visitors

free counters

Sunday 16 October 2011

اکیسویں صدی اور تصویر کا شرعی مسئلہ


خوشتر نورانی
اکیسویں صدی ذرائع ابلاغ اور الیکٹرانک انقلابات کی صدی ہے، جس نے پوری دنیا کے فاصلوں کو ختم کر کے ایک عالمی گاوٴں میں تبدیل کر دیا ہے- میرا خیال ہے کہ اس صدی کے اوائل میں اب یہ بحث غیر ضروری ہو گئی ہے کہ تصویر سازی اور اس کا استعمال شرعی نقطہٴ نظر سے صحیح ہے یا نہیں؟کیونکہ اس سلسلے میں عالم اسلام کے علماء و مفتیان کرام کا موقف تحریری و عملی طور پر سامنے آچکا ہے، رہی بات ہندوستانی علماء کی تو ذرائع ابلاغ کی ہمہ گیر افادیت و ضرورت اور اس خصوص میں الیکٹرانک میڈیا کے عالمگیر اثرات کے باوجود علماء کا ایک بہت ہی محدود طبقہ تصویر سازی اور اس کے استعمال کو حرام قرار دے کر اس کی مخالفت پر آمادہ ہے، ایسے علماء کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے- ہندوستان کے اندر ماضی میں حال کی بہ نسبت ان کی تعداد زیادہ تھی، مگر جیسے جیسے انھیں ذرائع ابلاغ کی اہمیت و ضرورت کا اندازہ ہوتا گیا وہ تصویر سازی اور اس کے استعمال کو ”شرعی حاجت“ کے زمرے میں داخل کر کے اس کے مشروط جواز کے قائل ہوتے گئے اور جو لوگ اب تک کسی مصلحت یاتحفظ کی وجہ سے زبانی یا تحریری طور پر اس کی حمایت نہ کرسکے انھوں نے عملی طور پر اس کا اظہار کردیا-اس طرح گنتی کے چند علماء کو چھوڑ کر ہر مسلک و مکتب فکر کے علماء کے نزدیک تصویر سازی اب کوئی مسئلہ نہیں رہ گیا ہے-
 اپنے موقف کی اشاعت اور نظریات کی ترسیل کے لیے ہر سطح پر ذرائع ابلاغ کا بھرپور استعمال ہو رہا ہے، نئے نئے چینل، ویب سائٹس اور رسائل و اخبارات میدان میں آرہے ہیں اور سرعت سے دین وملت کا کام عالمی پیمانے پر انجام پارہا ہے – زندگی کی ان مصروفیات کے بیچ اگر چند لوگ اب بھی پرانی لکیریں پیٹ رہے ہیں اور ہوائی جہاز کے دور میں بیل گاڑی کے ذریعے دور دراز کا سفر کرنے پر مصر ہیں تو انھیں کرنے دیں-ان کے اس عمل سے زندگی کا دوڑتا ہوا کارواں نہیں رک جاتا-
لطف کی بات تو یہ ہے کہ اس طبقہ کے اکثر افراد یا تو تصویر سازی اور اس کے استعمال کو اپنی انا کا مسئلہ بنا کر نفاقHypocrisyمیں زندگی گزار رہے ہیں، کیونکہ ان کا عمل ان کے قول سے مختلف ہے یا پھر ان کا مبلغ علمی اس مسئلے میں شرعی نصوص کے مقاصد و مطالب تک نہیں پہنچ سکاہے- ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ شریعت کاکوئی بھی حکم خواہ وہ حرام ہو یا حلال اپنے ساتھ مقصد اور حکمت لیے ہوتا ہے- اس مقصد و حکمت کو نظر انداز کر کے جب بھی کوئی شرعی فیصلہ صادر کیا جائے گا اس کے نتائج صحیح بر آمد نہیں ہوں گے- تصویر بنانے اور رکھنے کے تعلق سے جن احادیث میں ممانعت آئی ہے، ان کے مقصد و حکمت تک پہنچنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوگا کہ اس ممانعت کا تعلق”پرستش“ سے ہے- عہد رسالت مآب میں لوگ تصاویر بنا کر ان کی پرستش اور عبادت کیا کرتے تھے، اس لیے شارع اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جاندار کی تصویر بنانے اور رکھنے پر ہی پابندی عائد کر دی تاکہ وہ شاخ ہی نہ رہے جس پر آشیانہ تعمیر ہو سکے- اب بھی اگر تصویر یا پینٹنگ اس مقصد کے لیے بنائی جاتی ہے تو حدیث کی رو سے ان پر وہی حکم نافذ ہوگا، لیکن اگر ایسا نہیں ہے، بلکہ اس کا استعمال دینی، شرعی اور ملی کاز کے لیے کیا جا رہا ہے تو پھر مقصد کے بدل جانے سے وہ حکم بھی نافذ نہیں ہوگا- اس کی مثال بخاری کی اس حدیث میں ملتی ہے جس میں روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ نے ایک مرتبہ اپنے گھر میں ایک ایسا پردہ لگایا جس میں جاندار کی تصویریں تھیں، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر میں تشریف لائے اور پردے کو دیکھا تو فرمایا کہ اس پردے کو کاٹ کر مسندوں کے غلاف بنا لو یا پا پوش- اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر جاندار کی تصویر مطلقاً حرام ہوتی تو پیغمبر اسلام اسے پاپوش یا مسندوں کے غلاف بنانے کی اجازت نہ دیتے- ان کی اجازت اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر جاندار کی تصویر رکھنے میں احترام، پرستش یا عبادت کا کوئی پہلو نہ ہو تو کوئی حرج نہیں اور نہ اس کو استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ-
یہاں مجھے اس اعتراف میں کوئی تأمل نہیں کہ تصویر سازی اور اس کے استعمال کو حرام قرار دینے والے علماء میں بعض ایسی بھی قابل قدر شخصیتیں ہیں جو اپنے علم و یقین اور تقویٰ کی بنیادوں پر اسے غلط سمجھتی ہیں -یہ وہ لوگ ہیں جو نفاق میں زندگی نہیں گزارتے بلکہ صحیح معنوں میں اس سے بچنے کو کوشش کرتے ہیں -ایسے علما ء کے خلوص اور تقویٰ کی قدر کی جانی چاہیے ،کیونکہ دین میں اخلاص اور تقویٰ کو فضیلت کا معیار قرار دیا گیا ہے-لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ اکیسویں صدی ذرائع ابلاغ اور الیکٹرانک انقلابات کی صدی ہے، اس دور میں اگر کوئی فوٹو گرافی، ویڈیو گرافی، ٹیلی چینل اور تصویر سازی کی مخالفت پر کمر بستہ ہے تو وہ یقینا دورخی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگا، کیونکہ اس دور میں اس کا عمل اس کے قول کا ساتھ نہیں دے سکتا- کسی بھی ملک میں رہنے کے لیے اسے شناختی کارڈ ، ووٹ دینے کے لیے ووٹر آئی کارڈ، گھریلو ضروریات کے لیے راشن کارڈ، سفر کے لیے پاسپورٹ، گاڑی رکھنے اور چلانے کے لیے لائسنس، گھر خریدنے اور بیچنے کے لیے رجسٹری پیپرز اور ان جیسے دیگر امور کی ضرورت لازمی ہوتی ہے اور یہ تمام چیزیں بغیر فوٹو کے نہیں حاصل ہو سکتیں- اگر ایسے لوگ ان چیزوں کے لیے تصویر کشی کے حلال ہونے کو شرعی ضرورت مانتے ہیں جو ان کی ذاتی اور شخصی نوعیت کی ہیں تو پھر کم از کم ایمانی جذبے کا تقاضا یہ ہے کہ گمراہیوں کے طوفان میں اسلام کے آفاقی پیغام کی ترسیل،امت کی اصلاح اور اقامت دین کے لیے الیکٹرانک میڈیا کا استعمال تو بدرجہٴ اولیٰ شرعی حاجت کے دائرے میں آجانا چاہیے-
دیگر مذاہب وا دیان کے بالمقابل شریعت محمدی کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ ہر دور میں رونما ہونے والے مسائل کا حل اپنے اندر رکھتی ہے، اس لیے کہ وہ عسر کی نہیں یسرکی قائل ہے- اس کی آفاقیت اور جامعیت کی سب سے بڑی دلیل بھی یہی ہے کہ وہ منجمد نہیں بلکہ امت میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے اپنے دامن میں بے پناہ وسعت رکھتی ہے- وہ امت کو کسی پریشانی میں نہیں ڈالتی بلکہ حالات کے زیر اثر انفرادی اور اجتماعی طورپر ان کی صلاحیت کے مطابق مسائل کا تدارک چاہتی ہے اور اجازت و رخصت عطا کرتی ہے- اہل فہم اس نکتے پر اگر غور کریں تو انہیں شریعت کے اوامر و نواہی میں اس کے بے شمار مظاہر نظر آجائیں گے- اسلام نے اگر امت محمدی پر پنج وقتہ نماز کی فرضیت اور مشروعیت کا حکم دیا تو اس کی ادائیگی کے لیے حالات کے مطابق آسانیاں بھی پیدا فرمادی، ہمیں اگر وضو کے لیے پانی میسر نہیں تو زمین کی وسعتوں میں کسی بھی پاک مٹی پر تیمم کر کے ہم نماز ادا کرسکتے ہیں، جب ہم سفر پر نکلتے ہیں تو ہمیں مختلف مشکلات اور تنگی کا سامنا رہتا ہے، ایسے موقعوں پر ہم فرض نمازوں میں قصر کرسکتے ہیں- اسی طرح اسلام نے جن چیزوں کو قطعی ممنوعات کے دائرے میں رکھا ہے، ان کو بھی کسی شدید حاجت و ضرورت کے وقت مباح قرار دے دیا- ان تمام مسائل میں رخصت اور نرمی کی وجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ امت کو اسلامی احکام پر عمل کرنے میں کسی ایسی پریشانی کاسامنا نہ ہو جو اس کی فطری صلاحیت و لیاقت سے باہرہو-
جو لوگ تصویر کی حرمت کا موقف رکھتے ہیں، وہ بھی شریعت کے اسی اصول کی بنیاد پر چند استثنائی صورتوں میں رخصت کے قائل ہیں- وہ استثنائی صورتیں ذاتیات پر مشتمل ہیں- لیکن آج گلوبلائزیشن اور صارفیت کے دور میں اسلام کو جن مشکلات کا سامنا ہے، اس سوال کا جواب ان کے ذمہ اس وقت تک رہے گا جب تک وہ امت مسلمہ کو یہ نہیں بتادیتے کہ انٹرنیٹ، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے بد مذہبیت،خدا بیزاریت، گمراہیت، مغربیت اور اسلام مخالفت کی جو یلغار ہورہی ہے اور نئی نسلوں کے افکار کو تباہی کا جو سامان فراہم کیا جارہا ہے، اسے کس طرح روکا جائے؟ چند ہزار کے روایتی جلسوں، جلوسوں اور کتابوں کے محدود ذرائع سے بات نہیں بنتی- جمہوریت کے اس دور میں جب کہ ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے، ان پر قانونی طور پر پابندی بھی عائد نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی صارفیت کی اس صدی میں روایتی طریقوں سے اس مسئلے کا حل ڈھونڈا جاسکتا ہے- پھر اس پیچیدہ مسئلے کا حل کیا ہے؟ اسلام کو عالمی سطح پر اپنے درست نظریات کی ترسیل، خدائی حکمت کی تنفیذ اور صالح معاشرے کی تشکیل میں جومسائل درپیش ہیں، انہیں کیسے حل کیا جائے، جب تک ہم یہ نہیں بتا دیتے صرف یہ کہنے سے بات مکمل نہیں ہوتی اور نہ ہی ہم اپنی مذہبی و شرعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوسکتے ہیں کہ ”تصویر کے سلسلے میں میرا موقف حرام کا ہے-“

No comments:

Post a Comment