visitors

free counters

Wednesday 14 December 2011

صحابہ کرام کے متعلق باطل نظریہ کا رد

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اس دور کے ایک گمراہ شخص کے صحابہ کرام کے متعلق باطل نظریہ کا رد
واضح ہو کہ اس دور میں ایک شخص پیدا ہوا ہے جس کا زعم ہے کہ وہ اہل السنۃ میں سے ہے، جبکہ اہل السنۃ سے اس کا کوئی واسطہ یا تعلق نہیں ہے، بلکہ وہ ان روافض کے منہج پر قائم ہے جو اپنے سینوں میں صحابہ کے خلاف بغض وعنادرکھتے ہیں، اس شخص کا نام حسن بن فرحان المالکی ہے، یہ سعودی عرب کے انتہائی جنوبی علاقہ بنو مالک کی طرف منسوب ہے۔
اس شخص نے ایک انتہائی سخیف اور گھٹیا سا رسالہ تصنف کیا ہے، جس کا عنوان" الصحابۃ بین الصحبۃ اللغویۃ وصحبۃ الشرعیۃہے (یعنی صحابہ میں لغوی اور شرعی صحبت کا فرق ) اس رسالہ میں اس کا زعم ہے کہ صحابہ صرف وہ مہاجرین و انصار ہیں جو صلح حدیبیہ سے قبل موجود تھے[1] جنہوں نے حدیبیہ کے بعد اسلام قبول کیا یا ہجر ت کی ان کیلئے شرعی صاابیت کا کوئی حصہ نہیں بلہ ان کی صحبت تو منافقین وکفار کی صحبت جیسی ہے۔
اس شخص نے اپنے اس قول سے بہت سے اصحاب رسول کو نبی کی صحابیت سے خارج کر دیا ، جن میں عباس بن عبد المطلب نبی کے چچا ، اور ان کے بیٹے حبر امت ، ترجمان القرآن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم بھی ہیں ۔ اسی طرح ابو موسیٰ اشعری ، ابو ھریرۃ اور خالد بن ولیدرضی اللہ عنھم وغیرہ جیسے بے شمار صحابہ کو شرف صحابیت سے فارغ کردیا ۔
یہ پندرھویں صدی میں ایک بدعت اور محدث قول ہے، اس مالکی سے قبل یہ بات کسی نے نہیں کہی ، سوائے اسی جیسے ایک نوعمر نوجوان کے، جس کا نام عبد الرحمٰن بن محمد الحکمی ہے۔
اس کی اس گھٹیا کتاب میں صحابہ کرام کی عدالت کا بھی انکار ہے، اس کے خیال فاسد کے مطابق اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نبی کے حوض سے دھتکار دیا جائے گا اور نعوذباللہ واصل جہنم کر دیا جائے گا۔
اس کا کہنا ہے کہ صحابہ کرام میں سے بہت تھوڑی تعداد نجات پاسکے گی،(اس نے اس تھوڑی تعداد کے بیان کیلئے" مثل ھمل النعم" کی تعبیراستعمال کی ہے، یہ تعبیر ایک حدیث میں وارد ہوئی ہے، جس کا بیان آگے آئے گا، اس تعبیر سے کسی شئی کی قلت کا اظہار مقصود ہوتا ہے، "ھمل النعم" ریوڑکے ان چند اونٹوں کو کہتے ہیں جو چرواہے کے بغیر دن یارات گزاریں، ایسے اونٹوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔)
اس شخص(مالکی) کےمذکورہ بیانات سے ثابت ہوگیا کہ اس کا تعلق اہل السنۃ سے نہیں بلکہ روافض حاقدین علی اصحاب رسول اللہ سے ہے۔ میں نے ایک کتاب بعنوان" الانتصار للصحابۃ الاخیار فی رد اباطیل حسن المالکی" لکھی ہے، جس میں اس کی تمام اباطیل وخرافات کا رد کیا ہے۔
اس کتاب میں، میں نے حوض سے دور ہٹائے جانے کے تعلق سے لکھا ہے:
مالکی نے جو عدالت صحابہ کا انکار کیا ہے، اس کے رد کی ساتویں وجہ یہ ہے کہ مالکی اپنی کتاب کے صفحہ۶۳میں لکھتا ہےکہ" صحابہ کرام کی مذمت عام میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں، ان میں سے ایک حدیث وہ ہے جس میں صحابہ کے ایک جمِ غفیر کو جہنم کی طرف جاتا دیکھ کر نبیفرمائیں گے یہ تو میرے صحابی ہیں، یہ تو میرے صحابی ہیں۔ کہا جائے گیا: آپ() نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ() کے بعد کیا کیا نئے طریقے اپنالئے۔ یہ بخاری ومسلم کی حدیث ہے، جبکہ صحیح بخاری میں(بقول مالکی) یہ الفاظ بھی وارد ہیں:[ فلا أری ینجومنکم الا مثل ھمل النعم] یعنی تم میں سے بہت تھوڑے لوگ "مثل ھمل النعم" نجات پاسکیں گے۔"
اب اس مخالف ومعاند کا کہنا ہے کہ صحابہ کیلئے کیا امتیاز باقی رہ گیا جبکہ نبی نے فرما دیا کہ ان میں سے بہت تھوڑے لوگ نجات پاسکیں گے ، باقی تمام جہنم میں جھونگ دیئے جائیں گے(والعیاذباللہ) اس حاقد اور معاندنے یہی بات اپنی کتاب کے صفحہ ۶۴ میں دہرائی ہے۔
ہم اس کے جواب میں عرض کرتے ہیں: صحیح بخاری ، کتاب الرقاق کی جس حدیث کا اس نے حوالہ دیا ہے، وہ ابوھریرۃ ؓ سے مروی ہے، اس کے الفاظ یوں ہیں(۶۵۸۷):
[بینا أنا نائم فاذا زمرۃ، حتی اذا عرفتھم خرج رجل من بینی وبینھم ، فقال: ھلم، فقلت: أین ؟ قال: الی النار واللہ! قلت: وماشأ نھم ؟ قال انھم ارتدوا بعدک علی أدبارھم القھقری، ثم اذا زمرۃ، حتی اذا عرفتھم خرج رجل من بینی وبینھم، فقال : ھلم ، قلت : أین؟ قال : الی النار واللہ! قلت: ماشأ نھم؟ قال: انھم ارتدوا بعدک علی أدبارھم القھقری، فلا أراہ یخلص منھم الا مثل ھمل النعم]
ترجمہ: ایک بار میں سو رہا تھا کہ میں نے ایک جماعت دیکھی جب میں ان کو پہچان چکا تو میرے اور ان کے درمیان سے ایک شخص نکلا، اس نے کہا: ادھر آؤ، میں نے پوچھا: کہا؟ اس نے کہا: جہنم کی طرف اللہ کی قسم ، میں نے پوچھا : ان کا کیا معاملہ ہے؟ اس نے کہا: انہوں نے آپ کے بعد اپنی پشتوں کے بل پھر کرارتداد اختیار کرلیا تھا۔ پھر ایک جماعت ظاہر ہوئی، جب میں انہیں پہچان چکا تو ایک آدمی میرے اور ان کے درمیان سے بر آمد ہوا، اس نے کہا: آؤ، میں نے کہا: کس طرف؟ اس نے کہا: جہنم کی طرف اللہ کی قسم، میں نے پوچھا : ان کا کیا معاملہ ہے؟ اس نے کہا: انہوں نے آپ() کے بعد اپنی پشتوں کے بل پھر کرار تداد اختیار کیا تھا۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان میں سے کچھ لوگ بچ کر(حوض تک پہنچ سکیں)، مگر اتنی سی تعداد میں جتنی تعداد میں بن چروا ہے رات یا دن گزار نے والے اونٹ ہوتے ہیں۔
حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
نبی کا فرمان:[بین أنا نائم] اکثر نسخوں میں اسی طرح وارد ہوا ہے، جبکہ کشمیھنی کے نسخہ میں" نائم" بالنون کی بجائے "قائم" بالقاف ہے، اور یہ روایت زیادہ درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ قیام سے مراد قیامت کے دن حوض پہ کھڑا ہونا ہے، اگر"نائم" لیا جائے تو وہ بھی درست ہے، اس سے مراد یہ ہوگا کہ آپ نے دنیا میں خواب میں قیامت کے دن(حوض پہ کھڑا ہونے کا) وہ منظردیکھا (جس کا آپ نے حدیث ِ مزکور میں ذکر فرمایا ہے)
حافظ ابن حجر نے حدیث کے آخری حصہ [فلا أراہ یخلص منھم الا مثل ھمل النعم] کامطلب بیان فرماتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو حوض کو ثر پہ وارد ہونے کیلئے قریب آئیں گے تو انہیں روک دیا جائےگا۔(حافظ ابن حجر مزید فرماتے ہیں) مطلب یہ ہے کہ ان میں سے حوضِ کو ثر پر وارد ہونے والے بہت تھوڑے لوگ ہونگے؛ کیونکہ اونٹوں میں سے بن چروا ہے اونٹ بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔
گویا مذکورہ حدیث میں وارد الفاظ" فلاأراہ یخلص منھم الا مثل ھمل النعمکا مطلب یہ ہے کہ حدیث ِ مذکورہ میں جن دو جماعتوں کے حوض پر وارد ہونے کا ذکر ہے، ان میں سے بہت تھوڑے لوگ حوض پروارد ہوسکیں گے، حدیث مزکور سے کہیں یہ ثابت نہیں ہو رہا کہ آپ پر آپ کے صحابہ کی صرف یہی دو جماعتیں پیش ہونگی۔
مالکی نے جب حدیث مذکورہ کو بیان کیا تو اس میں ایک غلط لفظ ڈال دیا، اور اسی غلط لفظ کی بنیاد پر صحابہ کرام پر ایک غلط حکم عام قائم کردیا، چنانچہ اس کا کہنا ہے کہ صحیح بخاری میںیوں بھی مروی ہے،" فلا أری ینجو منکم الا مثل ھمل النعم" اس نے " منکم" مخاطب کے لفظ کے ساتھ حدیث بیان کی حالانکہ حدیث میں"منھم" ہے ، پھر اس نے اپنے غلط لفظ" منکم" کی بنیاد پر یہ بات کہہ دی کہ صحابہ کیلئے کیا امتیاز باقی رہ گیا جبکہ نبی نے فرمادیا کہ ان میں سے بہت تھوڑے لوگ نجات پاسکیں گے، باقی تمام جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے(والعیاذباللہ)
نیز یہ کہہ دیا کہ نبی نے خبر دی ہے کہ قیامت کے دن آپ کے صحابہ میں سے بہت کم لوگ" مثل ھمل النعم" نجات پاسکیں گے۔
اس نے یہ بات کہہ کر نبی پر جھوٹ باندھا ہے؛ کیونکہ نبی نے یہ خبر نہیں دی کہ صحابہ کرام میں سے بہت کم نجات پاسکیں گے۔(بلکہ نبی کی حدیث کا ملخص یہ ہے کہ قیامت کے دن جو دو جماعتیں حوض پروارد ہونے کیلئے آئیں گی، چونکہ ان میں سے اکثر نے ارتداد اختیار کرلیا تھا لہٰذا ان میں سے اکثر کو حوض سے روک لیا جائے گا اور بہت کم حوض پروارد ہونگے، گویا اس حدیث میں صحابہ کرام کا ذکر نہیں بلکہ ان تھوڑے سے لوگوں کا ذکر ہے، جنہوں نے نبی کےدور میں اسلام قبول تو کرلیا لیکن آپ کے فوت ہوتے ہی ارتداد اختیار کرلیا۔ مترجم)
ہوسکتا ہے مالکی کی مذکورہ بات عمداً نہ ہو بلکہ پر بنائے خطاء ہو(واللہ اعلم)
بعض احادیث میں جو یہ بات وارد ہوئی ہے، کہ آپ کے حوض سے آپ کے اصحاب میں سے کچھ لوگوں کو دور کردیا جائے گا، اور آپ اصحابی یا اصحابی کہیں گے، آپکو جواب ملے گا کہ آ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئی چیزیں اپنا لی تھیں۔ تو اس سے مراد وہ تھوڑے سے لوگ ہیں جو نبی کی وفات کے بعد مرتد ہوگئے تھے، امیر المؤمنین سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے ان مرتدین سے قتال کیلئے اپنے لشکر روانہ کیئے، جو ان مرتدین کو قتل کر کے کامیاب وکامران واپس لوٹ آئے۔
میں کہتا ہوں: اگر اس شخص (مالکی) کے زعم میں اکثر اصحاب رسول کا انجام جنہم کی آگ ہے اور بہت کم نجات پاسکیں گے، تو پھر یہ مالکی اپنے لئے کس قسم کا انجام سوچے بیٹھا ہے۔
ہم اللہ تعالیٰ سے عافیت اور سلامتی کا سوال کرتے ہیں اور ہر قسم کی ذلت وخذلان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں۔
اس شخص(مالکی) کا زعم ہے کہ شرعی صحبت صرف ان مہاجرین وانصار صحابہ کرام کو حاصل ہے جو صلح حدیبیہ سے قبل موجود تھے، صلح حدیبیہ کے بعد آنے والے اس کے زعم ِ فاسد کے مطابق صحابہ کے زمرہ میں شامل نہیں ہیں۔
اب اس کا یہ قول کہ صحابہ میں سے بہت تھوڑے نجات پائیں گے ، بقیہ سب جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے ، اس کا اطلاق انہیں انصار ومہاجرین صحابہ پر ہوگا جو حدیبیہ سے قبل آئے، (کیونکہ وہ انہی کو صحابی مانتا ہے) تو یہ صحابہ جو اس امت کا سب سے بہترین طبقہ ہے، اگر جہنم سے نہیں بچ سکتے تو پھر امت کا وہکون سا فرد ہے جو جہنم سے بچ سکے گا۔
یہود وںصاریٰ بھی موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے اصحاب کے بارہ میں وہ بات نہیں کہہ سکتے جو یہ مالکی کہہ گیا ، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ شخص قبیح وفساد اور شر کی انتہاء کو پہنچا ہوا ہے، جو شخص بھی اس کی یہ بات سنے گا یا بذات خود پڑھےگا تو وہ یا تو اسے مفقود العقل سمجھے گا یا اسے پرلے درجے کا خبیث اور صحابہ کرام جو امت کی سب سے افضل جماعت ہے پر حاقد قرار دے گا، خاص طور پہ اس کا یہ کہنا کہ عباس بن عبد المطلب اور ان کا بیٹا عبد اللہ صحابی نہیں تھے، اور خاص طور پہ اس کا یہ کہنا کہ اکثر صحابہ (تھوڑی تعداد کے علاوہ) جہنم میں جائیں گے۔
پھر اگر اس شخص کے زعم کے مطابق ، اکثڑ صحابہ(علاوہ بعض کے) جہنمی ہیں، تو کتاب وسنت تو ہم تک صحابہ کرام کے طریق سے پہنچا ہے، وہی رسول اللہ اور بعد میں آنے والے لوگوں کے درمیان واسطہ ہیں، تو پھر لوگون کے پاس کون سا حق اور کون سی ہدایت ہے؛ کیونکہ ناقل میں قدح اور جرح منقول میں قدح اور جرح کے مترادف ہے۔
امام ابو زرعۃ الرازی(متوفیٰ :۲۶۴) فرماتے ہیں:" اذا رأیت الرجل ینتقص أحدا من أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاعلم أنہ فاعلم أنہ زندیق وذلک أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عندنا حق والقرآن حق، وانما ادی الینا ھذا القرآن والسنن أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وانما یریدون أن یجرحوا شھودنا لیبطلوا الکتاب والسنۃ، والجرح بھم أولیٰ وھم زنادقۃ"
ترجمہ: " جب تم کسی شخص کو اصحاب رسول پر جرح کرتے ہوئے دیکھو تو یقین کر لو کہ وہ زندیق ہے؛ کیونکہ ہمارے نزدیک رسول اللہ حق ہیں، اور قرآن بھی حق ہے ، ہماری طرف قرآب اور رسول کی احادیث پہنچانے والے رسول اللہ کے صحابی ہیں، یہ زنادقہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ان گواہوں(صحابہ کرام) پر جرح کرکے کتاب وسنت کو باطل کر دیں، حالانکہ یہ کود جرح وقدح کے مستحق ہیں اور زندیق ہیں"
(الکفایۃ للخطیب البغدادی،ص49)
مالکی کی دیگر اباطیل جنہیں اس نے اپنی کتاب "قراء ۃ فی کتب العقائد" میں ذکر کیا ہے، میں ان سے بھی پردہ اٹھانا چاہتا ہوں، ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ ان تمام اباطیل پر اپنی کتاب "الانتصار لاھل السنۃ والحدیث فی رد اباطیل حسن المالکی" میں بلڈوزر چلا کر صفایا کردونگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاشیہ:
[1]: یہی بات پاکستان، فیصل آباد میں‌موجود ایک مفتی مولانا اسحاق صاحب بھی کہتے ہیں‌ گرچہ یہ بات انہوں‌نے پہلے کسی خطبہ میں‌ نہیں‌کی مگر گزشتہ دنوں‌ان کے ایک شاگرد سے میری اسی موضوع پر بات ہو رہی تھی کہ وہ اہل سنۃ والجماعۃ کے عقیدہ کے خلاف باتیں‌کرتے ہیں، اور اہل الحدیث علماء نے ان سے براءت کا بھی اظہار کردیا ہے۔ پھر کچھ دیر بعد انہوں‌نے ہی مجھے ایک یوٹیوب کا لنک دیا جس میں‌ انہوں‌نے مولانا کو کال کر کے وہ باتیں رکارڈ کیں تھیں جن سے میرے اٹھائے گئے اعتراضات کا جواب دیا جا سکے!! تو اس آڈیو میں مولانا نے خود یہ اقرار کیا ہے کہ خالد بن ولید(رضی اللہ عنہ) یہ وہ لوگ ہیں‌جو صحابہ میں شامل نہیں‌ہوتے اور انہوں‌نے ایک دلیل بھی دی جو کہ ناقابل ترجیح ہے! ان کے اس بیان کو Time Line:19:58 پہ سنا جا سکتا ہے۔

میں‌نے یہ اندازہ لگایا کہ المالکی اور مولانا اسحاق میں‌زیادہ فرق نہیں‌دونوں‌کا منہج تقریبا ایک ہی ہے !۔

5 comments:

  1. عدالت صحابہ مکتب اہل بیت کی نظر میں

    قرآنی تعلیمات کی روشنی میں مکتب اہل بیتکا نقطہ نظریہ ہے کہ صحابہ کرامکی ایک تعداد مومنین پر مشتمل ہے جن کی تعریف اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کی ہے۔ مثلاً شجرہ کے بارے میں فرمایا:

    بتحقیق اللہ ان مومنین سے راضی ہو گیا جو درخت کے نیچے آپ کی بیعت کر رہے تھے۔ پس جو ان کے دلوں میں تھا وہ اللہ کو معلوم ہو گیا۔ لہذا اللہ نے ان پر سکون نازل کیا اور انہیں قریبی فتح نازل فرمائی۔ 7

    اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیعت الشجرہ میں شرکت کرنے والوں میں سے فقط صاحب ایمان اصحاب کی تعریف کی ہے جو اس بیعت میں شریک منافقین مثلاً عبد اللہ بن ابی اور اوس بن خولی وغیرہ کو شامل نہیں۔ 8

    اسی طرح قرآن کی روشنی میں مکتب اہل بیت کا نقطہ نظریہ ہے کہ اصحاب کے اندر بعض منافقین بھی موجود تھے جن کی مذمت اللہ تعالیٰ نے قرآن کی بہت سی آیات میں کی ہے مثلاً قرآن کی ایک آیت یوں ہے:

    وَمِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنَافِقُوْنَط وَمِنْ اَھْلِ الْمَدِیْنَةِقف مَرَدُوْا عَلَی النِّفَاقِقف لَا تَعْلَمُھُمْ ط نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ۔سَنُعَذِّبُھُمْ مَّرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّوْنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیْمٍ۔ 9

    اور تمہارے گردوپیش کے بدوؤں میں اور خود اہل مدینہ میں بھی ایسے منافقین ہیں جو منافقت پر اڑے ہوئے ہیں۔ آپ انہیں نہیں جانتے (لیکن) ہم انہیں جانتے ہیں۔ عنقریب ہم انہیں دوہرا عذاب دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کے لئے لوٹائے جائے گے۔

    اصحاب کے درمیان کچھ ایسے بھی تھے جن کے بارے مین قرآن نے خبر دی ہے کہ وہ افک کے مرتکب ہوئے تھے یعنی انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک زوجہ پر گناہ کی تہمت لگائی تھی۔

    (ہم اس قول سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں) بعض اصحاب کے بارے میں خدا نے فرمایا:

    وَ اِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَہْوَاْ نِنْفَضُّوْا اِلَیْھَا وَ تَرَکُوْکَ قَآئِمًا ط 10

    اور جب انہوں نے تجارت یا کھیل تماشة ہوتے دیکھ لیا تو اس کی طرف دوڑ پڑے اور آپ(ص) کو کھڑے چھوڑ دیا۔

    یہ واقعہ تب ہوا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں خطبہ جمعہ دے رہے تھے۔ اس کے علاوہ بعض صحابہ نے تو آپ کو اس وقت ایک دشوار گزار گھاٹی میں قتل کرنے کی کوشش کی تھی جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آرہے تھے۔11 پھر رسول خدا(ص) کی مصاحبت کا مرتبہ آپ کی زوجیت کے مرتبے سے زیادہ تو نہیں کیونکہ ازواج رسول(ص) کی آپ کے ساتھ مصاحبت سے زیادہ قریبی مصاحبت کا تصور نہیں ہو سکتا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی شان میں فرمایا:

    یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَیِّنَةٍ یُّضٰعَفْ لَھَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ ط وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا o وَ مَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰہِ وَ رَسُوْلِہوَ تَعْمَلْ صَالِحًا نُّوٴْتِہَآ اَجْرَہَا مَرَّتَیْنِ لا وَ اَعْتَدْنَا لَہَا رِزْقًا کَرِیْمًا o یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النَّسَآءِالخ 12

    اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو کوئی صریح بے حیائی کی مرتکب ہو جائے اسے دوگنا عذاب دیا جائے گا اور یہ بات اللہ کے لئے آسان ہے۔ اور تم میں سے جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گی اور نیک عمل انجام دے گی اسے ہم دوگنا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کے لئے عزت کا زرق مہیا کر رکھا ہے۔ اے نبی کی بیویو! تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہوالخ۔
    ْاور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو بیویوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

    اِنْ تَتُوْبَآ اِلَی اللّٰہِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُکُمَاج وَ اِنْ تَظٰاہَرَا عَلَیْہِ فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوْلٰہُ وَ جِبْرِیْلُ وَ صِالِحُ الْمُوٴْمِنِیْنَ ج وَ الْمَلٰٓئِکَةُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیْرٌاo 13

    اگر تم دونوں اللہ کے سامنے توبہ کر لو ( تو بہتر ہے ) کیونکہ تم دونوں کے دل ٹیڑھے ہو گئے ہیں اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی پشت پناہی کرو گی تو اللہ یقینا اس کا مولا ہے اور جبرئیل اور صالح مومنین اور فرشتے بھی اس کے بعد ان کے پشت پناہ ہیں۔

    ReplyDelete
  2. آگے چل کر ارشاد ہوتا ہے:

    ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوا امْرَاَتَ نُوْحٍ وَّ امْرَاَتَ لُوْطٍ ط کَاَنَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَّ قِیْلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِیْنَ o وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا امْرَاَتَ فِرْعَوْنَ اِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ وَ نَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَ عَمَلِہوَ نَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ o وَ مَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرٰنَ الَّتِیْ اَحْصَنَتْ فَرْجَہَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا وَ صَدَّقَتْ بِکَلِمٰتِ رَبِّھَا وَ کُتُبِہوَ کَانَتْ مِنَ الْقٰنِتِیْنَ o 14

    اللہ نے کفار کے لیے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کی مثال پیش کی ہے، یہ دونوں ہمارے دو صالح بندوں کی زوجیت میں تھیں مگر ان دونوں نے اپنے شوہروں سے خیانت کی تو وہ اللہ کے مقابلے میں ان کے کچھ بھی کام نہ آئے اور انہیں حکم دیا گیا: تم دونوں داخل ہونے والوں کے ساتھ جہنم میں داخل ہو جاوٴ۔ اور اللہ نے مومنین کے لیے فرعون کی بیوی کی مثال پیش کی ہے، جب اس نے دعا کی: پروردگارا ! جنت میں میرے لیے اپنے پاس ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کی حرکت سے بچا اور مجھے ظالموں سے نجات عطا فرما۔ اور مریم بنت عمران کو بھی ( اللہ مثال کے طور پر پیش کرتا ہے) جس نے اپنی عصمت کی حفاظت کی تو ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اس نے اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی اور وہ فرماں برداروں میں سے تھی۔

    صحابہ میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخرت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

    میری امت کے بعض افراد (بروز قیامت) حاضر کئے جائیں گے اور برے لوگوں کے زمرے میں لے جائے جائیں گے۔

    اس وقت کہوں گا:اے رب! یہ لوگ میرے اصحاب ہیں۔جواب ملے گا:تمہیں پتہ نہیں کہ ان لوگوں نے تمہارے بعد کیا گل کھلائے ہیں۔

    پس میں یہ کہوں گا جس طرح صالح (حضرت عیسیٰ ع) نے کہا تھا:

    وَ کُنْتُ عَلَیْہِمْ شَہِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْہِمْ ج فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْہِمْ ط15
    جب تک میں ان کے درمیان رہا، میں ان پر گواہ رہا اور جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو خود ہی ان پر نگران ہے۔

    پس جواب ملے گا:تیری وفات کے بعد یہ لوگ مرتد ہو گئے اور اسی حالت پر باقی رہے۔16

    ایک اور روایت ہے:
    بہ تحقیق میرے پاس حوض پر میرے کچھ اصحاب وارد ہوں گے۔ جب میں یہ مشاہدہ کروں گا کہ (فرشتے) انہیں میرے پاس آنے سے روک رہے ہیں تو میں یہ کہوں گا کہ یہ تو میرے اصحاب ہیں۔

    جواب ملے گا:تجھے کیا خبر کہ ان لوگوں نے تیرے بعد کیا کچھ کیا؟ 17

    صحیح مسلم کی روایت ہے:

    بہ تحقیق حوض پر میرے ہاں کچھ اصحاب وارد ہوں گے۔ یہاں تک کہ میں جب انہیں دیکھوں گا اور وہ میرے سامنے کر دیے جائیں گے تو میرے پاس آنے سے روک دئے جائیں گے۔ بتحقیق میں اس وقت کہوں گا: اے میرے رب یہ میرے اصحاب ہیں۔ پس بتحقیق مجھے جواب ملے گا: تجھے خبر نہیں کہ ان لوگوں نے تمہارے بعد کیا گل کھلائے۔18

    ReplyDelete
  3. مومن اور منافق کی پہچان کا معیار

    چونکہ صحابہ میں سے کچھ منافقین تھے جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا اور نبی

    صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر دی تھی کہ ”علی(ع) سے فقط مومن ہی محبت کرتا ہے اور اس سے بغض نہیں رکھتا مگر منافق“ جیسا کہ حضرت علی مرتضیٰ(ع)، ام المومنین ام سلمہ، عبداللہ بن عباس، ابوذر غفاری، انس بن مالکاور عمرانبن حصین نے روایت کی ہے۔ یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں مشہور و معروف تھی۔ حضرت ابوذر کا بیان ہے:

    ہم منافقین کو نہیں پہچانتے تھے مگر اللہ اور رسول(ص) کے انکار، صلوات نہ بھیجنے اور بغض علی ابن ابی طالب(ع) کے مشاہدے سے۔ 19
    حضرت ابو سعید الخدری کہتے ہیں:

    ہم انصاری منافقین کو حضرت علی(ع) سے بغض کے ذریعے سے پہچانتے تھے ۔20
    حضرت عبد اللہبن عباس کہتے ہیں:

    ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں منافقین کو علی ابن ابی طالب(ع) کے ساتھ ان کے بعض کے ذریعے پہچانتے تھے ۔21
    اور جابر بن عبد اللہ انصاری کا بیان ہے:

    ہم منافقین کو نہیں پہچانتے تھے مگر بغض علی ابن ابی طالب(ع) کے ذریعے۔ 22

    ان ساری باتوں اور امام علی علیہ السلام کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان :

    اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ۔23

    خدایا! جو علی سے دوستی کرے تو اس سے دوستی کر اور جو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی کر۔

    کے پیش نظر مکتب اہل بیت کے پیروکار اپنی دینی تعلیمات کسی ایسے صحابی سے اخذ کرنے سے احتراز کرتے ہیں جس نے خلیفہ راشد حضرت علی(ع) سے عداوت کی ہو اور آپ سے محبت نہ کی ہو، اس خوف سے کہ کہیں یہ صحابی ان منافقین میں سے نہ ہو جن کی حقیقت سے خدا ہی آگاہ ہے۔

    ReplyDelete
  4. صحابہ کے بارے میںدونوں مکاتب فکر کے نظریات کا خلاصہ

    صحابہ اور عدالت صحابہ مکتب خلفاء کی نظر میں
    مکتب خلفاء کی نظر میں صحابی وہ ہے جس نے ایمان کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی ہو اگرچہ دن کے ایک پہر کے لئے کیوں نہ ہو اور اسلام پر ہی مرے۔

    مکتب خلفاء کے خیال میں دسویں ہجری تک مکہ اور طائف میں سب کے سب مسلمان ہو چکے تھے اور وہ سب حجة الوداع میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ موجود تھے۔ علاوہ بریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری دور میں اوس اور خزرج قبیلے میں کوئی شخص ایسا نہ تھا جو مسلمان نہ ہو چکا ہو۔

    وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ خلفاء مفتوحہ علاقوں میں فقط صحابہکو ہی حاکم بناتے تھے۔ اس قاعدے کے تحت انہوں نے ایسے لوگوں کو بھی اصحاب میں شامل کیا ہے جن کے بارے میں ہم نے ”ایک سو پچاس جعلی اصحاب“ نامی کتاب میں دلیلوں کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ وہ جعلی تھے اور تاریخ میں ان کا کوئی وجود نہ تھا۔

    مکتب خلفاء کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ سارے اصحابعادل ہیں، وہ اعتراض و تنقید سے بالاتر ہیں اور جو شخص ان میں سے کسی کے نقائص بیان کرے وہ کافر و زندیق ہے۔

    ساتھ ہی مکتب خلفاء کے خیال میں جو شخص بھی ان کی اصطلاح کے مطابق ”صحابی“ ہے اس کی تمام روایات صحیح ہیں۔ یوں وہ تمام اصحابسے تعلیمات دین اخذ کرتے ہیں۔

    مکتب اہل بیت کا عقیدہ ہے کہ صحابی کا لفظ شرعی اصطلاح نہیں ہے بلکہ یہ عربی کے دیگر عام الفاظ کی طرح (لغوی معنی کا حامل) ہے۔ عربی زبان میں صاحب سے مراد ساتھی اور باہم زندگی گزارنے والا۔ بنا بریں یہ لفظ اسی شخص کے لئے استعمال ہو سکتا ہے جس کی مصاحبت کی مقدار کافی طویل ہو۔ اور مصاحبت چونکہ دو افراد کے درمیان ہوتی ہے۔ اس لئے لفظ صاحب یا اس کی جمع اصحاب، صحابہ وغیرہ کو بطور مضاف استعمال کرنا ہو گا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں یَا صَاحِبَیِ السِّجْنُ اور اصحاب موسیٰ وغیرہ کا استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں بھی اسی طرح استعمال ہوتا تھا اور اصحاب رسول اللہ(ص)، صاحب رسول اللہ(ص) وغیرہ کہتے تھے۔ یعنی لفظ صاحب کو مضاف اور رسول اللہ کو مضاف الیہ قرار دیتے تھے۔ اسی طرح دوسری چیزوں کو بھی مضاف الیہ بناتے تھے۔ مثال کے طور پر ”اصحاب الصفہ“ میں جو مسجد رسول(ص) کے سائبان تلے زندگی گزارنے والوں کے لئے کہا کرتے تھے۔

    رسول اللہ(ص) کے بعد لفظ صحابی مضاف الیہ کے بغیر ہی استعمال ہونے لگا۔ اس سے مراد لوگ اصحاب رسول(ص) کو ہی لیتے تھے۔ اسی طرح یہ لفظ اصحاب رسول(ص) کے لئے نئی اصطلاح بن گیا۔ بنا بریں صحابی اور صحابہ کے الفاظ کا تعلق اصطلاح متشرعہ یا تسمیة المسلمین سے ہے، اصطلاح شرعیہ سے نہیں۔

    رہی ان کی عدالت تو اس کے بارے میں مکتب اہل بیت کا عقیدہ قرآنی تعلیمات کے عین مطابق یہ ہے کہ صحابہ میں سے بعض منافقت پر ڈٹے رہے۔ بعض نے تو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ پر گناہ کی تہمت لگائی۔ بعض اصحاب نے آپ کو قتل کرنے کی سازش کی اور بعض کے بارے میں حضور(ص)نے خبر دی ہے کہ بروز قیامت ان کو آپ(ص) کے حضور آنے سے روک دیا جائے گا۔ تب خدا کی طرف سے جواب ملے گا:

    آپ(ص) کو نہیں معلوم کہ ان لوگوں نے آپ(ص)کے بعد کیا کیا گل کھلائے تھے۔ آپ(ص) کی وفات کے بعد ان لوگوں نے ارتداد اختیار کر لیا تھا۔

    مکتب اہل بیت کے خیال میں اصحاب کے درمیان صاحب ایمان ہستیاں بھی تھیں جن کی تعریف اللہ تعالیٰ نے کی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اپنی احادیث میں ان کو سراہا ہے۔ چنانچہ قرآن و حدیث میں جن اصحاب کی تعریف ہوئی ہے ان سے مراد یہی ہیں۔ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی(ع) سے محبت یا آپ سے بغض کو مومن اور منافق کی پہچان کا معیار قرار دیا ہے۔ اسی لئے مکتب اہل بیتکے پیروکار راویان حدیث کے بارے میں چھان بین کرتے ہیں۔ پس اگر انہوں نے حضرت علی(ع) یا ائمہ اہل بیت(ع) کے ساتھ جنگ یا دشمنی کی ہو تو وہ اپنے آپ کو ان لوگوں کی روایات اخذ کرنے کے پابند نہیں سمجھتے خواہ یہ لوگ صحابی ہوں یا غیر صحابی۔

    صحابی کی تعریف اور اس کی عدالت کے بارے میں یہ تھا دونوں مکاتب فکر کی آراء کا خلاصہ۔ اب ہم امامت و خلافت کے بارے میں ان دونوں مکاتب فکر کے نظریات پر روشنی ڈالیں گے۔

    ReplyDelete

  5. حوالہ جات

    ۱ ان کا پورا نام یہ ہے: ابو محمد عبد الرحمن بن ابو حاتم رازی متوفی ۳۲۷ھ ان کی یہ کتاب الجرح و التعدیل ۱۳۷۱ئھ میں دکن سے شائع ہوئی ہے۔ درج بالا عبارت اس کے مقدمہ صفحہ ۷ تا ۹ سے نقل کی گئی ہے۔

    ۲ سورہ بقرہ آیت ۱۴۳۔

    3 سورہ نساء آیت ۱۱۵۔ مکتب اہل البیتکی نظر میں ان سب میں مقصود صرف مومنین ہیں۔
    4 حافظ ابو عمر یوسف بن عبداللہ بن محمد عبد البر نمری قرطبی المالکی متوفی ۴۶۳ھ ان کی مشہور کتاب ”الاستیعاب فی اسماء الاصحاب“ حیدر آباد دکن اور مصر سے طبع ہو چکی ہے۔

    5 معروف عالم عز الدین علی بن محمد عبد الکریم الجزری المعروف بہ ابن اثیر متوفی ۶۳۰ھ۔ ان کتاب ”اسد الغابہ فی معرفة الصحابہ جلد اول صفحہ ۳ سے محولہ عبارت نقل کی گئی ہے۔

    6 الاصابہ فی تمییز الصحابہ ج۱ صفحہ ۲۲۱۷،مطبوعہ المکتبة النجاریة مصر ۱۳۵۸ئھ۔

    7 سورة فتح آیت ۱۸

    8 بیعت رضوان سے متعلق ، کتاب المغازی صفحہ ۵۸۸، الخطظ المقریزیہ صفحہ ۲۸۴ وغیرہ کتب معتبرہ کا مطالعہ کیا جائے۔

    9 سورة التوبہ آیت ۱۰۱-

    10 سورة الجمعہ آیت ۱۱

    11 مسند الامام احمد ج۵ صفحہ ۳۹۰،۴۵۳، صحیح مسلم باب صفات المنافقین، جمع الزوائد ج۱صفحہ ۱۱۰ ج۶ صفحہ ۱۹۵، امتاع الاسماع مقریزی صفحہ ۴۷۷، تفسیر درمنثور للسیوطی ج۳ صفحہ ۲۵۸، ۲۵۹ زیر آیت نمبر ۷۴

    12 سورة الاحزاب آیت ۳۰۔۳۲

    13 سورہ تحریم آیت ۴

    14 سورہ تحریم آیت ۱۰ ۔ سورہ مریم ابتدا سے آخر تک دیکھئے

    15 سورہ مائدہ آیت ۱۱۷

    16 حیح بخاری تفسیرسورة مائدہ باب و کنت علیھم شہیدا ما دمت فیھم فلما توفیتنی کتاب الانبیاء باب واتخذ اللّٰہ ابراہیم خلیلا۔ سنن ترمذی باب ماجاء فی شان الحشر و تفسیر سورة طہ۔

    17 صحیح بخاری باب فی الحوض ج۴ صفحہ ۹۵ باب ماجاء فی قولہ واتقوا فتنة لا تصیبن، سنن ابن ماجہ باب الخطبة یوم النحر حدیث نمبر ۵۸۳۰، مسند امام احمد ج۱ صفحہ ۴۵۳ ج۳ صفحہ ۲۸ ج۵ صفحہ ۴۸۔

    18 صحیح مسلم باب اثبات حوض نبینا ج۴ صفحہ ۱۸۰۰ حدیث نمبر ۴۰۔
    19 مستدرک علیٰ الصحیحین امام حاکم ج۳ صفحہ ۱۲۹، کنز العمال ج۱۵ صفحہ ۹۱،

    20 نن ترمذی ج۱۳ صفحہ ۱۶۷، حلیة الاولیاء ج۶ صفحہ ۲۸۴۔

    21 تاریخ بغداد ج۳ صفحہ ۱۵۳ طبع بیروت

    22 الاستعاب ج۲ صفحہ ۴۶۴، الریاض النضرہ ج۲ صفحہ ۲۸۴، تاریخ الاسلام ذہبی ج۲ صفحہ ۱۹۸، مجمع الزوائد ج۹ صفحہ ۱۳۳ طبع قاہرہ۔

    23 سنن ترمذی باب مناقب علی صفحہ ۱۶۵، سنن ابن ماجہ باب فضل علی حدیث نمبر ۱۱۶، مسند امام احمد ج۱ صفحہ ۸۴، ۸۸ مستدرک حاکم ج۲ صفحہ ۱۲۹ ج۳ صفحہ ۹، الریاض النضرہ ج۲ صفحہ ۲۲۲ تا ۲۲۵۔


    ReplyDelete