ذکری فرقہ
پیش لفظ
ذِکری ۔۔۔۔۔ ایک مذہب جس کا نہ کوی نبی ہے نہ کتاب نہ کوی ظابطہ حیات ہے نہ ظابطہ اخلاق۔۔۔۔۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے مذہبی پیشواوں نے اپنے مذہب کے عقائد و اعمال سے متعلق کچھ لکھا بھی تو وہ قلمی بیاض کی شکل میں آگے پھیلایا گیا، جس کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ ذکری مُلای۔۔۔ خوب جانتے تھے کہ ان کے مذہب کی حقیقت کچھ نہیں۔ اگر ان کی کتابوں کو مندرجہ عقائد و اعمال عوام کالانعام میں رائج کردہ خرافات کو کتابی( حال میں ان کے بعض نوجوانوں نے اردو زبان میں نشرواشاعت کا کام شروع کر دیا ہے جس سے متاثر ہو کر ان کے کچھ نوجوان مشرف بہ اسلام ہو گئے ہیں۔) شکل میں شائع کر دیا گیا تو ان کا سارا پول کھل جائے گا اور ان کا اصل مقصد یعنی ع
شاعری ہے ایک بہانہ مانگ کھانے کے لئے
کھل کر ظاہر ہو جائے گی۔
اس فرقہ کا کلمہ لا الہ الا اللہ نور پاک محمد مہدی رسول اللہ ہے۔یہ فرقہ نماز کا شروع سے قائل نہیں ہے۔ ان کے روزے مسلمانوں کے روزوں سے الگ ہیں اور حج بیت اللہ کے بجائے تربت مکران میں ایک پہاڑ ہے جس کا نام "کوہ مراد" ہے۔ وہاں جا کر ہر سال حج کرتے ہیں۔
اس فرقے کی تاریخ اور ان کے عقائد و نظریات کی تفصیل ہماری کتاب میں مل سکتی ہے۔ تاہم ذیل میں سرسری طور پر انکے عقائد کا خلاصہ درج کر دیا ہے۔
ذکریوں کے عقائد
۱۔سید محمد جونپوری نبی آخرالزمان ہیں وہ زندہ ہیں۔
۲۔ قرآ مجید کی وہی تعبیر و تفسیر معتبر ہے جو سید محمد جونپوری سے بواسطہ سید محمد اٹکی منقول ہو۔
۳۔ عباداتِ اسلامیہ نماز،روزہ ، حج بیت اللہ وغیرہ سب منسوخ ہو چکے ہیں۔
۴۔ذکر سارے عبادات کا قائم مقام ہے۔
۵۔ کوہِ مراد حج کا قائم مقام ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اپنے عام عقائدو نظریات کہ بنا پر یہ فرقہ قادیانیوں سے ہزار درجہ بدتر ہے۔ قادیانی صرف تاویلی رنگ و روپ میں ختم نبوت کے منکر ہیں باقی نماز،روزے،حج وغیرہ سب مسلمانوں کے طرز پر کیا کرتے ہیں اور یہ ذکری لوگ رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت کا انکار کرنے کے ساتھ ساتھ خانہ کعبہ کی متوازی تربت میں کوہِ مراد کو مقامِ حج بنا چکے ہیں۔ ہر سال وہیں جا کر حج کرتے ہیں بلکہ عرفات کے مقابلہ میں اپنا عرفات بنایا ہے۔ زمزم کے مقابلہ میں اپنا زمزم بنایا ہے حتیٰ کہ شریعتِ اسلامیہ میں حج کے لیے جن جن مقامات پر جانا پڑتا ہے۔ انہوں نے ان سب کی توہین کر کے ان کے قائم مقام یہاں پر بنادیئے ہیں۔ معہذا یہ مسلمانوں کے طرز پر نماز روزے اور دیگر عبادات کے قائل نہیں۔ انکے نزدیک ان سب کا قائم مقام "ذکر" ہے۔
ضروری اپیل
۱۔ چونکہ بلاشک و شبہ ذکری لوگ غیر مسلم ہیں، دائرہ اسلام سے خارج ہیں اس لیے مملکتِ اسلامیہ پاکستان میں ان کی جداگانہ حثیت متعین کر کے ان کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور اس سلسلے میں آئین کی دفعہ موجود ہے۔
۲۔ تمام روے زمین کے مسلمان بیت اللہ کو مقامِ حج اور قبلہ مانتے ہین اور بیت اللہ شعائر اللہ میں ہیں "کوہِ مراد" کو مقامِ حج قرار دینا ، یہ نہ صرف اسلام کے ساتھ غداری ہے بلکہ یہ بیت اللہ شریف کی برسرِ عام توہین ہے۔ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں بیت اللہ کی ایسی توہین پورے عالمِ اسلام کی غیرت کو ایک چیلنج ہے۔
اس بنا پر تمام مسلمانوں کےدِل کی یہ آواز ہے کہ آئندہ کوہِ مراد میں جا کر کسی ذکری کو حج کرنے کی اجازت ۔۔۔۔۔۔۔ نہ دی جائے۔
اگر وہ مسلمان ہیں جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے تو انہیں حج بھی مسلمانوں کے ساتھ جا کر کرنا چاہیے۔
واللہ یقول الحق وھو یھدی السبیل
احتشام الحق آسیا آبادی
جامعہ رشیدیہ۔ آسیا آباد
تحصیل تمپ (مکران ڈویژن)
یکم جادی الاولیٰ ۱۳۹۷ھ
مطانق ۱۰ اپریل ۱۹۷۸ء
ذکری فرقہ
سوال: بلوچستان اور خاص طور سے ضلع مکران میں ایک مہدوی فرقہ بنام"ذکری" مشہور و معروف ہے، یہ دراصل مہدویوں کی ایک شاخ ہے جو عرصہ تین چار سو سال سے ہے۔ ان کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات درکار ہیں۔
۱۔ ان سے رشتہ نکاح کرنا جائز ہے یا نہیں؟ ہمارے بعض جہلا ان سے رشتہ لیتے اور دیتے بھی ہیں۔
۲۔ اگر نکاح کر لیا ہو تو اب مسلہ معلوم ہونے کے بعد کیا کرے؟
۳۔ بصورت افتراض اس نکاح سے جو بچے پیدا ہوے ہیں وہ کس کے ہیں۔
۴۔ کیا یہ لوگ اہل کتاب شمار کیے جا سکتے ہیں؟ جبکہ یہ قرآن کو مانتے اور پڑھتے بھی ہیں اور مُنَزل من اللہ سمجھتے ہیں۔
۵۔ انکے ہاتھ کا ذبیحہ کیسا ہے؟ جبکہ ذبح کے وقت کلمہ اور اللہ اکبر پڑھتے ہیں۔
الجواب بسم ملھم الصواب
سوالات کے جواب دینے سے قبل مناسب ہے کہ "ذکری مذہب" ایک ایسا مذہب ہے جس کا کوی ضابطہ حیات نہیں ہے بلکہ وقتی طور پر اس کے پیشوا جن کو مُلای کہا جاتا ہے۔۔۔۔ جو کچھ حکم دیدیں وہی ان کا دین ہے ان کے مذہب پر اگر کوی کتاب اصولی طور پر ان کے مذہب کے بانی یا کسی اور پیشوا نے لکھی بھی ہے تو اول تو وہ قلمی ہے اور ایک دو نسخہ سے زائد نہیں مزید یہ کہ بہائیوں کی ۔۔۔ کتابِ اقدس کی طرح وہ فضا ساز گار ہونے تک برسرِ عام نہیں لائی جا سکتی، بلکہ وہ ایک دو نسخے اباً عن جد ان کے مذہبی پیشواوں کے پاس منتقل ہوتے چلے آرہے ہین۔
تاہم ان کے مذہبی عقائد جس حد تک ہمیں معلوم ہو سکے ان میں سے چند اصولی چیزیں ذکر کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد مذکورہ سوالات کے جوابات کیے جائیں گے۔ انشاءاللہ تعالیٰ۔
مہدوی فِرقہ
ذکریوں کے عقائد ذکر کرنے سے قبل یہ بتا دینا ضروری ہے کہ "ذکری مذہب" حقیقت میں فرقہ مہدویہ کی ایک شاخ ہے، مہدویہ فرقہ میران سید محمد جونپوری کی طرف منسوب ہے۔ مختلف جگہوں میں اس کے مختلف نام ہیں کہیں یہ لوگ "مہدوی" کہلاتے ہیں ، کہیں "دائرہ والے" کہیں"مصدق" کہیں ذکری" کہیں "داعی" اور کہیں "طائی" کا نام رکھتے ہیں۔
(مہدوی تحریک ص۵)
مہدی جونپوی
میراں سید محمد جونپوری، جمادی الاولیٰ بروز پیر ۸۷۴ ھ مطابق ۱۴۴۳ء جونپور (دوآبہ) ہندوستان مین پیدا ہوے (مہدی تحریک ص ۳۵) والد کا نام سید عبداللہ ہے۔ بارھویں پُشت میں موسیٰ کاظم تک سلسلہ نسب جا پہنچتا ہے۔ والدہ کا نام آمنہ خاتون اور عرف آغا ملک ہے۔ (مہدوی تحریک ص ۳۵)
سندھ کے عوام سید محمد جونپوری ک "میراں سائیں" اور مکران و قلات و ایران کے ذکری "نور پاک" کے لقب سے ان کا تذکرہ کرتے ہیں۔ جمادی الاولیٰ ۸۸۷ھ میں جونپور کو چھوڑ کر مختلف علاقوں میں گشت کرتے ہے ۔ یہاں تک کہ ۹۰۰ھ میں احمد نگر پہنچے اور ۹۰۱ھ میں حج کے لیے چلے گئے ۔ نَو ماہ مکہ معظمہ میں قیام رہا اور "رکن" اور "مقام ابراہیم کے درمیان کھڑے ہو کر اعلان کر دیا کہ میری ذات وہی ہے جس کا اللہ نے وعدہ کیا تھا اور محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے اور انبیاء سابق نے جس کی آمد کی خبر دی تھی اور یہ کہا کہ مہدی آخر الزمانی میری ذات ہے۔
(تحریک مہدویت ص ۴۴)
شیخ محمد اکرم نے "رودِ کوثر" میں اس واقعہ کو اس طرح لکھا ہے: "۹۰۱ھ میں انہوں نے حج کیا اور مکہ معظمہ مین بھی مہدویت کا دعویٰ کیا۔" اس کے بعد واپس ہندوستان آئے۔ سب سے پہلے احمد آباد(گجرات) میں داخل ہوئے چناچہ ۹۰۵ ء میں وہ موجودہ پاکستان کے علاقہ ٹھٹھہ میں آئے اور یہاں تقریباً چھ ماہ قیام کیا۔ ٹھٹھ میں ان کی جائے قیام آج تک زیارت گاہ بنی ہوئی ہے۔
ٹھٹھ سے چل کر بلوچستان کے غیر آباد اور دشوارگزار راستوں سے ہو کر آپ اپنی کثیر جماعت کو ساتھ لے کر قندھار پہنچے ، قندھار سے فراہ (جو اس زمانے میں ایران داخل تھا، اب افغانستان میں شامل ہے) آئے اور فراہ میں ۱۹، ذیقعد ۹۱۰ھ میں روزِ دو شنبہ انتقال کر گئے ۔
(مہدوی تاریخ مختصراً ص ۷۶)
مہدی ہونے کا دعویٰ اور سلاطین کو دعوت نامہ
ذیل میں ہم ان کا ایک دعوت نامہ نقل کرتے ہیں جو انہوں نے مختلف امراء و سلاطین کو لکھا ہے۔ یہ خط شمس الدین مصطفائی نے اپنی کتاب "مہدوی تحریک" میں "قول المحمود" کے حوالہ سے نقل کیا ہے۔ یہ خط مقام بڑلی (گجرات) سے ۹۰۵ء میں مختلف امراء و سلاطین اور خوانین کے نام جاری کیا گیا:
"اے لوگو! اس امر کو سمجھ لو کہ میں محمد بن عبداللہ رسول اللہ (صلیٰ اللہ علیہ وسلم) کا ہم نام ہوں۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے ولایت محمدیہ کا خاتم اور اپنے نبی کی بزرگ امت پر خلیفہ بنایا ہے میں وہی شخص ہوں جس کے آخری زمانے میں مبعوث ہونے کا وعدہ کیا گیا ہے اور میں وہی ہوں جس کی خبر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے دی ہے۔ میں وہی ہوں جس کا سابقہ پیغمبروں کے صحیفوں میں ذکر کیا گیا ہے، میں وہی ہوں جس کا اگلے اور پچھلے گروہوں نے توصیف کی ہے۔ میں وہی ہوں جس کو رحمانی خلافت دی گئی ہے۔ اللہ کی طرف سے بصیرت پر مخلوق کو اللہ کے حکم سے بلاتا ہوں، میں اس دعوے کے وقت نشے کی حالت میں نہیں ہوں بلکہ با ہوش ہوں۔ ہوش میں لائے جانے اور بیدار کیے جانے کا محتاج نہیں ہوں۔ اللہ کی طرف سے مجھے پاک رزق ملتا ہے اور مجھے سوائے اللہ کے کسی اور شے کی احتیاج نہیں، میں ملک و حکومت کا طالب نہیں ہوں اور نہ مجھے ریاست و سلطنت قائم کرنے کی خواہش ہے، میں امارات، ملک اور ریاست کو نجس خیال کرتا ہوں ۔ دنیا کی محبت سے چھڑانا میرا کام ہے ۔
میری اس دعوت کا باعث یہی ہے کہ میں اللہ کی جانب سے اس دعوت پر مامور ہوں، تاکید اور تہدید سے میں اپنی دعوت تم تک پہنچاتا ہوں۔ اللہ نے مجھے تفرض الطاعۃ بنایا ہے(یعنی میری اطاعت فرض ہے) میں تمام انس و جن کی طرف اس دعوت کو پہنچا رہا ہوں۔ اس مضمون سے کہ میں ولایت محمدیہ کا خاتم ہوں، میں اللہ کا خلیفہ ہوں، جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے مجھ سے رو گردانی کی گویا اس نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے روگردانی کی۔ اے لوگو! مجھ پر ایمان لاو تاکہ تم کو چھٹکارا نصیب ہو۔
میری بات سنو اور میری پیروی کرنے میں جلدی کرو تاکہ تم فلاح پاسکو، جو کوی میرا انکار کرے گا اور میرے احکام سے سرتابی کرے گا اس کو اللہ اپنی شدید پکڑ میں پکڑے گا
اے لوگو! اس دن کے عذاب سے بچو جس دن پہاڑ باریک ریت کی طرح پیس دیئے جائیں گے، تم اس دنیا سے اس حالت میں سفر مت کرو کہ ہلاکت میں گرفتارہو۔ حسنِ ثواب آخرت اختیار کرو۔ اس ثوابِ آخرت کو کھوٹے داموں کے عوض نہ بیچو تم سمجھدار ہو۔ اگر تم سمجھتے ہو کہ میں بناوٹی ہوں اور میں اللہ تعالیٰ پر افترا کر رہا ہوں تو تمہارا فرض ہے کہ تحقیق کرو اور اس بات کے لیے جدوجہد کرو۔اگر تم نے میری بات پر توجہ نہ دی تو تمہارا جھٹلانا ثابت ہو گا۔ تم حق بات کی تحقیق پر قادر ہو اگر تم نے مجھے جھوٹ پر چھوڑ رکھا تو لازماً تم ماخوذ ہو گے۔ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں اور اللہ تعالیٰ شہادت کے لیے کافی ہے کہ میں امت محمدیہ کا دافع ہلاکت ہوں اور گمراہی سے بچانے والا ہوں تم پر لازم ہے کہ دھوکے میں نہ رہو بلکہ میرے اقوال افعال اور احوال کو قرآن پاک سے ملاو اور غور کرو۔ اگر میرا ہر کام اور میرا ہر حال قرآن کے مطابق ہے تو میرا کہا مانو، ورنہ مجھے قتل کر دو۔ یہی تمہاری نجات کا ذریعہ ہے۔ اللہ سے ڈرو اور قلبِ عاجز سے اس کی جانب متوجہ ہو جاو کیونکہ وہ مہربان اور متوجہ ہونے والا ہے، وہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے یہ بات نصیحت ہے اس کے لیے جس نے قلبِ حاضر اور رگوشِ واسے اس کو سنا"
(آہ مہدوی تحریف ص ۴۷ تا ۴۹ بحوالہ قول المحمود)
رینہء مہدویت
سید محمد جونپوری کے والد کا نام عبداللہ نہ تھا اور نہ ہی والدہ کا نام آمنہ ، بلکہ جب سید محمد نے مہدی ہونے کا دعویٰ کرنے کا ارادہ کیا تو یہ خیال گزرا کہ حدیث میں مہدی کے والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام آمنہ آیا ہے اس لیے اپنے والدین کا نام تبدیل کر کے حدیث کے پیشینگوئیوں سے مطابقت اختیار کر لی جائے۔ چناچہ اپنے والدین کے نام تبدیل کروا دیے جب وہ ان ناموں سے مشہور ہو گئے تو مہدی ہونے کا دعویٰ کر دیا اس کے ہمعصر مصنفین میں سے کوی بھی والد کا نام عبداللہ اور والدہ کا نام آمنہ نہیں لکھتا بعض کی عبارت درج ذیل ہے:
الجونپوری: سید محمد الکاظمی الحسینی بن سید خان المعروف بڈھ اویسی اور والدہ کا آقا ملک مہدی ہونے کا مدعی، جونپور میں بروز یکشنبہ ۲۴ جمادی الاول ۸۴۷ء کو پیدا ہوا۔ ہمعصر ماخذ مین سے کوی بھی اس کے والدین کے نام عبداللہ اور آمنہ نہیں بتاتا۔ جیسا کہ مہدوی ماخذ مثلاً سراج الابصار میں دعویٰ کیا گیا ہے ۔ بظاہر اس کا مقصد یہ ہے کہ ان ناموں کو نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے والدین کے ناموں جیسا بنا دیا جاے تاکہ حدیث کی بعض پیشینگوئیاں جونپوری پر ٹھیک آسکیں علی شیر قانع تحفۃ الکرام اور خیر الدین الہٰ آبادی کے جونپور نامہ میں ان ناموں کا ذکر ہے۔ یہ بعد کی تالیفات ہیں اس لیے معتبر نہیں۔"
(دائرہ معارف اسلامیہ اردو ص ۵۶۱ ج ۷، دانشگاہ پنجاب لاہور)
علامہ عبدالحئی بن فخر الدین الحسینی اپنی مشہور کتاب "نزہتۃ الخواطر" کے سلسلہ نمبر ۴۸۶ میں لکھتے ہیں:۔
الشیخ الکبیر محمد بن یوسف الحسینی الجونپوری المتمذھبی المشھور بالھند ولد سنۃ سبع واربعین وثمان مائۃ بمدینۃ جونپور (نزہۃ الخواطر ص ۳۲۲ ج۴) اس کتاب میں آگے چل کر ان کی مزید نقاب کشای کرتے ہیں ۔ قال ابورجاء الشاھجہان پوری فی الھدیۃ المھدویۃ ان الجونپوری لم یمسخ اصحابہ عن ذالک (ای عن نسبتہ الی المھدی الموعود۱۲مولف) وبدل اسم ابیہ بعید اللہ و اسم امہ مآمنہ و اشاعھا فی الناس وصنف کتاباً فی اصول ذالک المذھب"
(نزہۃ الخواطر ص ۳۲۴ ج۴ مطبوعہ دائرۃ المعارف، حیدرآباد دکن )
ملا عبدالقادربدایونی کی فارسی تاریخ" منتخب التواریخ" کے مترجم محمود احمد فاروقی نے حاشیہ میں لکھا ہے ۔۔ "سید محمد جونپور کے رہنے والے تھے۔ان کے والد کا نام یوسف تھا ، ایک مجذوب شخص دانیال کے مرید و خلیفہ ہوئے ۔ ’’
(ترجمہ منتخب التواریخ ص ۲۱ )
بہرحال سید محمد جونپوری کے والد کا نام یوسف یا سید خان یا سید محمد یوسف خان ، لیکن اتنی بات پائہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ والد کا عبد اللہ نام مہدویت کے شوق کے بعد۔۔۔ رکھا گیا ہے ۔ ایسے ہی والدہ کا اصل نام آقا ملک تھا جسے ہوسِ مہدویت نے آمنہ سے بدل دیا اور آقا ملک (آغا ملک ) کا عرفی نام تجویز کر دیا ۔ اس سے قارئین حضرات بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سید محمد جونپوری نے جس طرح والدین کے نام بعد میں نقلی تجویز کر ڈالے ، ایسے ہی دعوٰی مہدویت بھی نقلی ہے جسے بالفاظدیگر مصنوعی مہدی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔
ذکری مذہب
یہاں یہ بات ثابت ہوگئی کہ سید محمد جونپوری نے مہدی آخر الزمان ہونے کا دعویٰ کیا ہے ۔ اب ہم مذہب ذکری کے متعلق کچھ مختصراً عرض کریں گے ۔
یہ لوگ اس کے قائل ہیں کہ سید محمد جونپوری مہدی آخر الزمان ہیں ، نیز اس کو رسول بھی مانتے ہیں چنانچہ ان کا کلمہ اہل ِ اسلام کے کلمہ سے برعکس یہ ہے : لاا لٰہ الّا اللّٰہ نورپاک محمد مھدی مراد اللّٰہ ۔
(بلوچستان گزیڑ جلد ۷ آرہیوزبلر ۱۹۰۷ ء مکران ص ۱۱۹ )
نیز یہ کبھی اپنا کلمہ یوں بھی پڑھتے ہیں
(لاالہ الا اللّٰہ نور پاک محمد مھدی رسول اللّٰہ (ملّت بیضا
یہ لوگ اپنے پیغمبر کو عام طور پر محمدی مہدی اٹکی کہتے ہیں ان کا خیال ہے کہ ان کا پیغمبر محمدمہدی اٹک پنجاب سے مکران آیا تھا ، وہ ایک نور تھا جو ظاہر ہو کر ان کے بزرگوں کو دین کا راستہ بتا کر رُوپوش ہوگیا ۔ ان کا خیال ہے کہ اس واقعہ کو چار پانچ سو سال گزرچکے ہیں اور ان کے تفصیلی حالات (مہدی نامہ ) میں لکھے ہیں مگر وہ یہ کتاب کسی کو نہیں دکھاتے یہ کتاب فارسی زبان میں ہے ۔ (ماخوذ ازملّت ِ بیضا ص ۱۷)
لیکن ان کا یہ خیال غلط ہے ، یہ محمد اٹکی ،سید محمد جوبپوری ہی کو کہتے ہیں اور ہم پیچھے بتاچکے ہیں کہ سید محمد جونپوری مکران کے علاقے میں گئے ہی نہیں ، بلکہ جب پنجاب (ہند ) سے نکلے تو بلوچستان کے اس راستے سے گئے جو قندھار جاتا ہے ، پہلے قندھار اور پھر (فراہ ) چلے گئے اور فراہ میں ہی انتقال ہوا ، اس لیے مکران میں ان کے آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ ابو سعید بلیدی جو سید محمد جونپوری کے ہاتھ پر بیعت ہوئے تھے اُن کے ہاتھوں مکران میں یہ فتنہ آیا ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کہ اس علاقے میں بلیدیوں کی حکومت تھی ، یہ پندرھویں صدی عیسوی کا زمانہ تھا ۔ اس زمانہ میں ایران پر صفوی خاندان کا شاہ اسمٰعیل صفوی جو غالی شیعہ تھا فرمانروا تھا اور ترکی میں سلطان سلیم اوّل کی حکمرانی تھی ۔ پرتگیز ، ولنذیر اور انگریز اسی زمانے میں بحیرہ عرب سے ہندوستان میں تجارت اور سیاسی قسمت آزمائی کرنے میں مصروف تھے ۔ ان کی وجہ سے ہندوستان کےعازمین ِ حج کوکافی دِقّت اٹھانی پڑی ۔ یہ تفصیلات مہدی تحریک سے متعلق تقریباً سب ہی کتب میں لکھی ہیں ۔
ذکریوں کے عقائد
مہدوی اور ذکری فرقے کے تاریخی حالات پیش کرنے کا یہاں موقع نہیں ہے ، چند باتیں بطور پس منظر و اظہار ِ حقیقت ذکر کردی گئی ہیں ۔ اب ذیل میں اُن کے چند عقائد ذکرکیے جاتے ہیں : ۔
ذکریوں کا کلمہ الگ ہے ۱۔
ذکریوں کے کلمہ سے متعلق کچھ حوالے ہم پیچھے ذکر کرچکے ہیں ۔ مزید حوالے ملاحظہ ہوں :
‘‘ اوّل آنکہ فرقۂ داعیان کلمہ طیبہ رابدیں طریق میگونید
لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ محمّد مھدی رسول اللّٰہ
(عمدۃ الوسائل ص ۱۶ )
ان کے جدید کلمے میں نور پاک کا حوالہ بھی ہے (میں ذکری ہوں ص ۳۶ ج۱ ) نیز ذکری اور داعی لوگ ‘‘ رسول اللہ ’’ کی جگہ بسا اوقات ‘‘امر اللہ ’’ یا ‘‘ مراد اللہ ’’ بھی کہتے ہیں ، ان کا ایک کلمہ وہ ہے جسے وہ اپنی پنجگانہ تسبیحات میں پڑھتے ہیں ۔ لَا اِلٰہَ اِلّا اللہُ الْمُلْک الحقّ المبین نور محمّد مھدی رسول اللہ صادق الوعد الامبن (ترجمہ ) اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، بادشاہ ہے ، برحق ہے ، ظاہر ہے ، نور محمد مہدی اللہ کے رسول ہیں ، جو وعدہ کا سچّا اور امانت دار ہے ۔ (ذکر توحید ص ۱۶،۱۴،۱، و مہدوی تحریک ص ۴۷ ) ۔
نماز کے منکر ہیں ۲۔
یہ لوگ نماز کے منکر ہیں اور نماز کی بجائے پانچ وقت ذکر کرتے ہیں ۔ (میں ذکری ہوں ص ۷ )
دویم آنکہ داعیان در آدائے نماز پنچگانہ براہ انکار و اعراض امدہ اندومی گویند نماز یکے شما مردماں میخو انند ۔ درپنج وقت علی التعیین فرض فجر وظہر ، و عصر ومغرب و عشاء ثبوتی ندارد و خداوند ِ تعالیٰ حکم عدم قرب نماز دادہ است بمقتضائی آیت یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْرَبُو االصَّلوٰۃَ (ترجمہ ) اے مومنان نزدیک مشوید نماز را
(عمدۃ الوسائل از مولانا محمد موسی ٰ صاحب ص ۱۰)
(مکران تاریخ کے آئینہ میں ص ۱۰ وغیرہ )
رمضان کے روزے کے منکر ہیں ۳۔
سویم آنکہ مذہب والا داعیان درماہِ صیام رمضان المبارک روزہ نمی دارندا در تمام ماہ ِ رحمٰن وشہر سجان بشوق وذوق درخور دن و چریدن مشغول اند ۔ ازفرضیتِ صیام منکر اند ومیگویند کہ خداوند تعالیٰ گفتہ است نجوریدو نبو شید خطاب بما داعیان کردہ است قَالَاللّٰہُ تَعَالیٰ کُلُوْا وَاشْرَبُوْا۔ آہ گفت خداوند بخورید نبوشید ہرآں عمل کہ خداوند بجا آوردہ درماہِ رمضان خور دونوش داریم ۔
(عمدۃ الوسائل ص ۲۸ )
نیز ذکریوں کی اپنی کتاب ‘‘ میں ذکری ہوں ’’ میں لکھا ہے کہ وہ رمضان کے بجائے دوسرے دنوں میں تین ماہ آٹھ دن روزوں کے قائل ہیں ۔ وہ اس طرح کہ ہر دو شنبے ایامِ بیض اور ذی الحجہ کے آٹھ ، یہ کُل تین ماہ آٹھ دن ہوگئے ۔’’
(میں ذکری ہوں ص ۷ ج ۱ و ص۳۹،۳۸،۳۷ ج ۱ )
حج بیت اللہ کے منکر ہیں ۴۔
یہ لوگ (ذکری اور داعی ) حج بیت اللہ کے منکر ہیں اور خانہ کعبہ کو قبلہ تصوّر نہیں کرتے ۔ حج بیت اللہ کے بجائے کوہِ مراد میں جاکر حج کرتے ہیں ، جو تربت (ضلع مکران ) کے قریب ایک میل کے فاصلے پر ایک پہاڑ ہے (ماخوذ مہدوی تحریک ص۷۱ ) ۔
مولانا محمد موسیٰ صاحب دشتی لکھنے ہیں
‘‘ چہارم آنکہ منکر بیت اللہ خانہ کعبہ شریف بقصدِ زیارت ہستند ( الی قولٖہ ) وہ کوہِ مراد راکہ ذکرِ آن گزشتہ بود۔قبلہ خود مقرر کردہ اند (الیٰ قولہٖ)
یہ لوگ ۲۷ رمضان اور نہم ودہم ذی الحجہ کو زیارت کے بہانے حج کرتے ہیں (مہدوی تحریک ص ۷۱ سپاہنامہ آل پاکستان مسلم ذکری انجمن ص ۱۱،۱۰ )
برائے زیارت و طواف کوہِ مراد فراہم وجمع می شوند ’’۔ (عمدۃ الوسائل ص ۳۰،۲۹ ) ۔
کعبۃ اللہ کے قبلہ ہونے کے قائل نہیں ۵۔
مولانا محمدموسیٰ عمدۃ الوسائل میں لکھتے ہیں
‘‘ ایضاً پنجم آنکہ از توجہ بطرفِ کعبہ ضرورت عبادت ندانند ، میگویند ملائیان فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہ پس ہر جا کہ روی آرید پس آنجا خدائی تعالیٰ ہست ، لہٰذا توجہ کعبہ قبلہ ضرورت ندارہ ۔ (عمدۃ الوسائل ص ۳۱)
دین یا مذہب
عام لوگوں کو مغالطہ میں ڈالنے کے لیے دین و مذہب کی عجب تقسیم کرکے لکھتے ہیں
ہم مسلمانوں کا دین ایک اسلام ہے ، لیکن مذہب الگ الگ ہیں ۔ جیسا حنفی ، حنبلی ، مالکی ، شافعی ، جعفری ، شش امامی ، ذکری اور اہلحدیث وغیرہ وغیرہ ۔ ہمارا اور ان سب کا دین اسلام ہے اور جو اسلام سے خارج ہے وہ کافر ہے ۔ (میں ذکری ہوں ص۶ ج ۱ ) ۔
یہ عجب اتحاد اسلام ہے کہ کلمہ مسلمانوں سے الگ ہے۔ نماز ، روزہ حج جیسے اصول ِ اسلام کے منکر ہیں ، مگر مسلمان ہیں ۔
عبادات کا ذکری تخیّل
کتاب ‘‘ میں ذکری ہوں ’’ کا مصنف عبادات کے بارے میں اپنا نظریہ یوں لکھتا ہے:
‘‘ میری عبادت یہ ہے ، ذکر خداوندی پانچ وقت ، رکوع اور سجدے تین وقت اور روزہ ہم سب مذہبوں سے زیادہ رکھتے ہیں ، یعنی سال میں تین ماہ آٹھ دن اور زکوٰۃ چالیس پر ایک اور عشرہ یعنی دسواں حصہ ہر آبادی پر یا کمائی پر اور یہ ہم فرض جانتے ہیں ۔ ’’ ( میں ذکری ہوں ص ۷)
ان کے علاوہ ذکری ’’ غسل بعد جماع و احتلام کے قائل نہیں (عمدۃ الوسائل ص ۳۲ ) میّت کے لیے نماز جنازہ کے قائل نہیں صرف دعا کرتے ہیں جو ذکر خانہ میں ہوتی ہے ۔ (میں ذکری ہوں ص ۴۵ ج ۱ ) ۔
ان کے علاوہ اور بھی کئی خرافات ہیں جن کا تحریر میں لانا مناسب نہیں ۔
چوگان یا مذہبی رقص
اس سے قبل کہ ہم استفتاء مندرج سوالات کا جواب دیں ، ذکری مذہب کے ایک سماجی رقص کا تذکرہ کرتے ہیں :۔
چوگان
یہ ایک قسم کا سماجی رقص ہے جسے مذہبی رنگ دے دیا گیا ہے ، یہ چوگان چاندانی راتوں اور مقدّس راتوں میں بالعموم کُھلے میدانوں میں ہوتا ہے ۔ جوان بچے اور بوڑھے سب اس میں بڑے انہماک سے حصہ لیتے ہیں ۔ چوگان میں شریک ہونے والے ایک دائرے میں کھڑے ہوجاتے ہیں اور وسط میں کوئی خوش گلو مرد یا عورت جو چوگان کے قدموں اور حرکتوں سے کماحقہ واقف ہوتا یا ہوتی ہے کھڑے ہو کر صفتِ مہدی اور حمد خدا کے اشعار پڑھنا شروع کرتے ہیں اور تمام شر کاء جنہیں جوابی کہا جاتا ہے۔شاعر کے منہ سے نکلنے والے الفاظ پر حرکت میں آجا تے ہیں اور شعر کا آخری مصرع بہ یک زبان دہراتے ہیں ۔ چوگان میں کسی قسم کا آلہ موسیقی استعمال نہیں کیا جاتا ۔
چوگان کے بول تین طرح کے ہوتے ہیں ، دوچاپی ، سہ چاپی اور چار چاپی ، مثلاً ھادیاً مہدیا ، نازنین ِ مہدیا ، اللہ یک ، مہدی برحق ،یاراں مہدیا ، بلوٹیت ، مہدی منی دل مراد وغیرہ (مہدوی تحریک ص ۷۲)
مذکورہ چوگان (سماجی رقص ) میں یہ لوگ دائرے کی شکل می کھڑے ہوتے ہیں ۔ جب چوگان کے بول بولے جاتے ہیں تو رقص کی طرح وہ اوپر نیچے ہوجاتے ہیں اور آگے پیچھے اس طرح سے ہٹتے جاتے ہیں کہ دائرہ اپنے حال پر باقی رہتا ہے ۔ ذکری مذہب میں یہ رقص بہت بڑا ثواب ہے ۔ اس میں شامل ہونےوالوں کے ثواب کا تو کوئی اندازہ نہیں ، اس کے تماشائی بھی بہت بڑا ثواب کماتے ہیں ۔
ایک عزیز نے بتایا کہ انہوں نے دو مدعی ‘‘ مہدیٔ آخرالزمان ’’ دیکھے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ذکریوں کی طرح انہوں نے بھی اپنے ماننے والوں کی اصلاح کے لئے اسی سے ملتا جلتا ایک رقص اختیار کیا ہوا ہے جس میں حسبِ ضرورت عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں ۔ مذکورہ بالا دو مہدیوں میں سے ایک کا رقص اکثرو پیشتر پچھلی رات کو ہوتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کو خود ناچنے اور لوگوں کو نچانے کا شوق ہوا تو اپنی اس ہوس اور خواہشات ِ نفسانی کوپورا کرنے کے لیے مہدویت کا جال استعمال کیا۔ ؎
دل کے بہلانے کو یہ چال بھی کیا خوب چلی
یہ لوگ ، سید محمد جونپوری کے ایک جملے سے اپنے دائرہ یا مذہبی رقص پر استدلال کرتے ہیں ۔ اگرچہ سید محمد جونپوری کا اصطلاحی دائرہ کسی اور ڈھنگ کا تھا ، وہ قول یہ ہے :
‘‘میرے دائرے کا کتّا بھی ضائع نہیں ہوگا ’’ ۔
(مہدویت تحریک ص ۷۶ )
ذکری کافر ہیں
ذکری چونکہ محمد مہدی کو رسول مانتے ہیں ، اس کے نام کا کلمہ بھی پڑھتے ہیں اور اصول ِ اسلام نماز ، روزہ ، حج وغیرہ کے منکر ہیں ۔ اس لیے ان کے کافر ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ نہیں ۔
آمدم بر سرِ مطلب
اس تفصیل کے بعد اب مختصراً مطلوبہ سوالات کے جوابات ملاحظہ ہوں : ۔
۱۔ذکریوں سے نکاح جائز نہیں ہے ۔ قال فی الدر (و) حرم نکاح (الوثینۃ) قال فی الشامیۃ تحت (قولہ الوثنیۃ ) وید خل فی عبدۃالاوثان عبدۃ الشمس (الیٰ قولہٖ )وفی شرح الوجیز وکل مذہب یکفر بہ معتقدہ آہ قلت و شمل ذلک الدروز و النصیریۃ والتیامنۃ فلا تحل منا کحتہم وتو کل ذبیحتہم لانھم لیس لھم کتاب سمادی ۔
(الشامیۃ ص ۳۱۴ ج۲ )
۲۔چونکہ نکاح شروع سے ہوا ہی نہیں ، اس لیے علیٰحدگی اختیار کرلی جائے اور اتنی مدت جو بلا نکاح میاں بیوی کی صورت میں ایک ساتھ رہے اس سے توبہ کرے ۔
۳۔جو بچے پیدا ہوئے ہیں وہ ولد الزنا ہیں ۔ ان کا نسب ثابت نہیں ، چونکہ ان کا باپ نہیں اس لیے ماں کی کفالت میں رہیں گے ۔ باپ کے ساتھ ان کی وراثت کا کوئی تعلق نہیں ۔
۴۔اہل ِ کتاب وہ ہیں جو کسی سچے رسول کی طرف منسوب ہوں اور ذکری مذہب والے محمد مہدی کو رسول مانتے ہیں جو ان کے کلمہ لا الٰہ الّا اللہ نور پاک محمّد مھدی رسول اللہ سے صاف ظاہر ہے ، حالانکہ سید محمد جونپوری نبی نہیں ، اس لیے یہ لوگ اہل ِ کتاب نہیں ۔
۵۔ان کے ہاتھ کا ذبیحہ حلال نہیں ہے ۔ عبارت سوال ۱ کے جواب میں ملاحظہ ہو ۔ ذبیحہ کے حلال ہونے کے لیے صرف کلمہ اور اللہ اکبر کہنا کافی نہیں ، بلکہ اس کے لیے مسلمان یا اہل ِ کتاب ہونا لازم ہے ۔
فقط واللّہ تعا لیٰ اعلم۔
مفتی رشید احمد عفی عنہ
یکم ربیع الثانی ۹۶ ھ