دارالعلوم ، شماره : 3 ، جلد : 92 ربیع الاوّل 1429ھ مطابق مارچ ۲۰۰۸ء نبی ﷺکی فکری اوراجتہادی بصیرت کے چند جلوے از: مفتی شکیل منصور الحسنی القاسمی استاذ مجمع عین المعارف للدراسات الاسلامیہ، کیرالہ، ہندوستان (نوٹ: یہ بات پیش نظر رہے کہ اس مضمون میں شامل عربی عبارات کے ترجمے بندے شاہ زاد نے کیے ہیں جب کہ قرآنی آیات کا ترجمہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن گنگوہی رحمہ اللہ کے ترجمے سے لیا گیا ، علاوہ ایک دو جگہ کے )
اسلام کا دائمی معجزہ اورہمیشگی کی حجۃ اللہ البالغہ "قرآن" کے بعد اگر کوئی چیز ہے تو وہ صاحب قرآن کی "سیرت" ہے۔ دراصل "قرآن" اور "حیات نبوی صلى اللہ عليہ وسلم " معاً ایک ہی ہیں، قرآن متن ہے تو سیرت اس کی شرح۔ قرآن علم ہے تو سیرت اس کا عمل، قرآن مابین الدفتین (کتابی شکل)ہے تو یہ ایک مجسم و ممثل قرآن تھا جو مدینہ کی سرزمین پر چلتا پھرتا نظر آتا تھا، کان خلقہ القرآن. سیرت نبوی کا اعجاز ہے کہ اس کے اندر ہزاروں روشن پہلو ہیں۔ دنیا کو جس پہلو یا گوشے سے روشنی اور گرمی مطلوب ہو، اس کو سیرت نبوی صلى اللہ عليہ وسلم کے بے مثال خزانہ میں وہ اسوہ اور نمونہ مل جاتا ہے جس سے اپنے ہمہ نوعیتی مسائل و مشکلات کا کامیاب ترین حل نکال لے۔ آپ صلى الله عليه وسلم کی زندگی کا کوئی گوشہ تاریکی میں نہیں۔ آپ صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ کے تمام ہی پہلو سورج سے زیادہ ظاہر وعیاں ہوکر دنیا کے سامنے موجود ہیں، آپ جس پیغام الٰہی کو لے کر دنیا میں تشریف لائے، وہ ساری انسانیت کیلئے ایک ہمہ گیر، مستحکم ومضبوط اور "دائمی نظام حیات" ہے اور اس نے اپنی اس امتیازی شان، ہمہ گیری اور دوامی حیثیت کی بقاء کی خاطر اپنے اندر ایسی لچک اور گنجائش رکھی ہے کہ ہر دور میں اور ہر جگہ انسانی ضروریات کا ساتھ دے سکے اور کسی منزل پر اپنے پیروں کی رہبری سے عاجز وقاصر نہ رہے۔ لوگوں کو جس قسم کے مسائل و حالات پیش آسکتے ہیں، ان کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں: (۱) وہ مسائل جن میں حالات و زمانے کے اختلاف سے کوئی تغیر پیدا نہ ہو۔ ایسے مسائل کیلئے شروع ہی سے شریعت میں تفصیلی احکام و قواعد ثابت و موجود ہیں۔ جیسے نکاح، طلاق، محرمات اور میراث وغیرہ کے احکام۔ (۲) وہ مسائل جو حالات و زمانے کے بدلنے سے متغیر ہوسکتے ہوں ایسے مسائل کے بارے میں شریعت نے کوئی تفصیلی احکام نہیں چھوڑے ہیں؛ بلکہ اس سلسلے میں عام قواعد اور بنیادی اصول ومبادی وضع کردی ہے اور امت کے بالغ نظر اور بلند پایہ فقہاء کیلئے یہ گنجائش چھوڑ دی ہے کہ شریعت کے مقاصد، اس کے مزاج ومذاق، احکام شرع کے مدارج اور دین کی بنیادی اصول و قواعد کو سامنے رکھ کر ان مسائل کے احکام تلاش کریں؛ لیکن اس مقصد کیلئے یہ ضروری ہے کہ علمائے امت کے سامنے سیرت نبوی کا فکری اور اجتہادی پہلو ہو جس کی رہنمائی میں ہر زمانہ کے علماء وفقہاء غیرمنصوص اور نئے پیش آمدہ مسائل میں شرعی غور و فکر کے ذریعہ کوئی شرعی حکم نکال سکیں۔ سیرت نبوی کا اعجاز دیکھئے کہ اس میں وہ قیاس واجتہاد کے ایک دو نہیں متعدد علمی نمونے موجود ہیں جن کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے خود اپنے قول وسیرت سے یہ راہ کھلی رکھی ہے تاکہ کتاب وسنت کے اصولی ہدایات کی تطبیق پیش آنے والی جزئیات یہ قیامت تک جاری رہ سکے۔ ذیل کی سطروں میں ہم انتہائی اختصار کے ساتھ آپ صلى الله عليه وسلم کے اسی گوشہ کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں گے۔ نبی صلى الله عليه وسلم کا استنباط واجتہاد علماء اصول کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ غیرمنصوص مسائل میں آپ صلى الله عليه وسلم کیلئے اجتہاد جائز تھا یا نہیں؟ جمہور علماء اصول کے یہاں جائز ہے۔ معتزلہ اور ابن حزم ظاہری کے یہاں جائز نہیں ہے۔(۱) پھر جولوگ اجتہاد نبی صلى الله عليه وسلم کو جائز قرار دیتے ہیں ان کے مابین دو باتوں میں اختلاف ہے: (الف) کس قسم کے مسائل میں آپ صلى الله عليه وسلم نے اجتہاد کیا ہے؟ (ب) آپ صلى الله عليه وسلم کب اجتہاد فرمایا کرتے تھے؟ علامہ قرافی رحمه الله ، علامہ عبدالعزیز بخاری رحمه الله اور علامہ شوکانی رحمه الله نے اس پر جمہور علمائے امت کا اتفاق نقل کیا ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے جنگی امور اور دنیوی معاملات کے سلسلے میں اجتہاد فرمایا ہے۔ بخاری کے الفاظ یہ ہیں: کلہم قد اتفقوا علیٰ أن العمل یجوز لہ بالرأی فی الحروب وامور الدنیا۔(۲) ترجمہ:جمہور امت اس پر متفق ہیں کہ جنگی اور دنیاوی معاملات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنی رائے پر عمل کرنا جائز ہے ۔ علامہ قرافی بھی یہی فرماتے ہیں: محمل الخلاف فی الفتاویٰ. امّا الأقضیة فیجوز الأجتہاد بالاجماع" (۳) ترجمہ:رہے فیصلے تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اجماعا اجتہاد جائز ہے۔ لیکن کیا آپ صلى الله عليه وسلم نے شرعی امور میں بھی اجتہاد کیا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں اصولیین کا قول مختلف ہے۔ دلائل کی روشنی میں جو قول نکھر کر سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے شرعی امور میں بھی اخذ واستنباط سے کام لیا ہے۔(۴) جس کی سب سے بڑی اور واضح دلیل یہ ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے کیفیت اذان کے سلسلے میں اپنے صحابہ کے ساتھ اجماعی غور وتدبیر کے بعد اپنے اجتہاد و قیاس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مشورہ پر ایک فیصلہ فرمایا اور پھر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان دینے کا حکم فرمایا۔ غور کیا جاسکتا ہے کہ "اذان" کوئی دنیوی یا جنگی معاملہ نہیں؛ بلکہ خالص اللہ کا حق ہے اور شعائر دین ومذہب ہے؛ لیکن اس میں بھی آپ کا اجتہاد وقیاس ثابت ہے۔ اس سلسلے میں مزید دلائل کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔ اجتہاد نبوی کی کیفیت کے سلسلے میں جمہور محدثین اور ائمہ ثلاثہ کا رجحان یہ ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کسی بھی واقعہ کے پیش آتے ہی اجتہاد کرلیا کرتے تھے اس سلسلے میں آپ وحی کا انتظار نہیں فرماتے تھے؛ لیکن اس بارے میں احناف کا راجح نقطئہ نظر یہ ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم پیش آمدہ مسائل میں پہلے "وحی" کا انتظار کرتے اگر "مدت انتظار" میں وحی نازل ہوجاتی تو فبہا ورنہ آپ صلى الله عليه وسلم اجتہاد وقیاس کے ذریعہ ان کا حل بتادیتے۔ علامہ سرخسی رحمه الله تحریر فرماتے ہیں: وأصح الاأقاویل عندنا أنہ علیہ الصلوة فیما کان یبتلی بہ من الحوادث التی لیس فیہا وحی منزل، کان ینتظر الوحی الی أن تمضَی مدة الانتظار ثم کان یعمل بالرأی والاجتہاد(۵) ترجمہ: ہمارے نزدیک صحیح ترین قول یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو ایسے معاملات درپیش ہوتے تھے جن میں وحی کے ذریعے راہ نمائی نہ کی گئی ہوتی تھی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حتی المقدور وحی کا انتظار فرمایا کرتے تھے اور پھر وحی نہ آنے کی صورت میں رائے اور اجتہاد پر عمل فرماتے۔ آپ صلى الله عليه وسلم فکرواجتہاد کے مامور تھے (۱) بنونظیر جب مدینہ طیبہ سے شام جلاوطن کردئیے گئے تو اللہ تعالیٰ نے اہل بصیرت کو ان کی بدعہدی اور شرارت پے عبرت دلاتے ہوئے فرمایا: "فاعتبروا یا أولی الابصار" "اعتبار، کہتے ہیں کسی چیز کی حقیقت ودلائل میں غور وفکر کرکے اسی جنس کی دوسری چیز کو جان لینا" آیت میں ارباب بصیرت، صاحب نظروفکر لوگوں کو غور وتدبر کا بالعموم حکم دیاگیا ہے۔ اور نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے بڑھ کر کون بالغ نظر ہوسکتا ہے؟ لہٰذا آیت پاک میں جس غور وفکر کا حکم دیا جارہا ہے آپ صلى الله عليه وسلم بھی اس کے عموم میں داخل ہیں اور اجتہاد وقیاس کے مکلف آپ صلى الله عليه وسلم بھی ہوئے۔(۶) (۲) واذا جاء ہم امر من الأمن اوالخوف أذاعوبہ ولوردوہ الی الرسول والی أولی الامر منہم لعلم الذین لیستنبطونہ منہم ترجمہ: اور جب ان کے پاس پہنچتی ہے کوئی خبر امن کی یا ڈر کی تو اسکو مشہور کر دیتے ہیں اور اگر اسکو پہنچا دیتے رسول تک اور اپنے حکموں تک تو تحقیق کرتے اس کو جو ان میں تحقیق کرنے والے ہیں اس کی (ترجمہ شیخ الہند محمود الحسن صاحب رحمہ اللہ ) (النساء:۸۳) . امام رازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آیت پاک میں استنباط و تحقیق کے اندر اللہ تعالیٰ نے نبی پاک صلى الله عليه وسلم اور اولی الامر اور حاکموں کو یکساں قرار دیا ہے، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم اخذ و استنباط کے مکلف تھے، فعلم من ذلک أن الرسول علیہ الصلاة والسلام مکلف بالاستنباط (۷) ترجمہ:" یعنی اس سے معلو م ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی استنباط احکام کے مکلف تھے"۔ آیت پاک میں "أمر من الامن اوالخوف" سے اس نظریہ کو بھی تقویت ملتی ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم شرعی مسائل میں بھی اجتہاد کرتے تھے، اس لئے کہ لفظ "اَمرٌ" مطلق آیا ہے، اور جس طرح سے جنگ وجدال میں امن وخوف کی حالت ہوتی ہے اسی طرح امور دینیہ میں بھی امن وخوف کی حالت کا تحقق ممکن ہے، لہٰذا یہ ماننا پڑے گا کہ جس طرح آپ صلى الله عليه وسلم جنگی امور میں اجتہاد فرمایا کرتے تھے اسی طرح شرعی امور میں بھی آپ صلى الله عليه وسلم اجتہاد وقیاس کے مامور ومجاز تھے۔(۸) لولا کتاب من اللّٰہ سبق لمسکم فیما أخذتم عذاب عظیم.(۹) ترجمہ: اگر نہ ہوتی ایک بات جس کو لکھ چکا اللہ پہلے سے تو تم کو پہنچتا اس لینے میں بڑا عذاب۔ (ترجمہ شیخ الہند محمود الحسن صاحب رحمہ اللہ ) بدر کی لڑائی میں ستر کافر مسلمانوں کے ہاتھوں میں قید ہوکر آئے، آپ صلى الله عليه وسلم نے ان قیدیوں کے سلسلہ میں مشورہ طلب کیا۔ حضرات صحابہ نے اجتماعی غور وتدبر کے بعد ان قیدیوں کے سلسلے میں مشورہ دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے رائی یہ تھی کہ فدیہ لے کر ان تمام قیدیوں کو چھوڑ دیا جائے، جبکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ تمام قیدیوں کو قتل کردیا جائے، حضرت سعد بن معاذ رضي الله عنه کی بھی یہی رائے تھی۔ کافی بحث و تمحیص کے بعد نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اپنی طبعی رافت ورحمت کی بناء پر حضرت ابوبکر رضي الله عنه کے مشورہ پر عمل کیا۔ اور تمام قیدیوں کو فدیہ لے کر رہا کردیا گیا۔ لیکن آپ کے اس فیصلہ کو خدا تعالیٰ کی جانب سے اجتہادی غلطی قرار دی گئی اور پھر آیت مذکورہ میں جو سخت عتاب آمیز لہجہ اختیار کیاگیا وہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ آیت پاک سے دو مسئلے ثابت ہوتے ہیں: اوّل: یہ کہ کسی پیش آمدہ مسائل میں کتاب و سنت میں کوئی حکم نہیں ملتا تو آپ صلى الله عليه وسلم کیلئے اجتہاد کرنا جائز تھا۔ دوم: یہ ہے کہ جس طرح آپ صلى الله عليه وسلم کیلئے جنگی امور میں اجتہاد کرنا جائز تھا۔ اسی طرح شرعی امور میں بھی آپ اجتہاد کے مکلف تھے۔ جنگ بدر کا معاملہ صرف ایک جنگی حد تک محدود نہ تھا بلکہ یہ جنگ ایمان وکفر، حق وباطل کی فیصلہ کن لڑائی ہونے کی وجہ سے مذہبی و شرعی معاملہ کی حیثیت اختیار کرگئی تھی۔ امام رازی رحمه الله فرماتے ہیں: فالآیة صریحة فی بیان أن الرسول علیہ الصلاة والسلام کان یحکم بمقتضی الاجتہاد فی الوقائع التی لم ینزل بہا نص او وحی.(۱۰) ترجمہ:"آیت نہایت صراحت و وضاحت کے ساتھ بیان کر رہی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے مختلف پیش آمدہ معاملات میں جن میں وحی یا کوئی اور نص نہ آئی ہوتی تھی اجتہاد کے تقاضوں کے مطابق عمل فرمایا کرتے تھے"۔ (۴) فتح مکہ کے دن مکہ المکرمہ کی حرمت وعظمت کو بیان کرتے ہوئے آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: فہو حرام بحرمة اللّٰہ تعالیٰ الٰی یوم القیامة، لا یُعضد شوکة ولا ینفر صیدہ ولا تلتقط لقطة الاّ من عرّفہا ولا یختل خلاہا. ترجمہ:"اللہ کے حرام کرنے سے وہ(مکہ مکرمہ) حرم ہے قیامت تک کے لیے ، اس میں موجود کانٹے تک بھی نہ اکھاڑے جائیں اور نہ یہاں موجود شکار کو (شکار کی غرض سے )بھگایا جائے اور نہ ہی وہاں کی گری پڑی چیز کو اٹھایا جائے البتہ وہ اٹھا سکتا ہے جو اس کی تشہیر کر کے اصل مالک تک پہنچا دے، اور اس کی تازہ گھاس بھی نہ کاٹی جائے"۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یارسول اللہ! آپ صلى الله عليه وسلم تمام قسم کی گھاس کو ممنوع فرمارہے ہیں، حالانکہ "اذخر" کی ضرورت ہم لوگوں کو گھر کی چھتوں میں پڑتی رہتی ہے؟ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: "الّا الاذخر" حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم کا پھر "اذخر" کا استثناء کردینا اس بات کی دلیل ہے کہ گھاس وغیرہ کی حرمت کے سلسلہ میں آپ صلى الله عليه وسلم نے اجتہاد کیا تھا۔ وھذا مبنی علی ان الرسول کان لہ ان یجتہد فی الاحکام(۱۱) ترجمہ: یعنی یہ اس بنیاد پر ہے کہ رسول کو احکام میں اجتہاد کا حق ہوتا ہے ۔ (۵) قریش نے اپنے دور میں خانہ کعبہ جو تعمیر کی تھی۔ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کے خلاف تھی۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سوال کیا: ألا تردہا علی قواعد ابراہیم؟(ترجمہ: کیا آپ اس کو اسی شکل میں نہیں بنوا سکتے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کی تھی؟) آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: لولا حدثان قومک بالکفر لفعلت(۱۲)(ترجمہ: اگر آپ کی قوم کفر سے حال ہی میں نہ نکلی ہوتی تو میں ایسا کر گزرتا) آپ کا یہ ارشاد بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے قریش کی تعمیر کردہ بنیاد کو جو باقی رکھا وہ آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد تھا۔ اس لئے کہ اگر آپ صلى الله عليه وسلم عمارت منہدم کرنے کا مامور ہوتے تو خوف فتنہ اس سے قطعا مانع نہیں ہوتا۔ مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ صلى الله عليه وسلم اجتہاد و قیاس کے مامور ومکلف تھے، آپ صلى الله عليه وسلم نے دینی ودنیوی تمام ہی امور میں اجتہاد کیا ہے۔ ذیل میں قدرے تفصیل بیان کی جاتی ہے کہ کن کن معاملات میں آپ صلى الله عليه وسلم نے اجتہاد سے کام لیا ہے۔ دنیوی امور میں آپ صلى الله عليه وسلم کے اجتہادات (۱) ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے یہاں آپ صلى الله عليه وسلم نے شہد نوش فرمایا، حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما کو اس کا علم ہوا تو دونوں نے اس بات پر اتفاق کرلیا کہ ہم میں سے جس کے پاس حضور تشریف لائیں، ہر کوئی یہ کہے کہ حضور آپ کے منہ سے مغافیر کی بو آرہی ہے! ایسا ہی ہوا، آپ حضرت عائشہ اور حفصہ رضي الله عنها میں سے جن کے پاس تشریف لے گئے آپ سے یہی سوال ہوا، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا نہیں، میں نے زینب کے پاس شہد پیا ہے۔ اگر تم لوگوں کو اس شہد کی وجہ سے ناراضگی ہوئی تو دیا رکھو! آج سے میں شہد ہی نہیں پیونگا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: لم یحرم ما احل اللّٰہ لک. ترجمہ:"اس چیز کو کیوں حرام قرار دیتے ہیں جو اللہ تعالی نے آپ کے لیے حلال کی ہے "۔ (۱۳) آپ صلى الله عليه وسلم نے بعض ازواج کی دلجوئی کے واسطے اپنے اوپر شہد کو حرام کیاگیا، یہ محض آپ کا قیاس تھا۔ (۲) آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو دیکھا کہ انصار مدینہ ترکھجور کا پیوند مادہ کھجور کو لگاتے ہیں تو کھجور زیادہ ہوتی ہے، آپ صلى الله عليه وسلم نے انصار کو اس طرز عمل سے منع کردیا۔ اتفاق سے اس سال مدینہ میں کھجور کی پیداوار بالکل گھٹ گئی تو آپ صلى الله عليه وسلم نے پھر اجازت دے دی(۱۴) پہلے تابیر نخلہ کی ممانعت آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد تھا۔ (۳) آپ صلى الله عليه وسلم اکابر قریش کو اسلام کی دعوت و تبلیغ میں مشغول تھے، اسی دوران حضرت عبداللہ بن ام مکتوم حاضر مجلس ہوئے، آپ صلى الله عليه وسلم نے کفار ومشرکین کے قبول اسلام کی امید پر نابینا صحابی سے منہ پھیر لیا، جس پر آیت: عبس و تولّٰی الخ نازل ہوئی آپ صلى الله عليه وسلم کا یہ اعراض محض اجتہاد تھا۔(۱۵) جنگی امور میں آپ صلى الله عليه وسلم کے اجتہادات (۱) بدر کی لڑائی کے سلسلے میں آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی رائے سے ایک جگہ متعین کی تھی، بعد میں حضرت حباب بن المنذر کی رائے سے وہ جگہ بدل دی- پہلی جگہ کے سلسلے میں آپ صلى الله عليه وسلم نے اجتہاد کیا تھا۔(۱۶) (۲) اساری بدر (جنگِ بدر کے قیدیوں)کے سلسلے میں آپ صلى الله عليه وسلم نے جو کچھ فیصلہ فرمایا تھا وہ آپ کا اجتہاد تھا۔ (۳) غزوئہ احد کے سلسلے میں مدینہ سے باہر نکلنے یا نہ نکلنے میں آپ صلى الله عليه وسلم نے اجتہاد کیا تھا کہ مدینہ ہی میں رہ کر دشمنوں کا مقابلہ کیاجائے- بعد میں اس تعلق سے آپ صلى الله عليه وسلم پر وحی آئی۔(۱۷) (۴) "خندق " غزوئہ احزاب میں حضرت سلمان فارسی کی رائے پر آپ نے عمل کیا۔ یہ آپ کا اجتہاد تھا۔ اس سلسلہ میں آپ صلى الله عليه وسلم پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔(۱۸) (۵) غزوئہ خندق میں قبیلہ غطفان کے دوسردار عیینہ بن الحصن اور "الحارث بن عوف المروی" سے مدینہ کی ثلث کجھور پر مصالحت کی پیشکش کی تھی۔ یہ صرف آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد تھا۔(۱۹) (۶) غزوئہ تبوک میں بعض منافقوں کے اعذار کی وجہ سے آپ صلى الله عليه وسلم نے انہیں جنگ میں شریک نہ ہونے کی اجازت و رخصت دیدی تھی ۔ یہ آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد تھا۔(۲۰) معاملات و قضایا میں آپ صلى الله عليه وسلم کے اجتہادات (۱) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کو آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی اس بیوی سے رجوع کا حکم دیا تھا جس کو انھوں نے حالت حیض میں طلاق دی تھی۔(۲۱) یہ آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد تھا۔ (۲) حضرت ابوسفیان رضي الله عنه کی بیوی "ہند بنت عتبہ" نے جب حضرت ابوسفیان رضي الله عنه کی بخالت کی شکایت کی توآپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: "خذی من مالہ بالمعروف ما یکفیک ویکفی بینک.(ترجمہ: ان کے مال سے اچھے طریقے سے اتنا لے لیا کیجیے جو آپ دونوں کی ضرورت کے مطابق ہو)(۲۲) عورت کی ضرورت و کفایت کے بقدر شوہر پر نفقہ کا واجب کرنا آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد تھا۔ عبادات میں آپ صلى الله عليه وسلم کے اجتہادات (۱) کیفیت اذان کے سلسلے میں حضرات صحابہ سے مشورہ کے بعد آپ صلى الله عليه وسلم نے جو کچھ فیصلہ فرمایا وہ آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد تھا۔ اس سلسلہ میں کوئی وحی وغیرہ نازل نہیں ہوئی تھی۔(۲۳) (۲) ابتداء میں بیت المقدس آپ صلى الله عليه وسلم کا قبلہ تھا اور ۱۶ یا ۱۷ مہینہ ادھرہی رخ کرکے آپ صلى الله عليه وسلم نے نماز ادا کی، لیکن آپ صلى الله عليه وسلم کی خواہش تھی کہ آپ کا قبلہ مسجد حرام ہوجائے، چنانچہ آیت نازل ہوئی: قد نریٰ تقلب وجہک فی السماء(ترجمہ:"ہم آپ کو آسمان کی طرف نگاہ اٹھا اٹھا کر دیکھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں") آپ صلى الله عليه وسلم نے مسجد حرام کے قبلہ ہونے میں اجتہاد و قیاس کیا تھا۔(۲۴) (۳) منبر سازی کے سلسلہ میں آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنے ساتھیوں کی درخواست قبول فرمائی۔ یہ آپ کا اجتہاد تھا۔(۲۵) (۴) جماعت کی نماز چھوڑنے والے کے سلسلے میں آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد تھا کہ لکڑیاں جمع کرکے انہیں جلادیا جائے، لیکن پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے اس ارادہ سے رجوع کرلیا۔(۲۶) اگر تارک الجماعة کو جلانے کا حکم منجانب اللہ ہوتا تو آپ صلى الله عليه وسلم اس سے رجوع نہ فرماتے۔ (۵) رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی ابن سلول کیلئے آپ صلى الله عليه وسلم نے استغفار کیا تھا۔ یہ آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد تھا۔(۲۷) (۶) حضرت ابوطالب سے آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا تھا لاستغفرن لک مالم اُمنع(۲۸)(ترجمہ: میں آپ کے لیے دعائے مغفرت اس وقت تک کرتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے منع نہ کر دیا جائے) فأنزل اللّٰہ تعالیٰ: ما کان للنبی والذین آمنو ان یستغفروا للمشرکین (ترجمہ: لائق نہیں نبی کو اور مسلمانوں کو کہ بخشش چاہیں مشرکوں کی )آپ صلى الله عليه وسلم کا اپنے چچا کیلئے استغفار کا ارادہ محض آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد تھا۔ مذکورہ دلائل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے تمام ہی قسم کے معاملات میں اجتہاد و استنباط سے فیصلے کئے ہیں۔ البتہ آپ صلى الله عليه وسلم کے اجتہاد اور امت کے مجتہدین کے اجتہادات میں آسمان وزمین کافرق ہے۔ آپ کے اجتہاد میں ہدایت ہی ہدایت ہے۔ اگر آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد مشیت الٰہی کے مطابق نہیں ہوتا تو ہر وقت وحی کے ذریعہ آپ صلى الله عليه وسلم کو صحیح واقعہ کی رہنمائی کردی جاتی تھی؛ لیکن اتنا مسلّم ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے حالات وواقعات میں اپنے اجتہاد و استنباط سے کام لیا ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم کے اجتہادات کا حکم آپ صلى الله عليه وسلم نے جن مسائل میں اخذ واستنباط سے کام لیا ہے، تو کیا آپ صلى الله عليه وسلم اپنے تمام اجتہاد میں درستگی ہی پر تھے یا آپ صلى الله عليه وسلم سے خطاء و چوک بھی واقع ہواہے؟ جمہور محدثین کی یہی رائے ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم اپنے اجتہادات میں معصوم عن الخطاء تھے، جبکہ احناف کا اس سلسلے میں نقطئہ نظر یہ ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے اجتہادات میں خطاء بھی واقع ہوئی ہے۔ البتہ وحی کے ذریعہ اس کو منسوخ کرکے صحیح واقعہ کی رہنمائی فی الفور کردی جاتی تھی۔ دلائل کی روشنی میں احناف کا قول زیادہ راجح معلوم ہوتا ہے۔ اس لئے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کی جس اجتہادی غلطی پر خدا کی جانب سے تنبیہ کی گئی ہے، اس میں "عفا اللّٰہ عنک" کا لفظ استعمال ہوا ہے، لفظ "عفو" اسی وقت استعمال ہوسکتا ہے جبکہ اس سے پہلے "خطا" کو موجود مانا جائے۔ (۲) لم اذنت لہم (ترجمہ:آپ نے کیوں ان کو اجازت دی؟)میں استفہام انکاری ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ منافقوں کو غزوئہ تبوک میں عدم شرکت کی اجازت دینا آپ صلى الله عليه وسلم کی چوک تھی۔ (۳) حضرت قتادہ اور عمروبن میمون فرماتے ہیں "اثنان فعلہما الرسول لم یوٴمر بشیء منہما اذنہ للمنافقین، واخذہ الفداء فی الأسٰریٰ، فعاتبہ اللّٰہ کما تسمعون"(۲۹)(ترجمہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو کام ایسے کیے جن کا حکم نہ دیا گیا تھا:منافقوں کو اجازت دینا اور قیدیوں سے فدیہ لینا، چناں چہ اس پر اللہ تعالی تصحیح فرمائی) بہرحال آپ صلى الله عليه وسلم کے اجتہادات میں خطاء کا واقع ہوجانا ممکن ہے، لیکن وحی کے ذریعہ اس کو منسوخ کردیا جاتا۔ آپ صلى الله عليه وسلم کے خطاء اجتہادی کو برقرار نہیں رکھا جاتا تھا۔(۳۰) نوٹ: لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہادات میں جس چیز کو "خطا" سے تعبیر کیا جارہا ہے وہ باعتبار رضاء الٰہی کے ہے ، یعنی بھرپور کوشش کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجتہاد رضاء الٰہی کے موافق نہ ہوسکا ، جس پر وحی کے ذریعے اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ صحیح صورت تعلیم فرمادی۔ وضاحت کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اس مقالے میں لفظ"خطا" کو دیکھ کر کوئی صاحب /صاحبہ کسی بھی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہ ہوجائیں۔ (بندہ شاہ زاد) دورنبوی میں حضرات صحابہ کا اجتہاد اجتہاد نبی صلى الله عليه وسلم کی طرح یہ مسئلہ بھی انتہائی اہم ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے رہتے ہوئے حضرات صحابہ کا کسی پیش آمدہ مسئلہ میں اجتہاد کرنا جائز تھا یا نہیں؟ اس بارے میں جمہور علماء اور احناف کی رائے یہ ہے کہ جس طرح آپ صلى الله عليه وسلم کو نئے اور غیر منصوص مسائل میں اجتہاد کی اجازت تھی، اسی طرح حضرات صحابہ کیلئے بھی یہ جائز تھا کہ وہ اپنے اجتہاد و قیاس کے ذریعہ نوازل وواقعات کا حل تلاش کریں۔ ذیل میں ہم اس کی بھی چند مثالیں پیش کرتے ہیں: (۱) حضرت سعد بن معاذ رضي الله عنه نے حضور صلى الله عليه وسلم کے اشارہ سے یہود بنوقریظہ کے سلسلہ میں جو فیصلہ دیا تھاکہ انی أحکم فیہم ان یقتل الرجال وتقسم الاموال وتسبی الذرایا والنساء. (ترجمہ: میں ان کے بارے میں یہ فیصلہ کرتاہوں کہ ان کے مَردوں کو قتل کردیا جائے ، مال کو تقسیم کر لیا جائے اوربچوں اور خواتین کو قیدی بنا لیا جائے) آپ صلى الله عليه وسلم کا یہ فیصلہ آپ صلى الله عليه وسلم کا اجتہاد تھا۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے آپ کے اس اجتہادی فیصلہ کی پرزورالفاظ میں تحسین فرمائی: لقد حکمت فیہم بحکم اللّٰہ من فوق سبع ارفعة (سماوات)(ترجمہ: آپ نے تو ان کے بارے میں ایسا فیصلہ کیا ہے جس کی تائید سات آسمانوں کے اوپر سے ہوئی ہے ) (۲) غزوئہ احزاب سے واپسی کے موقع پر آپ صلى الله عليه وسلم نے صحابہ سے فرمایا تھا "لایصلین احدکم العصر، الا فی بنی قریظة (ترجمہ: جب تک تم لوگ بنو قریظۃ کے علاقے میں نہ پہنچ جاؤ عصر کی نماز نہ پڑھنا) بعض صحابہ نے اس ارشاد کو حقیقی معنی پر معمول کرتے ہوئے بنی قریظہ میں عصر کی نماز ادا کرلی اور وقت کی تاخیر کی کوئی پروا نہیں کی۔ جبکہ دیگر صحابہ نے اجتہاد کیا اوراس ارشاد نبوی کو محض غایت سرعت پر محمول کیا اور یہ خیال کیا کہ بنوقریظہ ہی میں عصر پڑھنا مقصود نہیں ہے؛ بلکہ مقصود جلدی پہنچنا ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے راستہ ہی میں وقت پر عصر کی نماز پڑھ لی، آپ صلى الله عليه وسلم کو جب واقعہ کا علم ہوا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے کسی فریق کو بھی برابھلا نہیں کہا۔ گویا آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کے اجتہاد کو بھی معتبر مانا اور عمل بالظاہر کو بھی صحیح قرار دیا۔ (۳) مقام بدر میں مسلمانوں کی چھاؤنی بنانے کے سلسلہ میں، غزوئہ احزاب میں مدینہ کے اردگرد خندق کھودنے کے سلسلہ میں اور غزوئہ احد میں مدینہ کے اندر یا باہر رہ کر مقابلہ کرنے کے سلسلہ میں حضرات صحابہ نے جو کچھ بھی مشورہ دیا تھا۔ یہ ان کا اجتہاد تھا، آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کے اجتہاد کو معتبر مانا۔ یہ تو حضرات صحابہ کے وہ اجتہادات تھے جو آپ صلى الله عليه وسلم کی موجودگی میں انجام پائے تھے۔ ان حضرات کے بعض ایسے اجتہادات بھی ہیں جو انھوں نے آپ صلى الله عليه وسلم کی غیبوبت میں انجام دیں لیکن جب آپ کو اس کا علم ہوا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے اس کو صحیح قرار دیا، مثلاً: (۱)کسی سفر میں حضرت عمر اور حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو غسل جنابت کی حاجت ہوئی پانی دستیاب نہیں تھا جس سے غسل کرسکتے۔ تیمم کی نوبت آئی، دونوں حضرات نے تیمم غسل کی کیفیت کے سلسلہ میں اجتہاد سے کام لیا۔ حضرت عمار رضي الله عنه نے مٹی کے استعمال کو پانی پر قیاس کرتے ہوئے پورے جسم پر مٹی مل لی اور نماز ادا کی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اجتہاد یہ تھا کہ مٹی جنابت دور کیسے کرسکتی ہے؟ انھوں نے نماز ہی نہیں پڑھی ۔ ان دونوں کے واقعہ کا آپ صلى الله عليه وسلم کو علم ہوا، تو آپ صلى الله عليه وسلم نے کوئی ایسی بات ارشاد نہیں فرمائی جس سے ان حضرات کے اجتہاد کی تردید وممانعت ثابت ہوتی ہو؛ بلکہ آپ صلى الله عليه وسلم نے صرف اس قدر فرمایا کہ تیمم غسل اور تیمم وضوء میں کوئی فرق نہیں ہے پورے جسم پر مٹی لیپنے کی ضرورت نہیں تھی۔ (۲) حضرت عمروبن العاص کو غزوئہ ذات السلاسل میں غسل کی حاجت ہوئی، سردی اتنی سخت تھی کہ پانی سے غسل کرنا ممکن نہیں تھا آپ نے تیمم کیا اور اپنے تمام ساتھیوں کو نماز پڑھائی۔ آپ صلى الله عليه وسلم کو جب معلوم ہوا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے پوچھا کہ تم نے ناپاکی کی حالت میں ساتھیوں کو نماز پڑھا دی، حضرت عمر بن العاص نے فرمایا: میں نے اللہ کا یہ ارشاد سنا ہے ولا تقتلوا انفسکم ان اللّٰہ کان بکم رحیماً، (ترجمہ: خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، کیوں کہ اللہ تعالی تو تم پر بہت رحم کرنے والے ہیں)آپ صلى الله عليه وسلم یہ جواب سن کر ہنس پڑے۔(۳۱) اور ان کے اس اجتہاد و استنباط پر کوئی نکیر نہیں فرمائی۔ نوٹ: آج کل یہ حکم نہ ہوگا ، بلکہ اگر آج کل کوئی شخص جنابت کی حالت میں یا بے وضو ہوتے ہوئے بھی نماز پڑھ لے تو اس کی نماز نہ ہوگی ، اس کو نماز لوٹانے کا کہا جائے گا، اور یہی حکم جماعت کا بھی ہے ، یعنی اگر امام بے وضو یا جنبی ہو تو امام کے ساتھ ساتھ مقتدیوں کی بھی نماز نہ ہوگی اور سب کو نماز لوٹانی ہوگی (بندہ شاہ زاد) (۳) حضرت معاذ بن جبل کو یمن کا قاضی بناکر بھیجنے کا وہ مشہور واقعہ بھی ہے جس میں انھوں نے آخر میں کہا تھا "اجتہد برایٴ" (ترجمہ: میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا) آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کے اس اجتہاد و قیاس کو نہ صرف معتبر مانا بلکہ ان کو شاباشی دی کہ "الحمد للّٰہ الذی وفق رسول رسول اللّٰہ بما رضی لہ رسول اللّٰہ"(۳۲) (ترجمہ: ہر قسم کی تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اپنے رسول کے نمائندے اس چیز کی توفیق دی جس سے اس کا رسول راضی ہوتا ہے )اگر آپ صلى الله عليه وسلم کے رہتے ہوئے حضرات صحابہ کا اجتہاد از رائے شرع ناجائز ہوتا تو آپ صلى الله عليه وسلم حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اس جملہ کی فوراً تردید فرماتے؛ لیکن آپ صلى الله عليه وسلم نے مذکورہ تمام واقعات میں حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجتہادات کو معتبر مانا۔ یہ چند واقعات ہیں، جن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی قانون وشریعت جامد ومعطل نہیں ہے؛ بلکہ اس میں ایسی لچک موجود ہے کہ نوپیش آمدہ مسائل کو کتاب وسنت کے حدود میں رہتے ہوئے کتاب وسنت کے اصولی ہدایات پر منطبق کیا جاسکے۔ یعنی سیرت نبوی کا اجتہادی پہلو قیامت تک کیلئے یہ دروازہ کھلا رکھتا ہے کہ ہر زمانہ میں پیدا ہونے والے جدید مسائل پر اسلامی قوانین واصول کو چسپاں کیا جائے اور لوگوں کے مصالح اور ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے ان مسائل کا ایسا حل تلاش کیا جائے جو شریعت کے مزاج اور زمانہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔ اخذ واستنباط کی یہ کوشش ممنوع نہیں بلکہ مطلوب ہے اور دراصل یہ ہے کہ اجتہاد نہیں بلکہ بدلتے ہوئے حالات میں ائمہ مجتہدین کے آراء کی تطبیق ہے جسے فقہ کی زبان میں "تحقیق مناط" کہا جاتا ہے۔ امام ابواسحاق شاطبی نے لکھا ہے کہ اجتہاد کی یہ وہ قسم ہے جو قیامت تک باقی رہے گی۔(۳۳) خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کے بدلتے ہوئے نظام پراسلامی قانون کا انطباق ان مسائل ہی میں سے ہے جس کی ضرورت واہمیت سیرت نبوی صلى الله عليه وسلم سے ثابت ہوتی ہے؛ بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ شریعت اسلامی کو زندہ و حاضر اور عصری ثابت کرنے کی سب سے بہتر اور واحد صورت یہی ہے کہ ہم اسلامی قانون کو دنیا کے سامنے اس طرح پیش کریں کہ وہ جدید مسائل وواقعات کا توازن اورمناسب حل پیش کرتا ہو۔ مصادر ومراجع: (۱) الاحکام للآمدی ۴/۱۶۵، مسلم الثبوت ۲/۳۶۱، تیسیرالتحریر ۴/۱۸۳۔ (۲) کشف الاسرار شرح اصول البزدوی ۳/۹۲۶، شرح الاسنوی علی المنہاج ۳/۱۹۴۔ (۳) شرح الاسنوی علی المنہاج ۳/۱۹۴۔ (۴) ارشاد الفحول ۲۵۵۔ (۵) اصول السرخسی ۲/۹۱۔ (۶) الاحکام للآمدی ۴/۱۶۵۔ (۷) التفسیر الکبیر للرازی ۱۰/۲۰۰-۲۰۱۔ (۸) اجتہاد الرسول ۵۳۔ (۹) الانفال ۶۸۔ (۱۰) التفسیر الکبیر ۱۶/۷۴۔ (۱۱) فتح الباری ۴/۴۹۔ (۱۲) فتح الباری ۳/۴۳۹۔ (۱۳) اجتہاد الرسول ۸۷۔ (۱۴) شرح النووی لصحیح مسلم ۱۰/۱۹۰۔ (۱۵) اجتہاد الرسول ۸۸ سورة عبس۔ (۱۶) سیرت ابن ہشام ۲/۲۷۲۔ (۱۷) سیرت ابن ہشام ۳/۶۴-۶۷۔ (۱۸) اجتہاد الرسول ۹۴۔ (۱۹) سیرت ابن ہشام ۴/۱۰۴۔ (۲۰) اجتہاد الرسول ۹۶۔ (۲۱) الاحکام لابن دقیق العید ۲/۲۰۱۔ (۲۲) صحیح مسلم کتاب الاقضیہ (۲۳) فتح الباری ۲/۷۷-۸۲۔ (۲۴) سیرت ابن ہشام ۲/۲۵۷۔ (۲۵) فتح الباری ۱/۴۸۶۔ (۲۶) مسلم، کتاب المساجد۔ (۲۷) تفسیر الرازی ۱۶/۱۴۶۔ (۲۸) فتح الباری ۸/۳۳۷-۳۳۹۔ (۲۹) تفسیر رازی ۱۶/۷۳، الاحکام ۴/۲۱۶۔ (۳۰) التحریر ۵۲۷۔ (۳۱) ابوداؤد ۱/۱۴۱۔ (۳۲) ابوداؤد ۲/۵۰۵۔ (۳۳) الموافقات ۳/۹۷۔
|
No comments:
Post a Comment