن ہے، یہ تو غم کا دن ہے اور تم جشن منار ہے ہو، تم نبی سے محبت کا نہیں عداوت کا ثبوت دے رہے ہو۔" وغیرہ وغیرہ اور حوالہ دے دیا نطق الہلال اور فتاوٰی رضویہ کا اور یہ ظاہر کرنے کی بھی کوشش کی کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کی یہ تحقیق نطق الہلال صفحہ 12،13 میں بھی ہے اور فتاویٰ رضویہ کی جلد 26 میں بھی ہے یعنی یہ دو الگ الگ حوالے ہیں۔

اب ہم قارئینِ کرام پر حقیقت واضح کرتے ہیں۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ سے حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و وصالِ مبارک سے متعلق چند تحریری سوالات کیے گئے۔ اُن کے جواب میں اعلیٰ حضرت نے ایک رسالہ تحریر فرمایا جس کا نام "نطق الہلال بار خ ولاد الحبیب والوصال(یعنی حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت و وصال پر شہادتِ ہلال) رکھا۔ یہ رسالہ فتاویٰ رضویہ شریف (جلد:26، صفحات: 405 تا 428) میں بھی شامل کیا گیا ہے یعنی یہ دو الگ الگ حوالے نہیں بلکہ ایک ہی حوالہ ہے (یعنی نطق الہلال کا)۔

حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ مبارک (پیدائش) کا دن پیر اور مہینہ ربیع الاول ثابت کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں تاریخ ولادت کے متعلق تحریر فرماتے ہیں:

اس میں اقوال بہت مختلف ہیں، دو (2)،آٹھ (8)،دس (10)،بارہ (12)، سترہ(17)، اٹھارہ (18)، بائیس(22)، سات قول ہیں مگر اشہر و اکثر و ماخوذ و معتبر بارہویں ہے۔ مکۂ معظمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ کو مکانِ مولدِ اقدس کی زیارت کرتے ہیں کما فی المواھب والمدارج (جیسا کہ مواھب لدنیہ اور مدارج النبوّت میں ہے) اور خاص اس مکانِ جنت نشان میں اِسی تاریخ کو مجلس میلادِ مقدس ہوتی ہے۔ علامہ قسطلانی و فاضل زرقانی فرماتے ہیں:

اَلْمَشھُوْرُ اَنَّہ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وُلِدَ یَوْمَ الِاثْنَیْنِ ثَانِیَ عَشَرَ رَبِیْعِ الْاَوَّلِ وَھُوَ قَوْلُ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقِ اِمَامِ الْمَغَازِیْ وَغَیْرِہ (شرح الزرقانی علی المواہب الدنیۃ المقصد الاول ذکر تزوج عبد اللہ آمنۃ دار المعرفۃ بیروت1/132)
(ترجمہ : مشہور یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بارہ ربیع الاول بروز پیر پیدا ہوئے امام المغازی محمد بن اسحاق کا یہی قول ہے)۔ شرح مواھب میں امام ابن کثیر سے ہے، ھُوَ الْمَشْھُوْرُ عِنْدَ الْجُمْھُوْرِ (ترجمہ: جمہور کے نزدیک یہی مشہور ہے)۔ اِسی میں ہے،ھُوَ الَّذِیْ عَلَیْہِ الْعَمَلُ (ترجمہ: یہی وہ ہے جس پر عمل ہے)۔ شرح الہمزیہ میں ہے، ھُوَ الْمَشْھُوْرُ وَعَلَیْہِ العَمَلُ (ترجمہ: یہی مشہور ہے اور اسی پر عمل ہے)۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد: 26، صفحات: 411 تا 412)

قارئینِ کرام! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت کے سلسلے میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے سات قول بیان فرمائے لیکن اِن میں سے اشہر یعنی زیادہ مشہور اکثر و ماخوذ یعنی اکثریت کا اختیار کردہ اور معتبر قول جس کو لکھا ہے وہ بارہ ربیع الاول ہے اور صفحہ 414 تک اِسی قول کو دلائل سے ثابت کیا ہے اِسی دوران صفحہ 412 پر ایک قول آٹھ تاریخ کا بھی آگیا اور زیجات حساب سے بھی اعلیٰ حضرت نے آٹھ ربیع الاول کیا۔ لیکن اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے اِسی قول کو اپنایا نہیں بلکہ اس قول کو نقل کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت نے جمہور کے قول یعنی بارہ ربیع الاول پر عمل کو ہی بہتر و مناسب لکھا ہے۔آٹھ تاریخ کو اعلیٰ حضرت کی تحقیق کہنا، دروغ گوئی اور بددیانتی کی ایک بڑی مثال ہے۔ فتاویٰ رضویہ کے مندرجہ بالا اقتباس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ کے دور میں (وہابیوں کی حکومت سے (یعنی 1926ء سے) پہلے خاص اُس مکان جہاں مکۂ معظمہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تھی باقاعدہ طور پر بارہ ربیع الاول کو میلاد شریف کی مجلس ہوتی ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اپنی کتاب "فیوض الحرمین" میں حرمین شریفین (مکہ و معظمہ و مدینہ منورہ) کی مجالس و محافلِ میلاد شریف کا ذکر فرمایا جن میں انہوں نے خود شرکت کی اور اُن محافل میں جن انوار و برکات کا انہوں نے مشاہدہ کیا وہ بھی اس کتاب میں بیان فرمائے۔
نوٹ: شاہ ولی اللہ محدث بریلوی وہ بزرگ ہیں جنہیں دیوبندی اور اہل حدیث بھی اپنا پیشوا جانتے ہیں۔

فتاوٰی رضویہ جلد 26 کے ہی صفحہ 428 پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
"اور روزِ ولادت شریف اگر آٹھ بفرض غلط نو یا کوئی اور تاریخ ہو جب بھی بارہ کو عید میلاد کرنے سے کون سی ممانعت ہے۔" یہاں اعلیٰ حضرت "آٹھ" کے ساتھ "اگر" کا استعمال کر رہے ہیں اِس سے بھی معلوم ہوا کہ ولادت شریف کی آٹھ تاریخ کو اعلیٰ حضرت کی تحقیق کہنا بالکل غلط، جھوٹ اور بد دیانتی ہے۔

البتہ علمِ ہیات و زیجات کے حساب سے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ نے یہ تحقیق فرمائی ہے وہ کہ ولادت شریف 8ربیع الاول کو ہوئی لیکن اِسے اختیار نہیں فرمایا۔ آپ کا مختار (اختیار کردہ) قول 12 ربیع الاول ہی کا ہے جیسا کہ مندرجہ بالا تحریر سے واضح طور پر ثابت ہے۔

تاریخ وفات شریف
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ وفات شریف کے بارے میں ایک استفتا کے جواب میں رقم طراز ہیں:
"قول مشہور و معتمد جمہور دواز دہم ربیع الاول شریف ہے۔" (فتاوٰی رضویہ، جلد 26، صفحہ 415)

اس گروہ نے اِس قول کو بھی اعلیٰ حضرت کی تحقیق کہہ دیا حالانکہ اعلیٰ حضرت یہ فرمارہے ہیں کہ یہ قول مشہور ہے اور جمہور یعنی اکثر علما نے اِسی قول پر اعتماد کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اقدس 12ربیع الاول ہے۔ لیکن اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کے نزدیک 13ربیع الاول ہے اور جمہور کے قول 12 ربیع الاول کی 13 ربیع الاول کے ساتھ یوں تطبیق فرماتے ہیں:

"اور تحقیق یہ ہے کہ حقیقتاً بحسب رؤیتِ مکۂ معظمہ ربیع الاول شریف کی تیرھویں تھی۔ مدینۂ طیبہ میں رؤیت نہ ہوئی (یعنی چاند نظر نہیں آیا) لہٰذا اُن کے حساب سے بارہویں ٹھہری وہی رُواۃ (یعنی روایت کرنے والوں) نے اپنے حساب کی بناہ پر روایت کی اور مشہور و مقبول جمہور ہوئی یہ حاصل تحقیق امام بارزی و امام عماد الدین بن کثیر اور امام بدر الدین بن جماعہ و غیرھم محدثین و محققین ہے۔" (فتاوٰی رضویہ، جلد 26، صفحہ 417)۔ اعلیٰ حضرت نے اِس اقتباس میں امام بارزی، امام عماد الدین بن کثیر اور امام بدر الدین بن جماعہ وغیرھم ایسے بڑے محدثین و محققین کی تحقیق کا حاصل یہ بتایا کہ مکۂ معظمہ میں مدینۂ طیبہ سے ایک دن پہلے چاند نظر آگیا تھا لہٰذا مکۂ معظمہ میں چاند نظر آنے کے اعتبار سے تیرہ تاریخ تھی اور مدینۂ طیبہ میں چونکہ ایک دن بعد میں چاند نظر آیا اِس لحاظ سے راویوں نے اپنے حساب کی بناء پر بارہ ربیع الاول کی روایت کردی اور اِس طرح سے وفات اقدس کی تاریخ بارہ ربیع الاول مشہور ہوگئی اور جمہور نے اِن مشہور روایت پر اعتماد کر لیا لیکن حقیقت میں ربیع الاول شریف کی تیرھویں تھی اور اِسی کے لیے اعلیٰ حضرت نے فرمایا "اور تحقیق یہ ہے۔" وہ حضرات جو یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ اعلیٰ حضرت کی تحقیق یہ ہے کہ وفات شریف کی تاریخ بارہ ربیع الاول ہے اب ذرا اعلیٰ حضرت کی درج ذیل واقعی اور حقیقی تحقیق ملاحظہ فرمائیں کہ وفات شریف بارہ ربیع الاول کو نہیں ہوئی۔

اعلیٰ حضرت تحریر فرماتے ہیں:
"تفصیل و مقام توضیح مرام یہ ہے کہ وفاتِ اقدس ماہِ ربیع الاول شریف روز دو شنبہ میں واقع ہوئی اِس قدر ثابت و مستحکم و یقینی ہے جس میں اصلاً جائے نزاع نہیں۔" (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحہ 418)۔ یعنی وفات شریف ربیع الاول کے مہینے میں پیر کے دن ہوئی اِس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں (حتّٰی کے دیوبندی اور وہابی بھی اس سے متفق ہیں)۔

آگے چل کر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
"ادھر یہ بلاشبہ ثابت ہے کہ اِس ربیع الاول سے پہلے جو ذی الحجہ تھا اُس کی پہلی روز پنجشنبہ تھی کہ حجۃ الوداع شریف بالا جماع روزِ جمعہ ہے۔" (فتاوٰی رضویہ جلد 26، صفحہ،418)

یعنی جس ربیع الاول شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اُس سے تین مہینے پہلے جو ذی الحجہ تھا اُس کی پہلی تاریخ جمعرات کے دن تھی کیونکہ حجۃ الوداع شریف کے روز جمعہ (جمعہ کا دن) ہونے پر اجماع (یعنی سب کا اتفاق) ہے، یعنی 9ذی الحجہ کو جمعہ کا دن تھا لازمًا ذی الحجہ کی پہلی تاریخ جمعرات کو تھی۔

(اس حساب سے 29 ذی الحجہ کو جمعرات ہوئی۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: "اور جب ذی الحجہ 10ھء کی 29 روز پنجشنبہ تھی تو ربیع الاول 11ھ ء کی 12 کسی طرح روز ِ دو شنبہ نہیں آتی) کہ اگر ذی الحجہ، محرم، صفر تینوں مہینے 30کے لیے جائیں تو غرّہ ربیع الاول روز چار شنبہ ہوتا ہے اور پیر کی چھٹی اور تیرھویں، اور اگر تینوں 29 کے لیں تو غرّہ اور روزِ یکشنبہ پڑتا ہے اور پیر کی دوسری اور نویں، اور اگر اُن میں کوئی سا ایک ناقص اور باقی دو کامل لیجیے تو پہلی سہ شنبہ کی ہوتی ہے اور پیر کی ساتویں اور چوھویں، اور اگر ایک کامل دو ناقص مانیے تو پہلی پیر کی ہوتی ہے پھر پیر کی آٹھویں اور پندرھویں، غرض بارہویں کسی حساب سے نہیں آتی، اور ان چار کے سوا پانچویں کوئی صورت نہیں، قولِ جمہور پر یہ اشکال پہلے امام سہیلی کے خیال میں آیا اور اسے لاحل سمجھ کر انھوں نے قول یکم اور امام ابن حجر عسقلانی نے دوم کی طرف عدول فرمایا۔" (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحات 418تا 419)

خلاصہ یہ ہے کہ دو باتوں میں کسی کا اختلاف نہیں ہے پہلی بات یہ کہ وصال مبارک سے پہلے جو ذی الحجہ تھا اُس کی پہلی تاریخ جمعرات کے دن تھی کہ وقوف، عرفہ (9ذی الحجہ) بروز جمعہ ہونے پر سب متفق ہیں دوسری بات یہ کہ وفات اقدس ربیع الاول میں پیر کے دن ہوئی۔ تو ذی الحجہ کی پہلی تاریخ جمعرات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمیں یہ حساب لگانا ہوگا کہ آنے والے ربیع الاول شریف میں پیر کس کس تاریخ میں آیا۔ تو اگر ذی الحجہ، محرم، صفر تینوں مہینے تیس کے لیے جائیں تو ربیع الاول کی پہلی تاریخ بدھ کو ہوگی اور پیر کو 6، 13، 20 اور 27 تاریخیں ہوں گی اگر تینوں مہینے 29 کے لیے جائیں تو یکم ربیع الاول اتوار کو ہوگی اور پیر کے دن 2، 9، 16، 23 (اور 30 بھی ممکن ہے) تاریخیں ہوں گی اور اگر تینوں مہینوں میں سے کوئی سا ایک مہینہ 29 کا اور باقی دو مہینے 30 کے لیے جائیں تو ربیع الاول کی پہلی تاریخ منگل کی ہوگی اور پیر کو 7، 14، 21، 28 اور اگر تینوں مہینوں میں سے کوئی سا بھی ایک 30 کا لیجیے اور باقی دو 29 کے سمجھیں تو یکم ربیع الاول پیر کو ہوگی اوراِس طرح پیر کے دن 1، 8، 15، 29 تاریخیں ہوں گی یعنی چاروں صورتوں میں پیر کے دن ممکنہ تاریخیں یہ ہوئیں: 1، 2، 6، 7، 8، 9، 13، 14، 15، 16، 20، 22، 23، 27، 28، 29 اور 30۔ اِن چاروں صورتوں میں ربیع الاول کی 12تاریخ پیر کے دن کسی حساب سے نہیں آتی اور ان چار کے سوا کوئی صورت ممکن نہیں۔ اِن ممکنہ تاریخوں میں سے یکم ربیع الاول اور 2ربیع الاول کے اقوال بھی ملتے ہیں اور اعلیٰ حضرت اِن دونوں اقوال کو علم ہیات وزیجات کے حساب سے غلط ثابت کرنے کے بعد فرماتے ہیں، "وہ دونوں قول (یکم اور دوم ربیع الاول کے) قطعاً باطل ہیں اور حق و صواب وہی قولِ جمہور بمعنی مذکو رہے یعنی واقع میں تیرھویں اور بوجہ مسطور تعبیر میں بارہویں۔" (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحہ 426)

یعنی مدینۂ طیبہ میں چاند نظر نہیں آیا تو اُن کے حساب سے بارہ ہوئی۔ اور راویوں نے وہی مشہور کردی لیکن چونکہ مکۂ معظمہ میں چاند نظر آگیا تھا واقع میں (یعنی حقیقت میں) تیرہ ربیع الاول۔ اور حقیقتاً 12ربیع الاول کسی حساب سے نہیں آتی، جیسا کہ اوپر مذکور ہوا۔

یہ ہے اعلیٰ حضرت کی تحقیق۔ علم ہیاٴت و زیج کے حساب بھی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ کی تحقیق یہی ہے کہ وفات شریف 12 نہیں بلکہ 13 تاریخ کو ہے چنانچہ میلاد شریف پر ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اگر ہیاٴت و زیج کا حساب لیتا ہے تو تاریخِ وفات شریف بھی بارہ نہیں بلکہ تیرہ ربیع الاول (ہے) کَمَا حَقَّقْنَاہُ فِیْ فَتَاوٰ نَا (جیسا کہ ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تحقیق کردی ہے۔" (فتاوٰی رضویہ جلد 26 صفحہ 428)

اور اگر بارہ ربیع الاول ہی تاریخِ وفات شریف ہو تو بھی میلاد شریف منانے سے روکنے کی کوئی دلیل نہیں۔ شریعت میں تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں صرف بیوہ کو شوہر کے لیے چار ماہ دس دن سوگ کرنے کا حکم ہے۔ غم پر صبر کرنا اور نعمت کا چرچا کرنا ہی مومن کی شان ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش بھی جمعہ کے دن ہے اور وفات شریف بھی لیکن حدیث شریف میں جمعہ کے دن کو عید کا دن قرار دیا گیا ہے بلکہ مشکوٰۃ شریف باب الجمعۃ مین ابن ماجہ کے حوالے سے ایک حدیث روایت کی جس میں جمعہ کو عید الاضحی اور عید الفطر سے بھی عظیم دن فرمایاگیا۔ حالانکہ اسی دن ایک نبی کی وفات بھی ہے، تو معلوم ہوا کہ غم پر صبر کرنا چاہیے اور پیدائش کا اعتبار کرتے ہوئے اس دن عید (خوشی) منانا چاہیے۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
"اگر مشہور کا اعتبار کرتا ہے تو ولادت شریف اور وفات شریف دونوں کی تاریخ بارہ ہے ہمیں شریعت نے نعمتِ الٰہی کا چرچا کرنے اور غم پر صبر کرنے کا حکم دیا، لہٰذا اس تاریخ کو روزِ ماتمِ وفات (وفات کے ماتم کا دن) نہ کیا روزِ سُرورِ ولادتِ شریفہ (ولادت شریف کی خوشی کا دن) کیا۔ کما فی مجمع البحار الانوار (جیسا کہ مجمع البحار الانوار میں ہے)۔ (فتاوٰی رضویہ، جلد 26، صفحہ 428)


 

No comments:

Post a Comment