visitors

free counters

Tuesday, 28 February 2012

مسلم اور مذہبی صحافت کا تاریخی تجزیہ

خوشتر نورانی صاحب

گزشتہ دو سو سالوں میں ذرائع ابلاغ میں تدریجی وسعت کے باوجود آخر مسلم اور مذہبی صحافت کا دائرہ کیوں سمٹتا چلا گیا؟

 
 

مسلم صحافت کی تاریخ پونے دو سوسال پرانی ہے، اس طویل عرصے میں اپنی تمام تر جد و جہد اور صحافتی تقاضوں کی تکمیل کے باوجود اسے کبھی بھی وہ عروج حاصل نہیں ہوسکا جو دوسری قوموں کی صحافت کا مقدر ٹھہرا- ان پونے دو سوسالوں میں ذرائع ابلاغ کا دائرہٴ کار وسیع تر ہوتا گیا، لیکن مسلم صحافت غیرمنقسم ہندوستان سے مسلم سماج اور اس کے بعد مسلمانوں کے مذہبی یا اردو پسند حلقوں میں سمٹتی چلی گئی- ان گزرے ہوئے سالوں میں کبھی کسی تحریک یا جذبے کے زیر اثر مسلم صحافت کا دائرہ وسیع ہوتا ہوا دکھا بھی تو صرف اس وقت تک جب تک مذکورہ تحریک یا جذبے میں حرارت باقی رہی- ان کی یخ بستگی کے ساتھ ہی مسلم صحافت کی یہ وسعت سمٹ کر پھر اپنے محور پر گردش کرنے لگی- آگے چل کر مسلم صحافت کے بطن سے ہی مسلمانوں کی مذہبی صحافت نے بھی اپنے بال و پر نکالے، لیکن بہ استثنائے چند ان کے ذمہ داران کی صحافتی تقاضوں سے بے خبری مذہبی رسالوں کو طویل زندگی نہیں دے سکی اور اگر وسائل کی فرواوانی نے کسی کو لمبی عمر تک زندہ بھی رکھا تو اسے عوام کی جانب سے قبولیت کا خلعت عطا نہیں ہوسکا-

 مذہبی صحافت کی عدم مقبولیت نے ہی شاید موٴرخین کو اس کی مبسوط تاریخ لکھنے سے بے پروا رکھا، ناقدین نے اس کے محاسن و معائب پر گفتگو نہیں کی اور محققین نے اس کے لیے اپنی بساط تحقیق نہیں بچھائی- دنیا کی مختلف قوموں اور زبانوں یہاں تک کہ مسلم صحافت کی تاریخ اور عروج و زوال پر بھی ہمیں کثیر سرمایہ ملتا ہے، جب کہ مذہبی صحافت کی تاریخ، اس کے عناصر و اسالیب، رجحانات اور محاسن و معائب پر مشتمل چند مبسوط علمی و تحقیقی مضامین بھی نہیں ملتے-کسی بھی ترقی یا زوال کے دو بنیادی عناصر ہوتے ہیں: ایک داخلی اور دوسرا خارجی- داخلی عناصر کا تعلق صلاحیت، پیش کش او رطریق کار سے ہوتا ہے، جب کہ خارجی عناصر حالات اور ماحول پر مشتمل ہوتے ہیں- ترقی کا مدار دونوں عناصر کی صحیح تنظیم و ترتیب پر ہے، ان میں سے کسی ایک کی ناہمواری زوال اور نامقبولیت کا باعث بن جاتی ہے- عام مسلم صحافت اور مسلم مذہبی صحافت کی تاریخی کڑیوں کو مختلف ادوار میں جوڑنے کی کوشش کی جائے تو ہر دور میں ذرائع ابلاغ کے ہمہ گیر اثرات کے باوجود دونوں کی نامقبولیت کو مذکورہ نکتے میں دیکھا جاسکتا ہے-

مسلم صحافت کے داخلی عناصر تو ہر دور میں صحیح رہے، لیکن بدقسمتی سے اس کے دائرہٴ اثر کو خارجی عناصر نے کبھی وسیع اور ہمہ گیر ہونے کا موقع نہیں دیا، یہ خارجی عناصر مختلف زمانے میں مختلف رہے جن کی تفصیل یہ ہے:

۱- انگریزی سرکار کی سیاسی قلا بازیاں ۲- ۱۸۵۷ء کے الم ناک حادثے ۳- لسانی تعصب ۴- ہندوٴں اور مسلمانوں کا مذہبی اور معاشرتی تناوٴ ۵-تقسیم ہند ۶-اردو زبان کا اسلامائزیشن ۷-اور تقسیم ہند کے بعد اقلیتی اور اکثریتی مفادات پر حکومتوں کا جانب دارانہ رویہ-

جب کہ مذہبی صحافت سے عوام کی عدم دلچسپی کا سبب خارجی عناصر کے ساتھ داخلی عناصر بھی رہے، جن کی تفصیل یہ ہے:

۱-پیش کش کا روایتی طریق کار۲- Outdatedموضوعات کا انتخاب۳- عصری مفاہیم اور اسالیب سے بے خبری۴- صحافتی اصول سے ناآشنائی۵- فروعی مسائل پر جنگ و جدال۶- رسائل کی اشاعت میں وقت، محنت اور توجہ کی کمی ۷- صحافت کی اہمیت و اثرات سے غفلت

ان دونوں عناصر کو سمجھنے کے لیے مسلم اور مذہبی صحافت کے تاریخی ادوار کا جائزہ ضروری ہے-

برصغیر میں مطبوعہ صحافت کا آغازاور مسلمان:- برصغیر میں مطبوعہ صحافت کی ابتدا کلکتہ سے ۱۷۷۹ء میں "کلکتہ جنرل ایڈورٹائزر" کی اشاعت سے ہوئی، اس ہفت روزہ انگریزی اخبار کو جیمز آگسٹس ہیکی نے جاری کیا، جسے عرف عام "ہیکی کا گزٹ" بھی کہتے ہیں- وقت گزرنے کے ساتھ جیسے جیسے ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلط ہندوستان کے مختلف علاقوں پر بڑھتا گیا انگریزی صحافت میں بھی توسیع ہوتی گئی، یہاں تک کہ انیسویں صدی کے ربع اول تک انگریزی اخبارات کی تعداد ایک درجن سے زائد ہوگئی-یہ بھی واضح رہے کہ انگریزی صحافت کی توسیع ان علاقوں (بنگال اور اس کے مضافات) میں ہو رہی تھی جہاں مسلمان نہایت پسماندگی کی حالت میں گزر بسر کر رہے تھے، کیوں کہ انگریزوں کے متعدد اقدامات نے انہیں معاشی، سماجی اور تعلیمی حیثیت سے کمزور کردیا تھا، جب کہ ہندوٴں میں (جو پہلے سے ہی مسلمانوں کے زیر اقتدار تھے) انگریزی تعاون سے اصلاحی تحریکیں شروع ہوچکی تھیں، ان اصلاحات اور ہندوستانیوں میں عیسائیت کی تبلیغ کے لیے جگہ جگہ عیسائی مشنریاں بھی قائم کی جاچکی تھیں، جنہیں مسلمان قبول کرنے کو تیار نہیں تھے-اس وقت انگریزوں نے محسوس کیا کہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے مختلف علاقائی زبانوں میں اخبارات و رسائل بھی جاری کیے جائیں- چنانچہ ہندوٴں اور عیسائی مشنری کے زیر اہتمام فارسی، ہندی، بنگالی اور گجراتی زبانوں میں اخبارات نکلنا شروع ہوئے-

اس سلسلے میں کلکتہ سے ۱۸۱۸ء میں ڈاکٹر مارش مین نے بنگالی زبان کا پہلا رسالہ ماہنامہ "ڈگ درشن"، کلکتہ سے ہی اپریل ۱۸۲۲ء میں ہندو مصلح راجہ رام موہن رائے نے فارسی کا پہلا ہفت روزہ "مرأة الاخبار"، ممبئی سے۱۸۲۲ء میں مرزبان جی نے گجراتی زبان کا اولین اخبار ہفت روزہ "بمبئی سماچار" اور کلکتہ سے ہی ۱۸۲۶ء میں جگل کشور شکلا نے ہندی کا پہلا ہفت روزہ اخبار "اودنت مارتنڈ" جاری کیا- اس تفصیل کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہ جاتا کہ برصغیر کی ابتدائی مطبوعہ صحافت میں مسلمانوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا-

اردو صحافت کے آغاز کا مقصد اور مسلمان:-اردو کی مطبوعہ صحافت کا آغاز بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر اہتمام ۱۸۲۲ء میں ہفت روزہ "جام جہاں نما" کلکتہ سے ہوا، جس کا مدیر و مہتمم منشی سدا سکھ کو بنایا گیا، لیکن اردو صحافت کی اشاعت اور فروغ کا مقصد عیسائیت کی تبلیغ یا ہندوستانیوں کی اصلاحات نہیں تھی، اگر ایسا ہوتا تو مذکورہ اخبار کو کلکتہ کی بجائے اردو کے مراکز یا علاقوں سے جاری کیا جاتا، کلکتہ اور اس کے مضافات میں تو مسلمانوں کے درمیان بھی اردو مقبول نہیں تھی تو وہاں کے عام ہندوستانی کیا پڑھتے؟ شاید اسی وجہ سے مذکورہ اخبار کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ور وہ مختصر سی مدت میں بند ہوگیا- اردو صحافت کے آغاز کا مقصد موٴرخین نے جو بیان کیا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں کے تقریباً ہزار سالہ دور حکومت میں فارسی کو علمی، ادبی اور تہذیبی زبان کا درجہ حاصل تھا، یہ مسلمانوں کے اقتدار کی نشانی تھی جبکہ اردو صرف شعر و سخن کی زبان تھی- انیسویں صدی کے ابتدائی ادوار میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی سیاسی اور عسکری قوت بڑھنے لگی تو انگریزوں نے چاہا کہ ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں کا رشتہ ان کے ماضی سے کاٹ کر انہیں ذہنی و فکری حیثیت سے بھی غلام بنایا جائے- اس مشن اور خواہش کی تکمیل کے لیے فارسی زبان کا خاتمہ ضروری تھا-انگریزی کا چلن اس وقت عام نہیں تھا، اس لیے ان کی نگاہ انتخاب اردو پر پڑی اور انہوں نے اردو کو فروغ دینے کا منصوبہ بنایا- ۱۸۰۰ء میں فورٹ ولیم کالج کا قیام اسی مقصد کے تحت ہوا تاکہ فارسی کے بالمقابل اردو زبان کو ہندوستانیوں میں عام کرنے کی تحریک چلائی جاسکے اور اسی مقصد کے تحت مذکورہ ہفت روزہ اخبار بھی جاری کیا گیا-یہاں تک کہ ۱۸۳۰ء میں فارسی کو ختم کرکے اردو سرکاری زبان بنا دی گئی- اس طرح انگریزوں کی سیاسی قلابازیوں اور منصوبوں کے نتیجے میں انیسویں صدی کے ربع اول سے ۱۸۵۷ء تک ہندوستان کی مقامی زبانوں (فارسی، اردو، بنگالی، گجراتی، مراٹھی) میں تقریباً سو اخبارات ورسائل جاری ہوئے،جن میں مسلمانوں کی حصہ داری پچیس فیصد سے زیادہ نہیں رہی، اس کے برخلاف ہندوٴں نے انگریزوں کے تعاون سے مطبوعہ صحافت کے اس ابتدائی دور میں غیرمعمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا-

مسلم صحافت:-برصغیر میں مسلم صحافت کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

پہلا دور ۱۸۳۳ء سے ۱۸۵۷تک،دوسرا دور ۱۸۵۸ء سے ۱۹۰۰ء تک،تیسرا دور ۱۹۰۱ء سے ۱۹۴۷ء تک اور چوتھا دور ۱۹۴۸ء سے تاحال

پہلا دور: -برصغیر میں مغلوں کے زوال کے ساتھ ہی مسلمانوں کے(ہر محاذ پر)زوال کی تاریخ شروع ہوتی ہے،چنانچہ مسلم صحافت بھی اس کا شکار ہوئی اور بر صغیر میں مطبوعہ صحافت کے تقریباً ۵۲/سالوں اور ہندو صحافت کے ۱۳/سالوں کے بعد ۱۸۳۱ء میں مسلم صحافت کا آغاز ہوتا ہے- ۱۸۳۱ء میں مولوی سراج الدین نے کلکتہ سے پہلا فارسی اخبار "آئینہ سکندر" جاری کیا،جبکہ مولانا محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقرنے ۱۸۳۶ء میں دہلی سے "دہلی اردو اخبار"کے نام سے پہلا اردو اخبار نکالا-اس طرح ۱۸۵۷ء تک فارسی اور اردو زبانوں میں مختلف مقامات سے مسلمانوں نے مزید چند اخبارات و رسائل جاری کیے،جن کی کل تعداد تیس کے آس پاس ہوگی-

مسلم صحافت کے اس پہلے پڑاوٴ میں مسلمانوں کے پاس نہ کوئی منصوبہ تھا اور نہ کوئی مشن یا تحریک جس کو وہ اپنی صحافت کے ذریعے آگے بڑھاتے،اس لیے مسلم صحافت کا پہلا دور صحافتی نقطہٴ نظر سے بد رنگ اور پھیکا ہی رہا-اسی وجہ سے مسلم صحافت اپنے پہلے دور میں براہ راست کوئی نمایاں خدمت بھی نہیں انجام دے سکی اور نہ ہی کوئی اخبار عوام میں بہت زیادہ مقبول ہوسکا-اس دورکے اکثر اخبارات و رسائل آخری مغل تاجدار بادشاہ غازی کے شب و روز کا اشتہار بنے ہوئے تھے یا پھراستادان شعر و سخن کی آپسی چپقلش کے نمائندے-مثلاً اس وقت استاد ذوق اور مرزا غالب کی فنی رقابت عروج پر تھی،لہذا مسلم اخبارات بھی دو حصوں میں بٹے ہوئے تھے،ایک گروپ غالب کے پرستاروں کا تھاتو دوسرا ذوق کا گرویدہ اور دونوں ہی گروپ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے- ایک بارغالب کو قمار بازی کے الزام میں سزا ہوگئی توبشمول "دہلی اردو اخبار" ذوق کے حامیوں نے اپنے اخبارات میں اس خبر کو خوب اچھالا-اسی طرح مسلم صحافت کا پہلا فارسی اخبار"آئینہٴ سکندر " کو مرزا نوشہ کی سرپرستی حاصل تھی ،اس لیے ہر خبر کی سرخی کے نیچے ان کا ایک فارسی کا شعر بھی ہوا کرتا تھا-شعرا کے منظوم کلاموں کی کثرت اشاعت ان پر مستزاد،جس نے صحافت کو مشاعرہ گاہ بناکر رکھ دیا تھا-ان اخبارات میں ملکی اور بین الاقوامی خبریں بھی ہوتی تھیں،جن کے مآخذ و مراجع انگریزوں اور ہندوٴں کے زیر ادارت نکلنے والے اخبارات ہی ہواکرتے،اس لیے واقعات کے حقائق کا تعین بھی مشکل تھا اور خبروں کے بین السطور سے صحیح تجزیہ و تبصرہ بھی پریشان کن-ہاں!ان میں کچھ اخبارات ایسے بھی تھے جو انگریز افسروں کے ناروا ظلم وجبر کے خلاف آواز حق بھی بلند کرتے تھے،مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی-

جہاں تک مذہبی صحافت کی بات ہے ،جس میں عموماً مذہبی امور پر مسلمانوں کی رہنمائی مقصود ہوتی ہے،اسلامی تعلیمات کی تبلیغ و اشاعت ہوتی ہے اور مذہبی و ملی مسائل کا تاریخی و تجزیاتی مطالعہ ہوتا ہے ،مسلم صحافت کے اس پہلے دور میں اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا-حیرت کی بات ہے کہ انگریز و ں نے اپنی طاقت کے ابتدائی مرحلے میں ہی عیسائیت کی تبلیغ کا آغاز مختلف شعبوں سے کردیا تھا جس میں صحافت بنیادی کردار ادا کررہی تھی،لیکن مسلمانوں کی جانب سے کوئی مجلہ یا رسالہ شروع نہیں کیا گیا،حالانکہ رد عمل میں اس کام کا آغاز ناگزیر تھا-اس کے علاوہ ۵۷ء سے پہلے ملک کے سیاسی حالات بھی ایسے نہیں تھے جیساکہ اس کے بعد ہوئے،مادی انقلاب نے ہندوستان کے دروازے پردستک بھی نہیں دی تھی اور نہ ہندوستانی مسلمانوں کی مذہبی تپش کو کسی "ازم" نے ٹھنڈا کیا تھا-یہ سچائی ہے کہ اس وقت مسلمان سیاسی سطح پر جوجھ رہے تھے ،مگر مسلم دشمنی کی ایک بڑی وجہ ان کے مذہبی اور ایمانی معاملات بھی تھے-انگریزوں کے ذریعے فارسی زبان کے خاتمے کی کوشش اوراسلامی علوم و فنون کو مٹانے کی جدو جہد اسلام دشمنی کے روشن استعارے تھے-

یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر دین کی رہنمائی اور اشاعت اس کے علما ہی کرتے ہیں ،اسلام کا استحکام اور تبلیغ بھی علمائے شریعت کے ذریعے ہی ہوتی رہی ہے-حیرت ہے کہ برصغیر میں مسلم صحافت کے آغاز اور عروج میں علمانے ہی کمان سنبھالی ،لیکن اپنے پہلے صحافتی دور میں انھوں نے ہی مذہبی صحافت کو بالکل نظر انداز کردیا ،دوسرے لفظوں میں صحافت کے ذریعے اسلام کے استحکام و تبلیغ کی کوشش سے پہلو تہی کی گئی-مسلم صحافت کا آغاز و ارتقا اگر علما کے ذریعے نہیں ہوا ہوتا تو یہ شکایت اتنی بر محل نہیں ہوتی جتنی مذکورہ حالت میں ہوجاتی ہے- یہ شکایت اس وقت اور بھی بامعنی ہوجاتی ہے جب یہ تکلیف دہ تاریخ سامنے آتی ہے کہ اس وقت علماء کا ایک بڑا طبقہ منقولات اور دینی و ملی ضرورتوں سے صرف نظر کر کے یونانی فلسفے کی درس و تدریس اور عقول عشرہ، خرق والتئام فلک اور جزء الذی لایتجزیٰ کے رد و ابطال میں مصروف تھا- قدیم فلسفے کی تردید پر مشتمل ان لاحاصل مصروفیات کا ایک عظیم دفتر آج بھی بطور یاد گار لائبریریوں میں محفوظ ہے- ستم یہ ہے کہ علما کی تدریس کا ایک بڑا حصہ آج بھی ان کے بطلان پر صرف ہورہا ہے، حالانکہ برصغیر میں نہ اس وقت مذکورہ نظریات کا کوئی پرستار تھا اور نہ آج کوئی ان کا حامی و موید ہے- ایسے میں یہ سوال اپنی پوری توانائی کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے کہ مذہبی حلقے میں یونانی فلسفے کے تردید وابطال کی یہ ہنگامہ آرائیاں کیوں اور کس کے لیے تھیں؟ ہزار کوششوں کے باوجود بھی میں آج تک اس کا کوئی تسلی بخش جواب اپنے آپ کو دے کر مطمئن نہیں کرسکا- یہ بات بھی بڑی حیران کن ہے کہ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں ہی یوروپ کے اندر برپا ہونے والے جدید سائنسی انقلاب نے یونانی فلسفے کو رد کردیا تھا اور اس کے بالمقابل ڈارون ازم، مارکسزم اور فرائڈ کے جنسی فلسفے کی بنیاد رکھ دی گئی تھی، جو براہ راست مذہبی افکار و عقائد سے متصادم تھے اور بشمول برصغیر دنیا کے بڑے خطے کے ذہن و فکر کو تہ و بالا کر رہے تھے، مگر یوروپ کا یہ جدید فلسفہ نہ اس وقت علماء کی دلچسپی کا موضوع تھا اور نہ آج ہے- ممکن ہے دو سو سالوں کے بعدجب کسی نئے فلسفے کی بنیاد پڑے تو وہ یوروپ کے مذکورہ نظریات کی تدریس و تردید کی طرف متوجہ ہوں-

دوسرا دور:-مسلم صحافت کے دوسرے دور کا آغاز ۱۸۵۷ء کی بغاوت کے بعد شروع ہوتا ہے اور انیسویں صدی کے اختتام پر تمام ہوجاتا ہے- ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد مسلمانوں بالخصوص علما پر مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، کیوں کہ اس جنگ کی پیشوائی یہی لوگ کر رہے تھے، اس لیے قید و بند کی صعوبتیں، سرکاری مناصب سے معزولی، سزائے موت ، تعلیمی، سیاسی اور معاشی پابندیاں انہی کے حصے میںآ ئیں- برصغیر میں مسلمانوں کی اس دار و گیر کے نتیجے میں مسلم صحافت بھی بے پناہ متاثر ہوئی اور متعدد اخبارات بند کردیے گئے- دہلی ارد و اخبار کے مدیر مولوی باقر کو مسٹر ٹیلر پرنسپل دہلی کالج کے قتل کی سازش کے الزام میں گولی مار دی گئی، جب کہ ان کے صاحبزادے مولانا محمد حسین آزاد مصنف "آب حیات" گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہوگئے، اس کے علاوہ مسلم اخبارات کے بہت سے مدیروں اور مالکوں کو جیل میں ڈال دیا گیا-انقلاب۱۸۵۷ء کے بعد مسلم صحافت کے وجودکا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ۱۸۵۳ء تک اردو زبان کے اخبارات کی تعداد ۳۵ تھی، جب کہ ۱۸۵۸ء میں یہ تعداد گھٹ کر صرف بارہ رہ گئی، ان بارہ میں بھی صرف چھ اخبارات جنگ سے پہلے کے تھے اور چھ نئے تھے- ان بارہ اخبارات میں سے صرف ایک کی ادارت ایک مسلمان کے پاس تھی، باقی تمام غیرمسلموں کی زیر ادارت تھے- گویا یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ۱۸۵۷ء کے انقلاب کے بعد مسلم صحافت عملی طور پر ختم ہوگئی تھی- دوسری طرف ہندو صحافت نے جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد اپنے اخبارات کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف سخت انتقامی کارروائی کا مطالبہ کیا اور گنگا نہا لیا- مسلم صحافت تو عملی طور پر ختم ہوچکی تھی اور جو رہ گئی تھی خوف نے ا ن کے لہجے میں اعتدال پیدا کردیا تھا، ان حالات میں برصغیر کے اندر ہندو صحافت ہی رہ گئی تھی جسے حکومت کی سرپرستی حاصل تھی-

۱۸۵۷ء کے بعد تین چار سالوں تک مسلم صحافت نہایت محدود اور کمزور رہی- ۶۰ء کے بعد مسلمانوں نے ایک بار پھر اپنی بکھری ہوئی طاقت و ہمت کو یکجا کیااور اپنی صحافت کو نئے سرے سے مستحکم کرنے کی جد و جہد کا آغاز کیا- نتیجے میں ایک کے بعد ایک اخبار و رسالہ نکلنا شروع ہوئے، یہاں تک کے اس صدی کے آخر تک مسلم صحافت کی آواز موٴثر اور مضبوط ہو کر آزادی وطن کے احتجاجوں اور نعروں میں تبدیل ہوگئی-

تاریخی ادوار کے حساب سے مسلم صحافت کے دوسرے دور کا آغاز ۱۸۵۸ء سے ہوتاہے، اس دور میں ۱۹۰۰ء تک سیکڑوں مسلم اخبارات و رسائل منظر عام پر آئے، لیکن مورخین اور صحافتی تحقیق کاروں کے مطابق اپنے مشمولات، اسلوب، پیش کش اور ذہن سازی کی وجہ سے جو مقبولیت اور شہرت سرسید احمد خاں(۱۸۱۷ء/۱۸۹۸ء )کے اخبار اور رسالے کو ملی وہ کسی دوسرے کے حصے میں نہ آسکی-سرسید کی مقبول او رموٴثر صحافت کی وجہ سے ہی محققین نے مسلم صحافت کے دوسرے دور کے باقاعدہ آغاز کا سہرا ان کے سر باندھا ہے- مسلم صحافیوں کی لمبی فہرست میں سر سید پہلے شخص تسلیم کیے گئے جنہوں نے صرف مسلمانوں کی اصلاحات کے لیے صحافت کے میدان میں آنے کا فیصلہ کیا اور ان میں جدید علوم کے حصول کی تحریک پیدا کرنے کے لیے علی گڑھ سے ۱۸۶۶ء میں ہفت روزہ" سائنٹفک سوسائٹی" جاری کیا، جو بعد میں علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے نام سے بھی مشہور ہوا- یہ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں شائع ہوتا تھا تاکہ انگریزوں اور ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں کو متوجہ اور متاثرکرسکے- بقول ڈاکٹر مسکین علی حجازی:

 "انہوں(سرسید) نے اس اخبار کو صحت کے اعتبار سے اس مقام پر پہنچادیا جہاں پہلے کوئی اردو اخبار نہیں پہنچا تھا، علاوہ ازیں انہوں نے اپنے مدلل، منطقی، عام فہم اداریوں، تبصروں اور مضامین سے اخبار کو مفید اور وقیع بنایا-"(صحافتی زبان،ص:۱۹،مطبوعہ سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور)

انگریزوں نے اپنی سیاسی قوت کے ابتدائی دور میں فارسی دشمنی میں اردو کے فروغ کی جو کوشش شروع کی تھی، وہ انقلاب ۱۸۵۷ء کے بعد کامیاب ہونا شروع ہوگئی تھی، اس لیے مسلم صحافت کے دوسرے دور میں فارسی کے مقابلے میں اردو اخبارات و رسائل کثیر تعداد میں نکلے، لیکن ان کا اسلوب ادیبانہ اور عربی و فارسی آمیز تھا- یہ اسلوب مسلم صحافت کے قبول عام میں بڑی رکاوٹ تھا- مسلم صحافت کے اسلوب کو بھی اپنے اخبار کے ذریعہ عام فہم بنانے میں سرسید نے بنیادی رول ادا کیا، جس کے اثرات بعد کے اخبارات میں بھی دکھائی دیے-

مسلم صحافت کے پہلے دور کی طرح دوسرے دور میں بھی مذہبی صحافت کا نام و نشان نظر نہیں آتا، سوائے اس کے کہ کچھ اخبارات و رسائل کبھی کسی شمارے میں اپنی مضامین شائع کردیا کرتے تھے- سرسید کے اخبار کے علاوہ دوسرے دور کی پوری مسلم صحافت پہلے پہل صحافت برائے صحافت پر عامل رہی، لیکن اپنے اخیر دور میں اس کی پوری توجہ آزادی وطن کی جد و جہد پر مرکوز ہوگئی- یہ صحیح ہے کہ دوسرے دور میں مسلم صحافت کا مرکزی موضوع آزادی وطن رہا اور یہ بھی سچ ہے کہ اس دور میں مذہبی صحافت کہیں نظر نہیں آتی، لیکن میری رائے میں باقاعدہ مذہبی صحافت کا آغاز اسی دور سے ہوتا ہے- یہ الگ بات ہے کہ اس آغاز کو وسعت نہیں مل سکی-

برصغیر میں صحافت کی مفصل تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ سرسید احمد خاں نے ہی مذہبی صحافت کی بنیاد رکھی اور ۲۴/ دسمبر ۱۸۷۰ء میں علی گڑھ سے "تہذیب الاخلاق" جاری کیا- اس رسالے کا مقصد مسلمانوں کی دینی رہنمائی اور ان کی معاشرت کی اصلاح تھی- سرسید نے "تہذیب الاخلاق" کے پہلے ہی شمارے میں "تمہید" کے زیر عنوان اپنے مقصد کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:

"بس ہمارا مطلب ہندوستان کے مسلمان بھائیوں سے ہے اور اس مقصد کے لیے یہ پرچہ جاری کرتے ہیں تاکہ بذریعہ اس پرچے کے جہاں تک ہوسکے ان کے دین و دنیا کی بھلائی میں کوشش کریں-"(ص:۱)

اس رسالے کے تعلق سے محمد افتخار کھوکھر نے تاریخ صحافت میں لکھا ہے کہ:

"تہذیب الاخلاق نے مسلمانوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کردیا- اس اخبار نے مسلمانوں کو فرسودہ روایات، رسومات کی اندھا دھند تقلید ترک کرنے کا مشورہ دیا، مسلمانوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اپنی زندگیوں میں اسلام کو رائج کریں، لڑکیوں کے لیے بھی تعلیم کا انتظام کریں اور ہر قسم کے علوم و فنون سے استفادہ کریں-" ( ص: ۸۳/ مطبوعہ مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد،پاکستان)

یہ بات بھی بڑی عجیب ہے کہ تہذیب الاخلاق کی بے پناہ شہرت و مقبولیت کے باوجود اس صدی کے آخر تک مذہبی صحافت کا کوئی دوسرا نقش سامنے نہیں آسکا، اس عرصے میں اگر کوئی مذہبی رسالہ جاری ہوا بھی ہوگا تو اس کی عدم مقبولیت تاریخ صحافت میں اپنا اندراج نہیں کراسکی-

مسلم صحافت کے پہلے دور کی طرح دوسرے دور میں بھی مسلم صحافیوں اور علماء کی سرگرمیوں کے موضوعات اور ان کی ترجیحات مختلف تھیں، جن میں مذہبی صحافت کی گنجائش نہیں تھی، جس کا خمیازہ موٴرخین کی بے اعتنائی، عوام کی عدم دلچسپی اور نامقبولیت کی شکل میں مذہبی صحافت آج تک بھگت رہی ہے، جب کہ اسلام کی تبلیغ اور مسلمانوں کی دینی رہنمائی کا یہ ایک بڑا اور موٴثر ذریعہ ہوسکتا تھا- سرسید نے اس نوشتہ دیوار کو پڑھ لیا اور مذہبی صحافت کے ذریعہ مسلم سوسائٹی میں ذہنی و فکری انقلاب برپا کردیا- آج اسی کا نتیجہ ہے کہ برصغیر کی اصلاحی، صحافتی، ادبی اور تعلیمی تاریخ کے حوالے سے موٴرخین، محققین اور لکھنے والوں کی کوئی بات سرسید کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی-

مذہبی صحافت کے آغاز و ارتقا میں سرسید کے نمایاں کردار کے اعتراف کے ساتھ یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ انہوں نے اپنی مذہبی صحافت اور مذہبی تحریروں کے زریعے دین کی جو تعبیر و تشریح پیش کی وہ" اعتزالی فکر" کی نئی شکل تھی، جو امت مسلمہ کے شدید مذہبی انحرافات کا سبب بن گئی- سرسید کی تعلیمی، صحافتی اور اصلاحی میدانوں میں گرانقدر خدمات کے باوجود علما سے ان کے شدید اختلافات کی وجہ مذکورہ تعبیر و تشریح ہی تھی- یہ نظریاتی اختلافات آگے چل کر ان کی تعلیمی، اصلاحی اور صحافتی تحریکوں پر بھی براہ راست اثر انداز ہوئے- سرسید کی مذہبی تشریحات اور امت مسلمہ پر ان کے اثرات کے حوالے سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا یہ اقتباس قابل مطالعہ ہے:

"سرسید کے کام کو اصلاح اور تنقید عالی کے الفاظ سے تعبیر کرنا اور یہ کہنا کہ مسلمانوں میں ان کے بعد جتنی اہم مذہبی، سیاسی، اجتماعی، ادبی، تعلیمی تحریکیں اٹھی ہیں ان سب کا سررشتہ کسی نہ کسی طرح ان سے ملتا ہے، دراصل مبالغہ کی حد سے متجاوز ہے- سچ یہ ہے کہ ۵۷ء کے بعد سے اب تک جس قدر گمراہیاں مسلمانوں میں پیدا ہوئیں ان سب کا شجرہٴ نسب بالواسطہ یا بلا واسطہ سرسید کی ذات تک پہنچتا ہے، وہ اس سرزمین میں تجدد کے امام اول تھے اور پوری قوم کا مزاج بگاڑ کے دنیا سے رخصت ہوئے-"(ترجمان القران، شوال ۱۳۵۹ھ بحوالہ مولانا مودودی کے ساتھ میری رفاقت کی سرگزشت اور اب میرا موقف، مولانا منظور نعمانی، ص: ۹۲، مطبوعہ الفرقان بک ڈپو، لکھنوٴ)

تیسرا دور:- مسلم صحافت کا تیسرا دور ۱۹۰۱ء سے شروع ہوکر ۱۹۴۷ء میں آزادی اور تقسیم ہند پر ختم ہوتا ہے- اس دور کو مسلم صحافت کا سب سے تابناک اور زریں دور کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا- اس کے کئی اسباب تھے:

۱-            بیسویں صدی کے آغاز میں انگریزی سرکار کے آمرانہ رویوں سے تنگ آکر مسلمانوں میں بھی سیاسی حقوق کی بازیافت کی جد و جہد تیز تر ہوگئی-

۲-            ۱۸۵۷ء کے انقلاب کے ساتھ آزادی وطن کی جس تحریک کی ابتدا ہوئی تھی، انیسویں صدی کے آغاز میں وہ تحریک ایک نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ پرجوش ہوگئی-

۳-            ۱۹۱۱ء میں انگریزی حکومت کی جانب سے بنگال کی تقسیم کی منسوخی اور ۱۹۱۳ء میں مسجد کانپور کی شہادت نے مسلمانوں میں بے بسی اور محرومی کا احساس جگایا، نتیجے میں مسلم قائدین اور صحافیوں نے انگریزوں کے ساتھ مصالحت کی پالیسی کو ترک کرنے کا فیصلہ کرلیا-

۴-            پہلی جنگ عظیم(۱۹۱۴ء-۱۹۱۸ء)میں سلطنت عثمانیہ کو ختم کرنے کی کوششیں جاری تھیں، جس کے نتیجے میں تحریک خلافت شروع ہوگئی-

۵-            تحریک خلافت کے ساتھ ساتھ تحریک ترک موالات اور تحریک ہجرت بھی جاری تھی اور اس کے ساتھ سانحہ جلیانوالہ باغ بھی ہوچکا تھا، جس نے ملک میں انگریزوں کے خلاف ہیجان برپا کر دیا -

۶-            سلطنت عثمانیہ کے خلاف۱۹۱۱ء میں جنگ طرابلس اور ۱۳/۱۹۱۲ء میں جنگ بلقان برپاہوگئی- اس طرح پوری دنیا میں مسلمانوں کے مذہبی، سماجی اور سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا ہو اتھا،جس کو مسلم قائدین اچھی طرح محسوس کرنے لگے-

ان اسباب کی وجہ سے مسلم صحافت ایک نئے مگر زیادہ بامقصد اور موٴثر دور میں داخل ہوگئی، جس میں مصلحتوں، مصالحتوں اور خوشامدانہ لہجوں کی گنجائش نہیں تھی- اس وقت مسلم صحافت کی جو نئی صورت حال تھی اس میں جوش، جذبہ، توانائی،بغاوت، مبارزت طلبی، جرأت و بے خوفی تھی-مسلم صحافت کی اس نئی طرز کی قیادت مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابوالکلام آزاد کر رہے تھے-

اول الذکر نے زمیندار (۱۹۱۰ء)،ثانی الذکر نے کامریڈ (۱۹۱۱ء)، ہمدرد(۱۹۱۲ء) اور موٴخر الذکر نے الہلال (۱۹۱۲ء) کے ذریعے مسلمانو ں میں اپنے حقوق کی بازیابی، آزادی وطن کی جد و جہد اور مذہبی تحفظات کی جو روح پھونکی، وہ آزادی ہند پر جا کر ختم ہوئی- ان تینوں نے بقول ڈاکٹر مسکین علی حجازی "صحافت کو نعرہٴ رستاخیز کا رنگ دے دیا-" اس جرأت و بے خوفی کی وجہ سے انہیں ناقابل برداشت اذیتوں اور مشکلات کا بھی سامنا رہا، سالہا سال نظر بندی اور قید و بند میں زندگی گزارے، متعدد بار چھاپہ خانے اور ضمانتیں ضبط کی گئیں اور مختلف نوعیت کی سزائیں دی گئیں- آخر مسلسل ضمانتوں، ضبطیوں اور نظر بندیوں کے پیش نظر مولانا ظفر علی خان کا زمین دار ۱۹۱۳ء میں، مولانا محمد علی جوہر کا کامریڈ ۱۹۱۴ء اور ہمدرد ۱۹۱۵ء میں اور مولانا آزادکا الہلال ۱۹۱۴ء میں بند ہوگیا-کچھ عرصے کے بعد ہمدرد اور الہلال دوبارہ جاری کیے گئے،لیکن پہلا ۱۹۲۷ء اور دوسرا ۱۹۲۹ء میں پھر بند ہوگیا- مذکورہ تینوں شخصیات کی صحافت سے عملی طور پر دستبردار ی کے بعد گوکہ مسلم صحافت کا وہ رنگ ڈھنگ نہیں رہا، لیکن ان تینوں نے مسلم صحافت کو جو نیا عنوان اور ولولہ دیا تھا اس نے برصغیر میں مسلم صحافت کو زندہ رہنے کا حوصلہ دے دیا، جس کے سہارے ۱۹۴۷ء تک سیکڑوں اخبارات و رسائل نکلتے رہے اور اپنی اپنی سطح پر صحافتی ذمہ داریاں پوری کرتے رہے- مسلم صحافت کے اسی دور میں صحافت میں جذبات نگاری کی بنیاد پڑی، عالم اسلام کے مسائل اٹھانے کی وجہ سے برصغیر کے مسلمانوں کا اسلامی دنیا سے ایک نیا رشتہ قائم ہوا، چونکا دینے و الی زبان فروغ پائی،صحافت میں تاجرانہ رنگ آیا ، ہفت روزہ اخبارات کثرت سے روزناموں میں تبدیل ہوئے ، صحافت کا دائرہٴ اثر بہت وسیع ہوگیا اور سب سے اہم بات یہ کہ مسلم صحافت عوام کی ترجمان بن گئی، جس کی وجہ سے اخبارات کے سرکولیشن میں بے پناہ اضافہ ہوا اور ان کی تعداد بھی بہت بڑھ گئی-

مسلم صحافت کے اس انقلابی عہد میں اگر مذہبی صحافت کی بات کی جائے تو بیسویں صدی کے آغاز سے مذہبی صحافت کا باقاعدہ اجرا اور برصغیر کے مختلف خطوں سے اس کی اشاعتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے-اس عرصے میں ۱۹۴۷ء تک تقریباً ڈیڑھ سو مذہبی رسائل و جرائد کا سراغ ملتا ہے-مسلم صحافت کے اس تیسرے دور میں مولانا آزاد کے "الہلال"کو اگر مذہبی صحافت کے زمرے میں لایا جائے تو اس کے علاوہ کوئی بھی مجلہ یا رسالہ شہرت اور مقبولیت کی اس بلندی تک نہیں پہنچ سکا جہاں تک الہلال کے رسائی تھی-جہاں تک اس دور کی مذہبی صحافت کی افادیت کا تعلق ہے ،اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس ڈیڑھ سو رسائل کی فہرست میں ایسے کئی رسائل اور مجلات سامنے آئے جو اپنے اپنے حلقوں میں مسلمانوں کی دینی و شرعی رہنمائی کا ذریعہ بنے نیز ان کے ذریعے بالواسطہ اردو زبان کا فروغ بھی ہوا،کیونکہ اس دور میں فارسی زبان عملی طور پر ختم ہوچکی تھی اور جتنے بھی رسائل و جرائد منظر عام پر آرہے تھے وہ سب کے سب اردو میں تھے-ان میں قاضی عبد الوحید فردوسی کا ماہنامہ تحفہٴ حنفیہ،پٹنہ(۱۹۰۸ء)اور مفتی عمر نعیمی کا السواد الاعظم،مراد آباد (۱۹۱۸ء) خاص طور پرقابل ذکر ہیں-اول الذکر نے تحریک ندوہ کے مسلکی اشتراک و اتحاد کی پالیسی کے خلاف اہل سنت و جماعت کی طرف سے بنیادی کردار ادا کیا جبکہ موخر الذکر نے قیام پاکستان کی تحریک میں اپنے مشمولات اور فکر انگیز مضامین کے ذریعے نمایاں حصہ لیا-لیکن پہلا قاضی عبدالوحید کے انتقال کے بعد اور دوسرا تقسیم ہند کے بعد جاری نہ رہ سکا-ان کے علاوہ اس دور کے مذہبی رسائل و جرائد میں ہفت روزہ الفقیہ،امرتسر(۱۹۱۸ء) ماہنامہ ترجمان القرآن ،حیدرآباد(۱۹۳۲ء)ماہنامہ معارف،اعظم گڑھ(۱۹۱۶ء)اور ہفت روزہ پیغام،کلکتہ (۱۹۲۱ء) کا فی اہم تھے اور اپنے مشمولات اور اثرات کے اعتبار سے تمام معاصر رسائل پر فوقیت رکھتے تھے لیکن جب بات صحافت کے وسیع اثرات کی کی جائے تواس بات کو بھی ماننا ہوگا کہ اس دور میں کوئی بھی مذہبی مجلہ یا رسالہ وسیع پیمانے پر مسلم معاشرے میں قابل ذکر اثرات قائم نہیں کرسکا-اس کی بنیادی وجہ" داخلی عناصر"(جس کی تفصیل ابتدا میں بیان کردی گئی)کی بے ترتیبی کے ساتھ "مسلمانوں کی مسلکی تقسیم"بھی تھی-

بر صغیر کی مسلم تاریخ میں محققین کے ذریعے یہ بات تسلیم کر لی گئی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان مسلکی فرقہ بندی کی ابتدا شاہ اسماعیل دہلوی (۱۷۷۹ء/۱۸۳۱ء ) کے ذریعے ہوئی ،جب انھوں نے ۱۲۴۰ھ(۲۵/۱۸۲۴ء)میں 'تقویة الایمان'نامی کتاب لکھی-اس کتاب کی اشاعت سے قبل مسلمانوں میں دو ہی فرقے مشہور تھے ،ایک شیعہ اوردوسرا سنی-اس کتاب کی اشاعت کے بعد مختلف ادوار میں متعدد فرقے وجود میں آئے،جیسے وہابی،اہل حدیث،اہل قرآن،دیوبندی،چکڑالوی،نیچری وغیرہ-ہر فرقہ اصول اور فروع میں خاص نظریات کا حامی و داعی تھا-اس طرح مسلمانان ہند مختلف فرقوں اور مسلکوں میں بٹتے چلے گئے-ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی یہ مسلکی تقسیم صرف نظریاتی اور فکری سطح تک محدود نہیں رہی،بلکہ ۵۷ء کے بعد ایک انسٹی ٹیوشن کی شکل میں جتنے مدارس وجود میں آئے ،مساجد تعمیر ہوئیں ،تنظیمیں اورتحریکیں تشکیل پائیں، کتابیں لکھی گئیں ان سب پر مسلکی رنگ غالب رہا، کیونکہ ہر سطح اور ہر محاذ سے اپنے اپنے مسلک کی تبلیغ اور دفاع کی کوششیں کی جارہی تھیں-اس ماحول میں جب مذہبی صحافت کی ابتدا ہوئی تو مسلکی تقسیم کا اثر اس پر بھی پڑا-کسی بھی مسلک کے صحیح یا غلط اور اس کے حق تبلیغ و دفاع کی بحث سے قطع نظر اس دور کے تمام مذہبی رسائل اپنے اپنے مسلک کی نمائندگی کر رہے تھے،اس لیے ان میں سے کوئی ایک بھی امت کا رسالہ نہیں بن سکا-مذہبی صحافت کی یہ مسلکی تقسیم اس کی عام مقبولیت ،توسیع اور اثرات میں رکاوٹ بن گئی،اس لیے کہ ہر پرچہ اپنے خاص مسلکی نظریات کے ساتھ صرف اپنے ہی حلقے میں پڑھا جارہا تھا-یہ بات بالکل قطعی ہے کہ ہر چیز کے کچھ اپنے تقاضے اور اصول ہوتے ہیں ،جن کی پاسداری ضروری ہوتی ہے- صحافت کے بھی اپنے تقاضے اور اصول ہیں،جس کوحد سے زیادہ نظریاتی تسلط،تقسیم،ادعائیت،موضوعیت اور جانب داریت راس نہیں آتی-

چوتھا دور:-منقسم اور آزاد ہندوستان میں مسلم صحافت کا چوتھا اور آخری دور ۱۹۴۸ء سے شروع ہوا اور آج( ۲۰۱۰ء) تک جاری ہے-حالانکہ اکیسویں صدی کے آغاز سے سائنسی ایجادات اور ترقیات کے سہارے صحافت وسیع اور موٴثر ترین ہو کر ایک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے- اب کسی بھی جمہوری ملک کی تنظیم و تعمیر میں صحافت کو عدالت، پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے ساتھ چوتھے ستون کی حیثیت سے تسلیم کرلیا گیا ہے-یعنی ایک جمہوری ملک میں صحافت کو وہی حیثیت حاصل ہے جو عدالت ،پارلیمنٹ اور انتظامیہ کو ہے ،لیکن ذرائع ابلاغ کی اس نئی صورت حال کو بہت دن نہیں گزرے ہیں، اس لیے مسلم صحافت کے پانچویں دور کی حیثیت سے اس مختصر عہد کا مستقل جائزہ قبل از وقت ہوگا-

ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کے بعد مسلم صحافت اپنے چوتھے دور میں بہت زیادہ ترقی نہیں کرسکی، بلکہ اکیسویں صدی کے اختتام تک تدریجاً نہایت محدود ہوگئی- اس کی متعدد وجوہات ہیں:

۱- ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے بعد پاکستان وجود میں آیا اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہجرت کر کے وہاں چلی گئی- اس تقسیم اور ہجرت کے نتیجے میں موجودہ ہندوستان کے مسلمان عددی طور پر اقلیت میں آگئے-

۲- مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد مسلمانوں پر جو سیاسی، معاشی اور تعلیمی زوال آیا، اسے ہر دور کی سیاست اور مسلمانوں کی داخلی کمزوریوں نے کبھی ختم ہونے کا موقع نہیں دیا- تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں کی صورت حال اور بھی ابتر ہوگئی، جس کا بالواسطہ اثر مسلم صحافت پر بھی پڑا-

۳- تقسیم ہند سے پہلے متحدہ ہندوستان کی زبان اردو تھی، انگریزی سرکار کی عنایتوں سے جب ہندو مسلم کشمکش کا آغاز ہوا تو لسانی تعصبات کا دور شروع ہوا- پہلے فارسی کو ختم کرکے اردو کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی، جب اردو فروغ پا گئی توحکومت کے تعاون سے ہندی اور دوسری مقامی زبانوں کو ترجیح دی جانے لگی، کیوں کہ اردو مسلمانوں کی علمی، ادبی، ثقافتی اور صحافتی زبان بن گئی تھی، جب کہ ہندو اردو سے دھیرے دھیرے کنارہ کش ہو کر ہندی اور دوسری مقامی زبانوں کے فروغ کی کوششیں کر رہے تھے- اس لیے آزادی سے قبل ہندوتو اردو کے ساتھ دوسری زبانوں میں بھی اخبارات نکال رہے تھے، لیکن مسلمانوں کی صحافتی سرگرمیاں صرف اردو میں تھیں- اس صورت حال کا اثر یہ ہوا کہ اردو کو مسلمانوں کی زبان بنادیا گیا اور تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کی قومی زبان ہندی قرار دے دی گئی- گویا مسلمانوں سے اچانک قوت گویائی چھین لی گئی اور انہیں گونگا بنادیا گیا، کیوں کہ وہ اردو کے علاوہ کسی اور زبان سے آشنا نہیں تھے-

۴- تقسیم ہند کے بعد غیر مسلم حکومتوں کی تعلیمی وزارت کی زیر نگرانی ابتدائی درجات سے اعلیٰ درجات تک جو تعلیمی نصاب ترتیب دیا گیا، اس میں اردو کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی- اس لیے ۱۹۴۷ء کے بعد جو نسلیں پڑھ کر نکلیں وہ عمومی طور پر اردو سے نابلد ہوتی گئیں اور اگر مسلمانوں کی اپنی کوششوں اور حکومتوں کی ووٹ بینک پالیسی کے تحت اردو میڈیم اسکول و کالج قائم بھی ہوئے تو ان کا نظام و نصاب اتنا کمزور تھا کہ وہاں سے نکلنے کے بعد معاشی خوشحالی کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا، اب بھی یہی صورت حال ہے، اس لیے مسلمان بھی اپنے بچوں کو عموماً اردو میڈیم سے تعلیم نہیں دلواتے- اس طرح موجودہ ہندوستان میں اردو معاشیات کی زبان نہ رہ کر صرف ادب کی زبان رہ گئی-اس کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کی نئی نسلیں بھی اردو سے ناواقف ہوگئیں- ۴۷ء کے بعد مسلم صحافت کا ذریعہ اظہار چوں کہ اردو ہی رہا، جس کے قارئین مسلمانوں میں بھی رفتہ رفتہ کم ہوتے چلے گئے- جو ہیں ان کا تعلق یا تو مذہبی حلقے سے ہے یا پھر اردوپسند حلقے سے-

۵- ۴۷ء کے بعد مسلم صحافت پر ملک کی نئی سیاسی و سماجی صورت حال اور نئے ماحول و مزاج کا کوئی اثر نہیں ہوا، وہ آزادی وطن سے پہلے جس طرح اردو میں تھی، آزادی کے بعد بھی (اردو کے اجنبی ماحول میں) بدستور اردو میں ہی رہی- مسلمانوں نے اپنی صحافت کو موٴثر اور مستحکم کرنے کے لیے نہ اس وقت دوسری زبانوں کا سہارا لیا اور نہ اب برقی صحافت کے موجودہ دور میں اپنی آواز اور مسائل کو حکومت اور عوام تک وسیع پیمانے پر پہنچانے کے لیے وہ اس طرف متوجہ ہیں- موجودہ ہندوستان میں مسلمانوں کے پاس نہ اپنا کوئی چینل ہے نہ انگریزی اور ہندی میں کوئی موٴثر اور کثیر الاشاعت اخبار- تعلیم کی کمی نے ان کی فکر کو اپنے روشن مستقبل سے بے نیاز کر رکھا ہے- دوسروں کے سہارے اپنی زندگی گزارتے گزارتے انہوں نے اپنی خود داری، عزت نفس اور قوت ارادی کو گروی رکھ دیا ہے-

۶- ۴۷ء کے بعد جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے مسلم صحافت یعنی اردو اخبارات کو عمداً نظرانداز کیا اور حکومتی سطح پر جس طرح کی مراعات اور سہولتیں دوسری زبانوں کی صحافت کو ملتی رہیں وہ مسلم صحافت کو نہیں مل سکی- اس صورت حال سے آج بھی مسلم صحافت دو چار ہے-

ان تمام اسباب و وجوہات کی بنیاد پر مسلم صحافت کی محدودیت کے باوجود کچھ اخبارات نے قومی اور ملی سطح پر نمایاں رول ادا کیا- ان میں روزنامہ قومی آواز دہلی و لکھنو، آزاد ہند کلکتہ، انقلاب ممبئی، سیاست حیدر آباد، منصف حیدرآباد، اخبار مشرق کلکتہ اوراردو ٹائمز ممبئی قابل ذکر ہیں، لیکن یہ تمام اخبارات جہاں جہاں سے نکل رہے تھے، ان ہی علاقوں اثر انداز تھے – قومی آواز کے علاوہ آج بھی یہ تمام اخبارات نکل رہے ہیں اور اپنے اپنے علاقوں میں مسلمانوں کی اردو ریڈرشپ کے درمیان بہت مقبول اور اثر انداز ہیں- ان کے درمیان ۷۰ء اور ۸۰ء کے دہے میں دو ایسے بھی اخبارات سامنے آئے جو اپنے اثرات اور ریڈرشپ کے اعتبار سے مذکورہ تمام اخباروں پر فوقیت لے گئے- ایک "نئی دنیا" اور دوسرا" اخبار نو"- اس کے تین اہم اسباب تھے: ایک تو یہ کہ یہ دونوں اخبارات ہفت روزہ تھے، جس کی وجہ سے پورے ملک میں پہنچتے تھے- دوسرا ان اخبارات میں مسلم مسائل کا تجزیہ اور ان پر تبصرہ خاص زاویے سے کیا جاتا تھا، جن میں وقتی جذباتیت، جوش وولولہ، احتجاج اور مظلومیت کا غلبہ رہتا تھا، تیسرا یہ کہ ۸۰ء اور ۹۰ء کے دہے میں مسلمانوں کے ایسے سیاسی اور سماجی مسائل سامنے آئے جن میں انہیں محسوس ہوا کہ ان کے مذہبی، سیاسی اور سماجی تشخصات اور وجود کو مٹانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، وہ تھے، بابری مسجد کے تحفظ کا مسئلہ، شاہ بانو کیس میں مسلم پرسنل لاء کا تحفظ اور ہندو فرقہ واریت- اس عہد میں ان دونوں اخبارات نے آزاد ہندوستان میں مسلم صحافت کی تاریخ میں مقبولیت اور اثرات کا نیا ریکارڈ قائم کیا- لیکن مذکورہ مسائل جیسے جیسے سرد پڑتے گئے، مسلمانوں میں سیاسی اور فکری شعور بالغ ہوتا گیا اور اکیسویں صدی کے اختتام کے ساتھ ذرائع ابلاغ ایک نئے دور میں داخل ہوئی، اخبار نو اور نئی دنیا کی مقبولیت اور اثرات کا دائرہ سمٹتا چلا گیا-

جہاں تک روزناموں کی بات ہے تو اکیسویں صدی کے آغاز سے مذکورہ روزناموں نے انگریزی اور ہندی اخبارات کی طرز پر اپنے مشمولات کو زیادہ بامعنی اور چہروں کو رنگین بنالیا، لیکن یہ تبدیلیاں(اردو زبان کے انحطاط کی وجہ سے) ان کی مقبولیت میں بہت زیادہ اضافے کا باعث نہیں بن سکیں- اکیسویں صدی کے آغاز سے مسلم صحافت کے افق پر چند مزید روزناموں کا اضافہ بھی ہوا، تاہم ان کے سرکولیشن اور اثرات حوصلہ افزا نہیں ہیں-ان نئے اخبارات میں روزنامہ "راشٹریہ سہارا" دہلی استثنائی حیثیت کا حامل ہے، جو آزاد ہندوستان میں اپنی وسیع اشاعت، ملٹی ایڈیشنز اور مقبولیت کے اعتبار سے پہلا اخبار بن گیا ہے- حالانکہ یہ اخبار غیر مسلم کمپنی کی ملکیت میں ہے، لیکن مسلم صحافیوں کی زیر ادارت یہ مختلف شہروں سے اپنی تمام اشاعتوں میں جس طرح مسلمانوں کی حمایت و حق میں آواز بلند کرتا رہا ہے، محض مسلمانوں کی ملکیت نہ ہونے کی وجہ سے اسے مسلم صحافت کے زمرے سے خارج نہیں کیا جاسکتا ، بلکہ ملک گیر سطح پر اسے مسلمانوں کی آواز حق کا بڑا آرگن کہا جائے تو غلط نہ ہوگا-

 ۴۷ء کے بعد مسلم صحافت کے اس آخری دور میں اگر مذہبی صحافت کی بات کی جائے تو اس کی اشاعت و اثرات کو دیکھ کر بہت خوشی نہیں ہوتی- ۴۷ء سے قبل مذہبی صحافت کی جو داخلی اور خارجی صورت حال تھی، وہ ۴۷ء کے بعد مزید بگڑتی چلی گئی اور جو اہم مذہبی رسائل و جرائد تھے، وہ یا تو بند ہوگئے یا پھر تقسیم کے بعد پاکستان منتقل ہوگئے- وقت گزرنے کے ساتھ برصغیر کے مذہبی کینوس پر مسلکی تقسیم کا رنگ جب مزید گہرا ہوا تو مذہبی صحافت کا دائرہٴ اثر بھی بہت محدود ہوتا چلا گیا- اب ہمیں اگر مذہبی صحافت کی اشاعت، اثرات اور مشمولات کا جائزہ لینا ہو تو انہیں مسلکی خانوں میں تقسیم کر کے ہی لیا جاسکتا ہے- ۴۷ء کے بعد کی یہ تمام صورت حال کے باوجود اگر مذہبی صحافیوں نے اس کے داخلی عناصر پر توجہ دی ہوتی تو آج مذہبی صحافت کا رنگ ہی الگ ہوتا، کیوں کہ بقول شخصے دنیا میں دوہی چیزیں قابل فروخت ہیں، ایک جنسیات اور دوسری مذہبیات- دراصل انسان مجموعہ ہے جسم اور روح کا-اس کی جسمانی طلب کی انتہا اگر جنسی لذتوں کا حصول ہے تو روحانی تسکین کا ذریعہ مذہب-اس لیے مذہبی صحافت سے عوام کی عدم دلچسپی، اس کی محدود اشاعت، مختصر زندگی اور بے ثمری کا ٹھیکرا عوام اور صحافت کے "مذہبی عنوان" کے سر پھوڑنے کی بجائے اپنے رویوں پر غور کرنا چاہیے- اپنا محاسبہ انہیں یہ احساس ضرور دلائے گا کہ ہائی ٹیک ذرائع ابلاغ کی موجودہ صدی میں مذہبی رسائل کی پیش کش کا طریق کار کتنا پرانا ہے- سائنسی انقلاب کے ذریعے مادیت اور صارفیت کا جو سیلاب آیا ہے وہ مذہب، روحانیت اور انسانیت کو نگلنے کے لیے بے تاب ہے- جس سے معاشرے میں بے شمار جدید مسائل پیدا ہوگئے ہیں-ان جدید مسائل سے منہ پھیر کر مذہبی صحافت کے لیے جن موضوعات کا انتخاب کیا جارہا ہے، وہ کتنا غیر مفید اور بے فیض ہے-موجودہ صدی میں صحافت کو موٴثر ترین بنانے کے لیے ترسیل کی زبان کو دلچسپ، معروضی اور عام فہم بنانے کی کوشش تیز تر ہوتی جارہی ہے، جب کہ مذہبی صحافت کا اسلوب کتنا پیچیدہ اور فہم سے بالا تر ہے- مسلمانوں کی معاشی، تعلیمی اور سماجی مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے دور جاہلیت کے قبائل کی طرح فروعی مسائل پر طویل جنگ و جدال ان پر مستزاد-

مذہبی صحافت کے مذکورہ تمام مسائل کے ساتھ مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر میں کچھ رسائل ایسے بھی نکلے جو معاصر مذہبی رسائل میں اپنی تحریری، فکری اور علمی انفرادیت کی وجہ سے اپنے اپنے حلقوں میں مقبول ہوئے- ان میں اہل سنت و جماعت کا پندرہ روزہ "جام کوثر" کلکتہ ، ماہنامہ "جام نور" کلکتہ، ماہنامہ "پاسبان" الٰہ آباد اور ان کے بعد ماہنامہ "حجاز جدید" دہلی(۱۹۸۸ء) قابل ذکر ہیں-اول الذکر دونوں رسائل علامہ ارشدالقادری(۱۹۲۵ء/۲۰۰۲ء) کی زیر ادارت ۶۱/۱۹۶۰ء میں نکلے اور تین چار سالوں میں بند ہوگئے- اپنے مختصر عہد میں یہ دونوں رسائل اپنے مدیر کے اسلوب تحریر اور انداز فکر کی وجہ سے بے حد مقبول ہوئے- اسی طرح دیوبندی مکتب فکر کا "الجمعیة" دہلی اور ماہنامہ "تجلی" دیوبند-جماعت اسلامی کا سہ روزہ "دعوت" دہلی اور مولانا وحید الدین خان کا "الرسالہ" دہلی مذہبی معاصر رسائل و اخبارات میں نمایاں رہے-

 اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ صحافت خواہ وہ سیاسی ہو، ملی یا مذہبی، اپنے آپ میں کشش اور اثر اندازی کی صلاحیت رکھتی ہے-اس کے ذریعے وسیع پیمانے پر ذہن سازی، فکری تعمیر و ترقی، دعوت و تبلیغ اور اصلاحات کا ناقابل تنسیخ نقش معاشرے میں قائم کیا جاسکتا ہے- شرط یہ ہے کہ صحافت کو جبری اصول و نظام کی بجائے اس کے اپنے اصول اور تقاضوں کے تحت چلایا جائے-

No comments:

Post a Comment