visitors

free counters

Saturday 31 December 2011

غیر مسلموں میں شادی اور وحید الدین

ہندوستان کی سپریم کورٹ نے حال ہی میں ایک فیصلے میں کہا ہے کہ غیر مذہب یا غیر برادری میں شادیوں کاہونا ملک کے مفاد میں ہے اور چونکہ اس سے سماج میں رواداری بڑھیگی اس لیے اسے فروغ دینا چاہیے۔

ماہرین کا کہنا ہے عدالت نے سماج کو صحیح پیغام دیا ہے لیکن فرد کی آزادی اور سماج کے درمیان کشمکش اتنی زیادہ ہے کہ ایسی شادیوں کو برداشت برائے نام کیا جاتا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ایسے جوڑوں کی حفاظت کی ذمہ داری پولیس پر ہے اور یہ کہ انتظامیہ انکی مدد کرے۔

دِلّی یونیورسٹی میں سماجی علوم کی ماہر پروفیسر رادھکا چوپڑا کہتی ہیں کہ آئین میں انفرادی آزادی کو بڑی اہمیت دی گئی ہے اور عدالتیں چاہتی ہیں کہ فرد کی مرضی کے خلاف اس پر کچھ بھی نہ تھوپا جائے۔ ’لیکن ہم سماج کےایسے تانے بانے میں رہتے ہیں جہاں کمیونٹی فرد پر اپنی مرضی تھوپتی ہیں۔ یہ آئین کے خلاف ہے۔ سماج میں یہ کشمکش بہت پرانی ہے کہ فرد بڑا ہے یا سماج اور یہی سب سے بڑی مشکل ہے‘۔


پروفیسر رادھکا کے مطابق پورا سماج ایک تبدیلی کے دور سے گزر رہا ہے اس لیے ’کنفیوژن‘ زیادہ ہے۔ ’ کئي امور میں انفرادی آزادی کوخوب ہوا دی جاتی ہے لیکن لوگ سماجی رسم رواج چھوڑنا بھی نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی لڑکا یا لڑکی سماجی روایت سے الگ شادی کرتی ہے تواس پر ظلم و تشدد کیا جاتا ہے‘۔ رادھکا کہتی ہیں کہ ہندو سماج میں ذات پات کا سسٹم عقیدے پر مبنی ہے اس لیے اس سے چھٹکارا پانا بڑا مشکل ہے۔

مولانا وحید الدین کہتے ہیں کہ اسلام میں ذات پات کی کوئي جگہ نہیں ہے لیکن بر صغیر میں ہندوؤں کی رسم رواج مسلمانوں میں بھی عام ہوگئی ہیں۔’حنفی فقہ میں برابری میں شادی نہ کرنے کو کفر کہا گیا ہے۔ یہ بے بنیاد بات ہے اور اسلام میں اس کی کوئی جگہ نہیں، فقہ حنفی کے زیر اثر ہی مسلمانوں میں یہ برائیاں پھیلی ہیں۔ میں اسے پوری طرح غلط مانتا ہوں اور اسے ختم ہونا چاہیے‘۔

وحید الدین خان کے مطابق مسلمانوں میں عام طور پر اگر معاشی برابری پائی جاتی ہے تو شادیاں ہو جاتی ہیں۔

محمد خرم اور سونیا نے دو ماہ قبل گھر سے فرار ہوکر شادی کی تھی۔ چونکہ مسئلہ ہندو اور مسلمان کا تھا اس لیے دونوں کے گھر والوں نے شادی سے انکار کردیا تھا۔ دونوں نے نئي زندگی شروع کی ہے لیکن خوف کے سائے میں۔ خرم کہتے ہیں ’شادی کے بعد مجھے ایسی جگہ رکنا پڑا جہاں کسی کو پتہ نہ چل پائے کہ لڑکی ہندو ہے اور میں مسلم، اب کیا بتاؤں کن پریشانیوں سے گزرنا پڑا ہے۔ اس امید پر جی رہے ہیں کہ آگے سب ٹھیک ہوجائے گا‘۔

سونیا نے بچنے کے لیے نقاب پہننا شروع کردیا ہے۔’میرے گھر والوں نے مجھے مارنے کی دھمکی دی تھی لیکن میں نے وہی کیا جو میرے دل نے کہا اب جو ہو سو ہو میں نے شادی تو کر ہی لی ہے‘۔

پروفیسر رادھکا کہتی ہیں کہ غیر برادری یا غیر مذہب میں شادیاں ہوتی رہی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سماج میں اسے آج بھی مقبولیت حاصل نہیں ہے۔ ’عام طور سے ایسے لوگوں کا سماجی بائیکاٹ کیاجاتا ہے۔ میں نے ایسی کئی شادیاں دیکھی ہیں جو سماجی بائیکاٹ کے سبب مایوسی کی زندگی جی رہے ہیں۔ سب کچھ ہونے کے باؤجود وہ اپنے ماں باپ و ديگر رشتے داروں سے الگ تھلگ ہیں‘۔

رادھکا کے مطابق اگر سماج میں ایسی شادیاں مقبول ہوں تو اس سے ضرور رواداری اور بھائی چارہ بڑھے گا لیکن موجودہ حالات میں اسکے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے۔

Tuesday, 19 September, 2006, 09
صلاح الدین
بی بی سی اردو ڈاٹ کام دلی

No comments:

Post a Comment