visitors

free counters

Monday 12 December 2011

عصر حاضر اور ایمان کے ڈاکو

عصرِحاضر اور ایمان کے ڈاکو

مولانا محمد حذیفہ وستانوی


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ، روحانی اور مادی دونوں انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان اور علم کی ایسی شمع روشن کی کہ جس کی کرنیں صرف مسلمانوں ہی کے لیے مشعل راہ ثابت نہیں ہوئی، بل کہ غیروں کی ذہنی اور فکری سطح کو جلا بخشا اور ہوا، آگ ، پتھر کو جو معبودیت کا درجہ دے رکھا تھا جس کی وجہ سے اس پر تحقیق، ریسرچ اور تجربہ نہیں کررہے تھے، اب وہ ذہنیت پاش پاش ہو گئی، اگرچہ اس کی ظاہری صورت باقی ہے ،مگر حقیقی صورت باقی نہیں رہی، مگر یہ بات پیشِ نظر رہے کہ آپ کا اصل مشن تھا انسانوں کو روحانیت کی معراج پر پہنچانا، دنیا سے استفادہ کرتے ہوئے، نہ کہ دنیا سے کٹ کر اور رہبانیت اختیار کرکے، یہی دین اسلام کا اہم امتیازی پہلو ہے ، اسی لیے دنیوی ترقی کی پہلی اینٹ اور اس کی بنیاد مسلمانوں نے ہی ڈالی، فلکیات کے میدان میں ہو، انجینئری کے میدان میں ہو یا اسلحہ سازی کے میدان میں، سب سے پہلے مسلمان ہی قدم رنجہ ہوا اور سب برکت تھی اسلام پر عمل پیرا رہنے اور قرآن و حدیث سے وابستہ رہنے کی۔ اس دور کے مسلمانوں کے یہاں اسلام ایمان اور اس کے تقاضوں کو ہر حالت میں ترجیح دی جاتی تھی، جب کہ آج معاملہ برعکس ہوچکا ہے؛ اسلام اور ا یمان پر عمل ہو ،یا نہ ہو دنیوی ترقی ہونی چاہیے، اس فکر نے ہمیں قعر مذلت میں دھکیل دیا ہے، تو آیئے! ہم معلوم کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں یہ فکر اور غلط انداز کیسے پیدا ہوا؟ یہ کوئی اتفاقی صورت حال نہیں ہے، بل کہ ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے، جس میں کوئی شک نہیں ۔

ساتویں صدی سے لے کر اٹھارھویں صدی تک یعنی گیارہ سو سال تک دنیا پر اسلام کا غلبہ رہا، کیوں کہ اس عرصے میں خلافت اسلامیہ باقی تھی، اگر کسی خطے میں خلافت کا اثر ورسوخ کمزور ہو جاتا تو اللہ کسی دوسرے خطے میں اس کو مضبوط انداز میں کھڑا کردیتا، خلافتِ راشدہ کے بعد خلافت بنوامیہ اور بنوامیہ کے بعد عباسیہ اور خلافت عباسیہ کے بعد خلافت عثمانیہ،؛ اس طرح 1923ء تک خلافت کا یہ سلسلہ برابر جاری رہا، اس دوران چھوٹی چھوٹی حکومتیں اور خلافتیں بھی مختلف خطوں میں قائم ہوتی رہیں، جن کے اثرات اور اسلام کے لیے خدمات بھی کوئی معمولی درجہ کی نہیں تھیں، بل کہ ان کے کارنامے بھی آبِ زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں، مگر یہ سب اس حالت میں تھا، کہ مسلمان عوام و خواص ،چاہے وہ علما ہوں یا سیاست داں، اسلام سے ان کار بط بہت گہرا ہوتا تھا؛ اسلام اور اس کے تقاضے ان کے نزدیک ہر حالت میں راجح ہوتے تھے، وہ اس کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔

آپ تاریخ اٹھا کر دیکھیں، قرنِ اول میں حضرات صحابہ میں خلفائے راشدین، عشرہٴ مبشرہ، اصحابِ بدر و اُحد و خندق، حضرت حمزہ، حضرت مصعب، اس کے بعد ابوعبیدہ بن الجراح، زید بن حارثہ، جعفر الطیار، سعد بن ابی وقاص، اسامہ بن زید، براء بن مالک، حضرت ابودجانہ، حضرت زید بن الخطاب، حضرت عمار بن یاسر، حضرت عمروبن عاص، حضرت خالد بن ولید وغیرہ(رضی اللہ تعالیٰ عنہم)۔ اس کے بعد تابعین میں حضرت عقبہ بن نافع، مہلب بن ابی صفرہ، اس کے بعد کے ادوار میں، موسیٰ بن نصیر، طارق بن زیاد، محمد بن قاسم، سیف الدین القطر، نورالدین زنگی، اسدالدین شیرکوہ، صلاح الدین ایوبی؛ عثمانی خلافت کے دور میں محمد الفاتح اور خان بایزید، سلطان سلیم، محمود غزنوی، ٹیپو سلطان وغیرہم (رحمہم اللہ تعالیٰ)۔ مگر افسوس کہ آج ہماری نسل ان کے حالات تو دور رہے، ان مجاہدین اسلام کے نام تک نہیں جانتی، حالاں کہ اسباب ظاہری کے درجہ میں ہم تک اسلام انہیں کی بے مثال قربانیوں کے طفیل پہنچا ہے، اگر ہمارے یہ اسلاف چاہے وہ علما کی جماعت میں سے ہوں یا مجاہدین کی جماعت میں سے۔ علما میں مثلاً حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت علقمہ نخعی، حضرت سعید بن المسیب، حضرت عروہ بن زبیر، امام زہری امام سفیان بن عیینہ، امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام اوزاعی، امام محمد بن سیرین، حضرت مجاہد، حضرت مسروق، امام محمد بن ادریس الشافعی، امام ابویوسف، امام محمد، امام احمد بن حنبل، امام حسن بن زیاد، امام زفر بن ہزیل، امام محمد بن اسماعیل البخاری، امام مسلم القشیری، امام ابوداوٴد السجستانی، امام نسائی، امام ترمذی، امام ابن ماجہ، امام طحاوی، امام دارقطنی، امام دارمی، امام عبدالرزاق، امام ابن ابی شیبہ، امام جریر طبری، امام جصاص، امام یحییٰ بن معین، امام یحییٰ القطان، حضرت داوٴدطائی، امام ابوالحسن القدوری، امام ابن قدامہ مقدسی، امام غزالی، امام ابن دقیق العید، امام عزالدین ابن عبد السلام، امام ابن کثیر، امام ابن حجر عسقلانی، امام بدرالدین العینی، امام جلال الدین سیوطی، زرین ابن نجیم ، امام نسفی، ملا علی قاری، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، امام مجدد الف ثانی، شاہ عبد العزیز دہلوی، شاہ رفیع الدین، سید احمد شہید ،شاہ اسماعیل شہید،(رحمہم اللہ تعالیٰ اجمعین)۔

خلاصہ یہ کہ مسلمان عہد قدیم میں اسلام کے ساتھ خوب وابستہ تھا، اسلام اور ایمان کی خاطر مر مٹنے پر ہمیشہ تیاررہتا تھا، مگر دشمن نے مسلمانوں کی طاقت اور غلبے کا راز معلو م کیا اور پھر اس نے اسی اعتبار سے یلغار کی۔ متاخرین مورخین اور باحثین کا عام رجحان ہے کہ ایمان پر ڈکیتی کا آغاز ساتویں صلیبی جنگ کے بعد ہوا ۔ جب فرانس کا بادشاہ1249ء میں گرفتار ہوا اور اسے فدیہ دے کر چھڑا لیا گیا، اگر چہ وہ دوسرے حملے میں قتل کر دیا گیا، مگر گرفتاری کے بعد منصورہ، مصر کے جیل خانے میں وہ یہی سوچتا رہا کہ آخر مسلمانوں میں وہ کونسی طاقت ہے جس کی بنیاد پر وہ شکست کھانے کے لیے کبھی تیار نہیں ہوتا، کیسے بھی حالات کیوں نہ ہوں، وہ ہر حالت میں تن' من' دھن کی بازی لگا دیتا ہے؟ تو وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ مسلمانوں کی کامیابی کا راز ان کا مضبوط اور غیرمتزلزل ایمان ،قرآن و حدیث سے ان کی وابستگی اور والہانہ تعلق، اس کے ساتھ ساتھ شریعت مطہرہ، فقہ اسلامی اور اسلامی اخلاق ،اطوار وعادات اور تہذیب وثقافت کی مکمل پیروی اور تقلید ہے۔

پس اس کے بعد انہوں نے اسلا م کے خلاف میدان جنگ بدل دیا، ا ب انہوں نے مسلمانوں کے اوپر بدنی اور جسمانی حملے کے بجائے عقیدے اور سلوک پرحملے کی تیاری شروع کردی، انہوں نے مسلمانوں کی جان کی بجائے ایمان سلب کرنے کا منصوبہ بنایا، جو پہلے کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہوا، جس کے اثرات بیسوی صدی کے اوائل ہی نہیں، بل کہ انیسویں صدی کے اواخر سے ظاہر ہونے لگے تھے، کس طرح اس کے منصوبے تیار ہوتے آئے، مرحلہ وار ہم اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

عبد اللہ بن عبد الرحمن الجربوع فرماتے ہیں: تاتاری اور صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کے خلاف شکست کے بعد انہیں یقین ہو گیا کہ مسلمانوں کو طاقت اور ہتھیار کے بل بوتے پر شکست دینا ناممکن ہے، لہٰذا کوئی ایسی تدبیر اختیار کی جائے جس سے ان کے ایمان میں ضعف پیدا ہو، وہ قرآن وحدیث سے کٹ جائے، خلافت اسلامیہ کا خاتمہ ہو جائے اور جہاد کی عظمت ان کے دلوں سے نکل جائے، لہٰذااب انہوں نے اسی اعتبار سے تیار ی شروع کی، ایمان پر ڈکیتی کے لیے انہوں نے جو راستہ اختیار کیا، اسے تین مر حلے میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

(۱)مرحلة الإعداد (۲)مرحلة الاستعمار (۳)مرحلة ما بعد الاستعمار۔

مرحلة الإعداد
یعنی اسلامی تعلیمات سے مسلمانوں کو دور کرنے کی ابتدائی کوششیں اور تیاریاں، ویسے تو مغرب کے ذہین افراد اندلس میں فن وہنر میں مسلمانوں کے ساتھ زانوئے تلمذ طے کرنے کے بعد مغرب کی جانب لوٹتے ہیں، یعنی پندرھویں صدی سے اسلام کو ختم کر کے اپنا سکہ جمانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں، مگر یہ کام اتنا آسان نہ تھا، لہٰذا ابتدائی مرحلے میں مغرب نے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش کی، تا کہ آپس میں لڑ کر کمزور ہو جائیں اور پھر ہم ان پر مسلط ہو جائیں، اس کے لیے انہوں نے قومیت کو ہوا دینا شروع کی۔ صدیوں کی مسلسل محنت کے بعد وہ اس میں کامیاب ہو ئے، اس طور پر کہ خلافت عثمانیہ کے زیر نگیں مختلف خطوں میں "علاقائیت" اور "قومیت"، "لسانیت"، "وطنیت " "عربیت " "ترکیت" کے بت پوجے جانے لگے؛ یہ سب آپ ہی آپ نہیں ہو رہا تھا، بلکہ ایک منصوبہ بند طریقہ سے مسلمانوں کا شیراز ہ بکھیرا جا رہا تھا؛ یہ سب اٹھارھویں اور انیسویں صدی کے دوران ہو رہا تھا، یہاں تک کہ ایک ایک کر کے چند نا عاقبت اندیش منافق، مفاد پر ست مسلمانوں ہی نے خلافت سے کٹنا شروع کر دیا، جس کا آغاز محمد علی سے ہوا اور اختتام 1923ء میں اتا ترک ملحد کے خلافت کے خاتمہ کے اعلان پر ہوا؛ جس نے "ترکیت" کا نعرہ لگایا اور چند عرب قوم پرست رہنماوٴں نے "عربیت" کا نعرہ بلند کر کے مسلمانوں کو گمراہ کیا۔ اس طرح اسلامی متحدہ خلافت تقریباً پچاس حصوں میں بکھر کر رہ گئی، جو تاریخ اسلام کا سب سے بڑا المیہ شمار کیا جاتا ہے ۔

مرحلہ استعمار 
اب جب اہل کتاب نے دیکھا کہ ان کا شیرازہ بکھر چکا ہے اور مسلمانوں کا اتحاد پاش پاش ہو چکا ہے، تو اس نے مسلمانوں کی کمزوری کا فائدہ اٹھا نا چاہا، انگریز، فرانسیسی پرتغالی، یہ سب اپنے لاوٴ لشکر کے ساتھ صنعتی انقلاب کے بعد اسلامی ممالک میں داخل ہو ہی چکے تھے، اب آہستہ آہستہ انہوں نے اپنے قدم جمانے کے بعد ان اسلامی ملکوں پر قبضہ شروع کر دیا، پہلے حکومت میں دخیل ہوئے اور بعد میں موقعہ پا کر قابض ہو گئے، اس طرح بڑی تعداد میں اسلامی ممالک ان کے شکنجے میں آگئے۔

اسلامی ممالک پر تسلط کے بعد سب سے پہلے انہوں نے مقبوضہ ممالک میں اسلامی قوانین کو ختم کر کے مغربی قوانین کو نافذ کر دیا اور اس کے بعد نصاب تعلیم کو سیکولر بنا دیا، جس سے مسلمانوں پر بڑے بد ترین اثرات مرتب ہوئے، مسلمان جہاد سے دور ہو گئے، اسلامی غیرت وحمیت رخصت ہو گئی، نصاب تعلیم میں "مادیت" کو رائج کر دیا گیا اور دوسری جانب اپنے ایجنٹوں کو کھڑا کیا، کہیں قادیانی کو، کہیں باب اللہ کو، کہیں بہاوٴاللہ کو۔ اور ان کا مکمل مالی وقانونی تعاون کیا، کہیں جمال الدین افغانی، محمد عبدہ رفاعہ، احمد امین، طہٰ حسین کو ،کہیں سر سید، چراغ علی، غلام احمد پر ویز، تمنا عمادی، عبد اللہ چکڑا لوی، عبداللہ جیے راجپوری، محمد ابوریہ ، عبد الرزاق وغیرہ کو کھڑا کیا اور ان میں سے کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا، کسی نے الوہیت کا دعویٰ کیا، کسی نے معجزات کا انکار کیا، کسی نے غیبیات کا انکار کیا، کسی نے حجیت حدیث کا انکار کیا، کسی نے جمہوریت کو خلافت پر ترجیح دی، کسی نے سر مایہ داریت کو اسلامی معیشت پر ترجیح دی، کسی نے اشتراکیت کو عین اسلام قرار دیا، کسی نے نظریہٴ ارتقا کو قرآن وحدیث سے ثابت کر نے کی ناکام کوشش کی۔ یہ سب کچھ انیسویں صدی کے اواخر سے لے کر بیسویں صدی کے اوئل میں ہوا۔ گو ہر چہار جانب سے اسلام پر زور دار حملے ہوئے، ایک طرف میدان سیاست میں خلافت کے مقابلہ میں جمہوریت سے، دوسری جانب اسلامی نظامِ معیشت کے مقابلہ میں سرمایہ داریت سے، تیسری جانب تعلیم کے میدان میں علم دنیا سے، چوتھی جانب عقائد اور مذہب کے باب میں توحید وشریعت کے مقابلے میں الحاد، لا دینیت سیکولرازم، لبرل ازم، ہیونزم، ملیٹرل ازم (ایمپیریل ازم)، فرائڈزم، ڈارون ازم ڈیموکریسی وغیرہ سے حملے ہوئے؛ یہ سب در حقیقت ایمان ویقین میں تزلزل پیدا کرنے والے افکار ونظریات ہیں، قرآن وحدیث، فقہ، اصول، قواعد فقہ، تفسیر وغیرہ کے ہوتے ہوئے مسلمانوں کو اس جانب جانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی، مگر ایک ماسٹر پلان کے ذریعہ تعلیم، تحقیق، ریسرچ، تہذیب وثقافت، کلچر کے نام پر اسے میڈیا کے ذریعہ خوب عام کیا گیا، یہاں تک کہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی مغربی افکارو نظریات کو مسلَّم قراردیا جانے لگا اور اسلامی عقائد کو مسلمان بھی شک کی نگاہ سے دیکھنے لگا، فقہ بھی اس کے نزدیک دریا برد کر نے کے قابل قرار پایا اور ہر میدان میں مغرب کی غلامی، فاسد افکار ریڈیو، ٹیلی ویژن، سینما، کالج اور اخبارات و جرائد کے ذریعہ عام کیے جانے لگے ؛اس طرح ان افکار نے ایمان واسلام کو وائرس اوردیمک کی طرح عام مسلمانوں کے دلوں میں کھوکھلا کر دیا ۔

قادیانی، بہائی، با بی، نیچری، قرآنی جیسے فرقے کھڑے ہوئے، ان کی کوشش فریضہٴ جہاد کے انکار کی رہی؛ یہ بات ان عام فرقوں میں قدرِ مشترک طور پر پائی جاتی ہے؛ اس لیے کہ یہ سب ایک ہی گروہ کے پر وردہ تھے اورعقائد میں شکوک وشبہات کے بعد اور غیبیات کے انکار کے بعد، اس کا انکار کوئی بڑی بات نہ رہی، اس کے بعد آج بھی گو ہر شاہی، وحید الدین خان، جاوید غامدی وغیرہ ہمیشہ اسی کوشش میں سر گرداں ہیں کہ امت جہاد کے لیے کھڑی نہ ہونے پائے۔

مرحلہ ما بعداستعمار
اب ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، وہ' وہ دور ہے جس میں اگر چہ اسلامی ممالک آزاد ہو ئے،60 سے متجاوز ہو چکے، مگر اب تک فکری غلامی سے آزادی حاصل نہیں ہوئی، کیوں کہ مغرب ان اسلامی ممالک میں ایسی حکومتیں قائم کرتا ہے جو پورے طور پر مغرب کی باج گزار ہوتی ہیں، مثلاً کمال (زوال ) اتاترک، انور سادات، جمال عبدالناصر، اسد البشار، حسنی مبارک، بے نظیر بھٹو، حسینہ واجد، محمود عباس وغیرہ؛ یہ سب مغرب کے تعلیم یافتہ ہیں؛ یہ برائے نام مسلمان ہوئے ہیں ؛حقیقت کے اعتبار سے ،کمیونزم وغیرہ کے حامی اور پر زور موٴید ہو ئے ہیں؛ ان کو اسلام سے دور کابھی واسطہ نہیں ۔

کس طرح ایمان کو کمزور کیا گیا ؟
مغرب نے اپنے دورِ اقتدار میں عالم اسلام کے چپہ چپہ پر اپنے طرز کے اسکول کا نظام عام کر دیا، جس میں سائنس کے نام پر غیرمصدقہ سائنسی نظریات کی تعلیم پر ائمری سے لے کر گریجو یشن تک دی گئی اور اب بھی دی جا رہی ہے، مثلاً "نظریہٴ ڈارون"، "نظریہٴ فرائیڈ" وغیرہ؛ ان نظریات کو تسلیم کرنے کے بعد مسلمان، مسلمان باقی نہیں رہتا،ایمان واسلام سے ہاتھ دھوبیٹھتا ہے اور اسے اس کا احساس تک نہیں ہوتا، یہی ایمان کے لئے دیمک اور مہلک وائرس کے ہم معنی ہے ۔ 

مغرب نے الحاد، بے دینی یا عیسا ئیت کو عالم اسلام میں فروغ دینے کے لیے رفاہی امداد کا سہا را لیا، مالی امداد وخرچ وغیرہ دے کر غریبوں میں عیسائیت کی تبلیغ کی گئی اورکی جارہی ہے۔

ذہین اور مالدار مسلمان نوجوانوں کو اعلی تعلیم کے لیے مغرب کے کالجوں مثلاً آکسفورڈ ،کمبریج وغیرہ لے جانا اور پھر وہاں ان کی ذہن سازی کرنا اور انہیں عیش کا عادی بناکر اپنا ہمنوا کرنے کے بعد اپنے ملک کی سربراہی پر بیٹھا دینا،پھر اپنے تئیں انہیں اپنا آلہٴ کار بنا کر اسلام اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ان سے کام لینا ۔

عالم اسلام کے نظام تعلیم پر خاص طور پر اورپورے عالم کے نظام تعلیم پر عام طور پر کڑی نگا ہ رکھنا اورتعلیمی نصاب ایسا تجویز کرنا کہ طالب علم دین سے متنفر ہو جائے اور بے دینی کو ترجیح دے کر مذہب کی تاریخی توجیہ کرنا کہ پہلے مذہب نہیں، مذہب بعد کی پیداوار ہے، آخرت کو ئی چیزنہیں، اصل دنیا ہے اور مذہب ایک نجی مسئلہ ہے، اس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں، تعلیم کو خدمت کی بجائے کا روبار کے طورپر متعارف کروایا، کھیل کود تعلیم کا جزولاینفک قرار دینا،وحی کا انکار اور عقل اور تجربہ کو حق وصداقت کے لیے معیار قراردینا ،دین کو دنیا کی ترقی کے لیے روڑا سمجھنا، اسلامی نظریات'کومغربی نظریات کے تا بع کرنا، آزادی کے نام پر دین میں نا اہل ہونے کے باوجود دخل اندازی کرنا، علماء اور دین پرعمل کرنے والوں کو حقیر سمجھنا اوریہ تصور کروانا کہ اسلام عصر حاضر کے مطابق نہیں، سود کو ترقی کے لیے لازم تصو ر کرنا، سنتو ں کو قدیم عربی رسم ورواج کا نام دینا ، اہل مغرب کومہذب اور مسلمانوں کو غیرمہذب ثابت کرنا اور یہ باور کروانا کہ ترقی کا پورا مدار سائنس اور ٹیکنالوجی پر ہے؛ نماز کے لیے وقت نکالنا العیاذباللہ تضیع اوقات کے مترادف ہے، زکوٰة اور ٹیکس کو ایک سمجھنا ، قربانی، حج اور عمرہ میں خرچ کی جانے والی رقم کو بیکار سمجھنا، اس کے بجائے غریب،بیوہ کو رقم دینے کو صحیح سمجھنا، سیاست اور دین کو الگ الگ ثابت کرنا، پارلیمنٹ کو حلال و حرام کی اجازت دینا، الٰہی قانون کے بجائے وضعی اور خود ساختہ قانون کو ترجیح دینا، فیشن پرستی میں مبتلا کرنا، فوٹوگرافی کو معمولی تصور کروانا، ایسا لباس عام کرنا جس سے بدن کی ساخت ظاہر ہو جائے، عورت کو آزادی کے نام پر بے پردہ کرنا، کلچر کے نام پر مختلف ایام کو رواج دینا، جیسے ویلنٹائن ڈے، برتھ ڈے وغیرہ، میوزک کو راحت روح تصور کروانا؛ یہ سب کچھ ہمارے معاشرے میں مابعد استعمار عام ہواہے، جس کو ہم روزانہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، بل کہ مغرب اور حکومت کو خوش کرنے کے لیے، اب ا گر کوئی ان مذکورہ امور کے خلاف لکھتا ہے تو جدید تعلیم یافتہ طبقہ تو چھوڑیے، دنیا پرست علماء بھی اس کو سیکو لرازم کے خلاف تصور کرتے ہیں اور ہمارے مخلص علماء بھی دبی دبی بات کرتے ہیں اور عین اسلام کے مطابق احکام کے بارے میں تاویلات شروع کردیتے ہیں۔یہ سب ایمان کو بربادکرنے کے راستے ہیں۔ 

میڈیا کے ذریعہ فحاشی، عریانی اور بے دینی کو عام کرنا، ایسی ایسی فلمیں بنانا جس میں دین داروں کا مزاق اڑایا گیا ہو اور دین کے پرخچے کردیے گئے ہوں، اسی میڈیا نے تخریب اخلاق و بے دینی کے عام کرنے میں سب سے بڑا رول ادا کیا ہے۔

خلاصہ یہ کہ تعلیم، تہذیب اور میڈیا گویا نام ہے اب دین کو برباد کرنے کا۔ اب بھی مسلمان بیدار ہو جائیں اور جان لیں کہ اصل آخرت ہے دنیا نہیں، اصل رضائے الٰہی ہے منصب نہیں، اصل دین ہے بے دینی نہیں؛ ان تمام مذکورہ راستوں سے اجتناب ایمان کو بچانے کے لیے لازم ہے۔

اللہ ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے اور ہمیں ایمان کے ساتھ موت عطا فرمائے اور ہمارا حشر، قیامت کے دن، ابرار، انبیاء اور صلحاء کے ساتھ کرے۔ آمین یارب العالمین!

شائع ہواالفاروقرمضان المبارک ۱۴۳۱ھ, Volume 26, No. 9

No comments:

Post a Comment