پروفیسر محمد الیاس اعظمی
انیسویں صدی کے دوسرے عشرے سے شروع ہونے والا دَور برصغیر کے اندر مسلم معاشرے میں مذہبی و اعتقادی تفرق و تشتّت کی شروعات کا زمانہ ہے، آگے جاکر جس کی کوکھ سے بڑے بڑے فتنوں نے جنم لیا ہے۔ یہی وہ دور ہے جس میں بد عقیدگی اور غلط فکری کی کالی گھٹائیں نجد کی طرف سے بر صغیر کا رخ کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں یوں مسلم معاشرہ اس کی تاریکیوں میں ڈوب جاتا ہے۔
دوسری طرف برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی خفیہ و اعلانیہ چالوں اور درونِ خانہ نا اہل مغل شہزادوں کی باہمی رسّہ کشی اور اقتدار کی جنگ کے باعث جب دہلی کے لال قلعے پر گرفت کمزور پڑتی ہے تو مطلع سیاست بھی ابر آلود ہوجاتا ہے اور سرحد پار سے آنے والے قزاقوں، برطانوی لٹیروں کے ہندوستان پر غاصبانہ اقتدار کی کالی گھنگور گھٹائیں پورے طبقے پر چھاجاتی ہیں۔
یوں ظلمت کی ان تاریک اور گہری راتوں میں مسلم امّہ پر جو سب سے بڑا اور شدید حملہ ہوتا ہے وہ امت کے اجتماعی عقیدہ و ایمان پر ہوتا ہے۔ وہ مسلمانوں کے مرکز عقیدت و محبت لیکن گنبد خضریٰ کی ذاتِ بابرکات پر کیا جاتا ہے۔ محبوب کل صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کو متنازعہ بنانے کے لیے نت نئے عقیدے وضع کیے گئے کبھی عظمت نبوت پر حملے کیے گئے تو کبھی حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب پر شب خون مارتے ہوئے نبوت کے دعوے کیے گئے، کبھی مقام ولایت پر حرف گیری کی گئی تو کبھی ایسا بھی ہوا کہ شانِ الوہیت میں بھی تنقیص کی پیوند کاری کی گئی مختصر یہ کہ برصغیر میں دینی فتنوں کی یلغار اور افتراق بین المسلمین کے یہی بڑے اسباب تھے جن کی وجہ سے جسد ملت لخت لخت ہوگیا۔ اور اس کا شیرازہ بکھر گیا۔
فطرت کا اصول یہ ہے کہ جب زمین کا سینہ دھوپ کی تمازت سے خوب تپ جاتا ہے۔ نیز آندھیاں آتی ہیں اور کالے سیاہ بادلوں کی گھٹائیں چھا جاتی ہیں تو پھر رحمتِ الٰہی کے بادل بھی جھوم کر آتے ہیں اور ابر کرم باراں کی صورت میں خوب برستا ہے تو زمین کا سینہ نہ صرف ٹھنڈا ہوتا ہے بلکہ اس کے فیض کرم سے زمین کا سینہ چاک کرکے اس سے سبزہ اُگاتے ہیں یوں رحمت حق کی سر سبز و شاداب کھیتیاں ہر طرف لہلہاتی نظر آتی ہیں۔ بلا تشبیہ و بلا مثال ملتِ اسلامیہ ہند کے زوال وانحطاط کے اس دور میں بریلی کے مردم خیز خطّے پر بہار میں گلشنِ نقی علی میں محلہٴ سوداں گراں کی سرزمین میں احمد رضا کی صورت میں ایک پھول کھلتا ہے اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھرپور اپنی مہک سے خطہٴ ہند ہی نہیں بلکہ چار دانگ عالم کو معطر کردیتا ہے۔ تو پھر عالم عرب و عجم اسے اعلیٰ حضرت "عظیم البرکت" ، " سراج الامة" ، "مجدد دین و ملت" ایسے عظیم القابات سے یاد کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام القابات کی ردا فقط انہی کو زیبا دیتی ہے مگر اس کے باوجود حقیقت بین نگاہوں کو ممدوح عالم کا سر و قامت اس ردائے فخر سے کہیں بلند نظر آتا ہے۔
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی عمر عزیز کی ابھی چودھویں بہار دیکھ رہے تھے کہ مسند افتاء و ارشاد پر فائز کر دیے گئے۔ تو پھر آپ کی تحقیقاتِ انیقہ سے کشتِ ایمان میں وہ بہار آئی کہ جس سے اسلام اور اسلامیانِ عالم کو حیاتِ نو مل گئی۔ انہیں اثر خامہٴ رضا میں سے ایک نادر و شاہکار آپ کا وہ ترجمہٴ قرآن ہے جس کو آپ نے"کنزالایمان فی ترجمة القرآن" کے نام سے موسوم کیا۔
ہندوستان کی سرزمین ترجمہٴ قرآن کی دولت سے محروم نہیں تھی بلکہ اس سے پہلے بہت سے فارسی اور اردو تراجم بساط علم پر موجود تھے جن میں لفظی اور بامحاورہ ترجمے، مختصر حواشی یا جامع تفاسیر سبھی شامل تھے۔ ایسے میں ذہن میں یہ سوال بار بار انگڑائیاں لیتا ہے کہ پہلے تراجم کی موجودگی میں ایک نئے ترجمے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور یہ کہ اس نے مسلم معاشرے پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟
جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے کہ پہلے سے موجود تراجمِ قرآنی کی موجودگی میں ایک نئے ترجمے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری رقمطراز ہیں:
"اعلیٰ حضرت کے ترجمے کنزالایمان میں ادب رسالت کا پہلو تو جداگانہ اور امتیازی شان کے ساتھ جلوہ گر ہے اور ایسا کیوں نہ ہوتا کہ آپ کی ساری زندگی عشق و ادب مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور پاس ادب سے نابلد لوگوں کے ساتھ معرکہ آرائی میں بسر ہوئی۔ رب العزت نے ایک مقام پر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے:
وَوَجَدَکَ ضَآلّاً فَھَدٰی
اس مقام کا ترجمہ اہل علم کے لیے ایک آزمائش سے کم درجہ نہیں رکھتا۔ اکثر مترجمین نے اس کا ترجمہ کچھ اس طرح کیا ہے،
"اللہ نے آپ کو بھٹکا ہوا، راہ حق سے بے خبر، اور گم کردہ پایا تو ہدایت کی راہ دکھائی۔"
یہ تراجم بلاشک و شبہ شانِ رسالت اور ادب بارگاہ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کے منافی تھے۔ مترجمین کے ہاتھ سے بوجوہ ادب رسالت کا دامن چھوٹ گیا تھا۔ اور وہ اس حقیقت سے صرف نظر کر بیٹھے کہ اللہ کا کلام جو اترا ہے "وَرَفَعْنَا لَکَ " کا مصداق بن کر ہے اور جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت "وَاِنَّکَ لَتَھْدِیْٓ اِلیٰ صِرَاطِ مُّسْتَقِیْم" (اے محبوب بے شک تو سیدھی راہ کی طرف راہنمائی کرتا ہے) کا دعویٰ کرتا ہے تو ایسے معظم و اعلیٰ مرتبت رسول کی نسبت یہ کہنا کہ وہ معاذ اللہ راہ حق سے بھٹکا ہوا، بے خبر یا گم کردہ راہ تھا کتنا بڑا ظلم ہے جس کا اپنا یہ عالم ہو کہ وہ راہ صواب سے بھٹکا ہوا ہو کس طرح دوسروں کو ہدایت کی دولت سے بہرور کرسکتا ہے؟۔
﴿کنزالایمان کی فنّی حیثیت، ص:30﴾
حاصل کلام یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے "کنزالایمان" کے نام سے جو قرآن مجید کا نادر و شاہکار ترجمہ کیا ہے وہ محض شوق ترجمہ کے جذبات کی تسکین کے لیے نہیں تھا۔ بلکہ عقیدہ و عمل اسلامی فکر و فلسفہ، اسلامی تہذیب و ثقافت کی روحانی اقدار کا یہ تقاضا بھی تھا کہ بدعقیدگی کے بسائے جانے والے اس شبستان میں نورِ ایمان کے چراغ روشن کرنے کے لیے اس کتابِ نور قرآن مجید کا ترجمہ اور ترجمانی اس اسلوب بیان میں کی جائے کہ صاحبان ایمان اور اہل عقیدت و محبت کا دامن ایمان کے خزانوں سے اس طرح بھر پور ہوجائے کہ پھر کسی اور ترجمے اور ترجمانِ قرآن کی انہیں حاجت تک نہ رہے۔ اسی لیے ھدی خوان قافلہٴ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس ترجمہٴ قرآن کا نام ہی "کنزالایمان فی ترجمة القرآن" رکھا ہے۔
کنزالایمان فی ترجمة القرآن کا ایک صدی پر محیط یہ سفر خود اس امر کی شہادت فراہم کر رہا ہے کہ اس نے بیسویں صدی پر جو دور رس اثرات مرتب کیے ہیں ان کا اندازہ اس کی پاک و ہند اور دنیا کے دیگر ممالک میں اور مختلف زبانوں میں کثرتِ اشاعت سے لگایا جاسکتا ہے۔
یہ حقیقت امرِ واقعی ہے کہ قرآن کی تاثیر و اثر اس کی ذاتی صفت ہے البتہ اس امر کا انکار بھی ممکن نہیں ہے کہ مطالب قرآنی کے فہم اور اس سے فکری و نظریاتی راہنمائی لینے میں اس کا ترجمہ و تفسیر اہم کردار ادا کرتا ہے اور یوں ایک مترجم یا مفسّر بھی طالب ہدایت کی فکری تعمیر اور ذہن سازی میں کردار ادا کرتا ہے۔
بیسویں صدی بالخصوص فکری و نظریاتی اور اعتقادی و مسلکی اعتبار سے اپنے اندر ایک ایسی تاریخ سمائے ہوئے ہے کہ جس کے مختصر جائزے کے لیے بھی ایک دفتر درکار ہے ان زلازل و فتن میں قصرِ عقیدہ و اعتقاد ہچکولے لے رہا تھا۔ اہل حق کسی مسیحا کی راہ تک رہے تھے کہ امام احمد رضا خاں علیہ الرحمة کشتیِ ملت کے پاسباں بن کر میدانِ عمل میں اترتے ہیں اور قلم و قرطاس کے ذریعے ہچکولے کھلاتے ہوئے قصر ایما ن کا اس جرأت و استقامت کے ساتھ دفاع کرتے ہیں کہ فتنہٴ اعتزال کے زخم خوردہ اور تہذیب مغرب کے اسیر بھی اس سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ سرزمین بریلی سے اُٹھنے والی عشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اس آواز میں کچھ ایسی علمی گھن گرج تھی کہ ماہرین فلسفہٴ قدیم اور حاملینِ علوم جدید اس پر توجہ دیے بغیر رہ نے سکے۔
ایک وضاحت:
آگے بڑھنے سے پہلے اس بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ زیر قلم موضوع "بیسویں صدی پر کنزالایمان کے فکری اثرات" پر راقم کی اس تحریری کاوش میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے صرف ترجمہٴ کنزالایمان کے اثرات ہی مراد نہیں ہیں بلکہ میں نے موضوع میں توسع کا پہلو اختیار کیا ہے۔ کنزالایمان کے اثرات سے میرا مطمحِ نظر فکر رضا کے اثرات ہیں، اس لیے میری اس کاوش کو اسی زاویہٴ نگاہ سے دیکھا جائے۔
آمد برسر مطلب:
سطورِ سابقہ کا حاصل یہ ہے کہ انسانی زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جس پر کنزالایمان نے اپنے اثرات نہ چھوڑے ہوں۔ اور کوئی ایسا طبقہ نہیں جو اس سے متاثر نہ ہوا ہو۔
مذہبی اثرات:
جمہور امتِ مسلمہ ہند اور بعض نوخیز اقلیتی فرق کے درمیان پائے جانے والے اختلافات میں سے اہم ترین اور سب سے بڑا اختلاف یہ ہے کہ قرآن مجید کے کچھ مترجمین سے ترجمہٴ قرآن کرتے ہوئے بعض مقامات پر شان و مقام رسالت کے حوالے سے زبردست لغزشیں واقع ہوئی ہیں۔ یوں ادب و احترامِ رسالت کا دامن اُن کے ہاتھوں سے چھوٹ گیا۔ طرفہ یہ کہ اس طرف توجہ دلانے کے باوجود بھی اصلاح کی طرف کوئی توجہ نہ دی گئی۔ مراسلت کی گئی مگر عقائد حقّہ سے عدول کی رہ سے مراجعت نہ کی گئی۔ اس سلسلے میں صرف ایک حوالہ نذرِ قارئین کیا جاتا ہے اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز نے اللہ رب العزت اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں توہین و گستاخی کے کلمات پر متوجہ کرتے ہوئے اور اپنے مخترعہ عقائد سے رجوع کرنے کی طرف بار بار دعوت دی مگر نہ مکتوباتِ رضا کا جواب دیا گیا اور نہ اپنے مذعومہ عقائد سے رجوع کیا گیا۔ مکتوباتِ رضا میں سے صرف ایک مکتوب کا مختصر اقتباس ملاحظہ ہو۔ مولانا اشرف علی تھانوی کے نام ایک خط میں رقمطراز ہیں:
"آپ جانتے ہیں اور زمانے پر روشن ہے کہ بفضلہ تعالیٰ سالہا سال سے کس قدر رسائل کثیرہ غریزہ آپ اور آپ کے اکابر جناب مولوی گنگوہی صاحب وغیرہ کے رد میں ادھر سے شائع ہوئے اور بحمدہ تعالیٰ ہمیشہ لاجواب رہے۔
سوالات گئے، جواب نہ ملے، رسائل بھیجے، داخل ہوئے، رجسٹریاں پہنچیں، منکر ہو کر واپس فرمادیں۔"
﴿کلیات مکاتیب رضا۔ جلد اوّل۔ ڈاکٹر شمس المصباحی﴾
کلیات مکاتیب رضا میں تھانوی صاحب کے نام اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کے پانچ مکاتیب موجود ہیں ان تمام مکتوبات کا ایک ایک لفظ اس امر کی گواہی دے رہا ہے کہ مکتوب نگار کے دل میں دینِ حق اور افراد امت کے لیے کس قدر درد ہے اور وہ کس دل سوزی کے ساتھ جادہٴ حق سے بھٹک جانے والوں کو دلائل و براہین کے ساتھ رجوع الی الحق کی دعوت دے رہے ہیں۔ خود اعلیٰ حضرت کے اپنے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں:
"الحمد اللہ اس فقیر بارگاہ غالب قدیر عزو جلالہ کے دل میں کسی شخص سے نہ ذاتی مخالفت نہ دنیوی خصومت، میرے سرکارابد قرار حضور پُر نور سید الابرار صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اپنے کرم سے اس خدمت پر مامور فرمایا ہے کہ مسلمان بھائیوں کو ایسے حال سے خبردار رکھوں جو مسلماں کہلا کر اللہ واحد قہار جل جلالہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ما ذون مختار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان اقدس پر حملہ کریں تاکہ میرے عوام بھائی مصطفےٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بھولی بھیڑیں ان ذیاب فی ثیاب کے جبّوں، عماموں،مولویت، مشیخت کے مقدس ناموں قال اللہ، قال الرسول کے روغنی کلاموں سے دھوکے میں آکر شکار گرگان خونخوار ہوکر معاذ اللہ سقر میں نہ گریں۔"
﴿مکتوبات امام احمد رضا۔ مرتبہ مولانا پیر محمود احمد قادری، مکتبہٴ نبویہ لاہور، ص:115﴾
ناموس رسالتِ کے تحفظ کی اس تحریک میں اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ پر جس طرف سے بھی اور جو بھی ذاتی سوقیانہ حملے ہوتے ر ہے ان کے جواب میں آپ لکھتے ہیں۔ ملاحظہ ہو:
"ایسے وقائع بکثرت ہیں اور اب جو صاحب چاہیں امتحان فرمائیں ان شاء اللہ ذاتی حملوں پر کبھی التفات نہ ہوگا۔ سرکار سے مجھے یہ خدمت سپرد ہوئی ہے کہ عزت سرکار کی حمایت کروں نہ کہ اپنی، میں تو خوش ہوں کہ جتنی دیر مجھے گالیاں دیتے، افترا کرتے، بُرا کہتے میں، اتنی دیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدگوئی،مُنْقِصَت جوئی سے غافل رہتے ہیں میں چھاپ چکا اور پھر لکھتا ہوں، میری آنکھ کی ٹھنڈک اس میں ہے کہ میری اور میرے آباے کرام کی آبروئیں عزتِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سپرد ہیں اللّٰھم آمین ۔
﴿ایضاً، ص : 117﴾
مذکورہ بالا اقتباسات کا لفظ لفظ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ آپ کو کسی سے کوئی ذاتی رنج نہ تھا اور نہ کوئی ذاتی مفاد تھا۔ مفاد تھا تو صرف اللہ عزو جل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و حرمت اور ناموس کے تحفظ کا تھا۔ اللہ عزوجل اور رسول معظم و محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے مضطرب دل سے نکلنے والی اور دردوسوز میں ڈوبی ہوئی ان آہوں کا ہی نتیجہ تھا کہ اکابر مجرمین کے پیر و کاروں میں سے ہی بہت سے لوگوں کو حضور ایزدی سے یہ توفیق نصیب ہوگئی کہ انہوں نے اگرچہ اپنی تحریروں اور تراجم قرآنی میں اس کشتہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ کا نام تو ذکر نہیں کیا مگر اُن کی دعوتِ فکر ادب و احترام رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت پر مبنی فکر رضا کو صحیح اور درست تسلیم کرتے ہوئے اپنے اساتذہ اور اکابر کی بارگاہِ رسالت کی بے ادبی کی راہ کو مسترد کر دیا ہے۔ ہم اپنی اس بات کی تصدیق میں چندمثالیں حق پسند اور حق طلب قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
قرآن مجید کی سورہٴ والضحیٰ کی آیت کریمہ ہے،
وَوَجَدَکَ ضَآلًّا فَھَدٰی
﴿پ 30، الضحیٰ﴾
اس آیتِ کریمہ کا مختلف مترجمین کی طرف سے کیا گیا ترجمہ ملاحظہ ہو،
(1) پایا تجھ کو بھٹکتا پھر راہ سمجھائی۔ ﴿محمود الحسن﴾
(2) پایا تجھ کو بھٹکتا پھر راہ دی۔ ﴿شاہ عبد القادر﴾
(3) اور اللہ نے آپ کو بے خبر پایا سو رستہ بتلایا۔ ﴿اشرفعلی تھانوی﴾
(4) تمہیں ناواقف راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی۔ ﴿مودودی﴾
(5) اور رستے سے ناواقف پایا تو سیدھا رستہ دکھایا۔ ﴿مولوی فتح محمد ﴾
(6) اس نے تجھ کو بھولا بھٹکا پایا پھر راہ پر لگایا۔ ﴿وحید الزمان﴾
(7) آپ کو بے خبر پایا سو رستہ بتادیا۔ ﴿عبد الماجد دریا آبادی﴾
(8) پس پایا تجھ کو راہ بھولا ہوا پس راہ دکھائی۔ ﴿شاہ رفیع الدین﴾
(9) اور تم کو دیکھا کہ (راہ حق کی تلاش میں بھٹکے) بھٹکے (پھر رہے) ہو تو (تم کو دین اسلام کا) سیدھا رستہ دکھادیا۔ ﴿ڈپٹی نذیر احمد دہلوی﴾
(10) اور تجھے راہ بھولا پاکر ہدایت دی۔ (مولانا محمد جونا گڑھی)
(11) تو بے راہ تھا یعنی تجھے پڑھانے والا کوئی نہ تھا، اللہ نے تجھ کو شریعت یعنی قرآن سکھایا۔ ﴿حسین علی واں بھچڑاں﴾
آپ نے ملاحظہ کیا کہ محولہ بالا تمام تراجم میں بھٹکا، بے خبر، بھولا ہوا، بے راہ، کے الفاظ و کلمات مشترک دکھائی دیتے ہیں۔ راقم الحروف کا نقطہٴ نظریہ ہے کہ ترجمہ کرتے ہوے سوئے ادبی پر مشتمل ان کلمات پر اتفاق و اجماع محض اتفاقی نہیں بلکہ یہ بدعقیدگی اور غلط فکری کا اشتراک ہے۔ یہ سب بادیہٴ گمراہی میں بھٹکی ہوئی سوچ بے خبر و راہ بھولی ہوئی فکر کا نتیجہٴ بد ہے۔ ورنہ ہر وہ شخص جس کو فہم صحیح اور عقل سلیم کا ایک ذرّہ سا حصّہ بھی بارگاہِ ایزدی سے حاصل ہوا ہے، وہ پہلی ہی نظر میں جان کر پکار اٹھتا ہے کہ ان تراجم کو دولتِ ایمان اور دین اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے اور مقام و احترام رسالت سے خالی ہیں۔ اور اس عظیم بارگاہ سے کچھ بھی مناسبت نہیں رکھتے۔ ان تراجم اور ان کے مترجمین کو اپنے دور کی اعتزالی سوچ قرار دیا جائے تو یہ غلط نہ ہوگا۔
مولانا کوثر نیازی کا تبصرہ
مذکورہ بالا تراجم پر ہم اپنی طرف سے کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے سابق وفاقی وزیر مذہبی امور و حج و اوقاف مولانا کوثر نیازی جو مسلکی اعتبار سے دیوبندی نظریات کے حامل تھے جب مودودی سے سیاسی تربیت پاکر میدان سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دستِ راست کی حیثیت سے پیپلز پارٹی کے اسٹیج سے پروان چڑھے اور وفاقی وزارت کے منصب تک پہنچے تھے۔ غرض یہ بتانا مقصود ہے کہ مولانا کوثر نیازی نہ تو امام احمد رضا بریلوی رحمة اللہ علیہ سے تلمذ یا بیعت کی نسبت رکھتے تھے اور نہ آپ کے عقیدت مندوں میں شامل تھے نہ صرف یہ بلکہ امام احمد رضا خاں رحمة اللہ علیہ سے فکری ہم آہنگی رکھنے والے کسی بزرگ سے بھی اُن کو کوئی ایسی نسبت حاصل نہ تھی۔ وہ خالص دیوبندی فکر کے پروردہ تھے۔ خود اُن کا اپنا بیان ہے:
"میں نے صحیح بخاری کا درس مشہور دیوبندی عالم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی مرحوم و مغفور سے لیا ہے"۔
﴿امام احمد رضا خاں بریلوی ایک ہمہ جہت شخصیت، ص : 7، مطبوعہ، ادارہٴ معارف نعمانیہ، نومبر 1990ء﴾
مولانا کوثر نیازی کا تبصرہ
مولانا کوثر نیازی مذکورہ تراجم اور ان کے مترجمین پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"وَوَجَدَکَ ضَآ لًّا فََھَدٰی کے ترجمے کو دیکھ لو، قرآنِ پاک شہادت دیتا ہے،" مَاضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَویٰ"رسول گرامی نہ گمراہ ہوئے نہ بھٹکے۔ "ضَلَّ" ماضی کا صیغہ ہے، مطلب یہ ہے کہ ماضی میں آپ کبھی گم گشتہ راہ نہیں ہوئے۔ عربی زبان ایک سمندر ہے اس کا ایک ایک لفظ کئی کئی مفہوم رکھتا ہے، ترجمہ کرنے والے اپنے عقائد و افکار کے رنگ میں ان کا کوئی سا مطلب اخذ کرلیتے ہیں۔ "وَوَجَدَکَ ضَآلًّا" کا ترجمہ مَا ضَلَّ کی شہادت قرآن کو سامنے رکھتے ہوئے عظمتِ رسول کے عین مطابق کرنے کی صورت تھی مگر ترجمہ نگاروں سے پوچھو انہوں نے آیت قرآنی سے کیا انصاف کیا ہے؟
مترجمین کا محاکمہ:
(تراجم پر تبصرہ کرنے کے بعد مترجمین کا محاکمہ یوں کرتے ہیں۔)
شیخ الہند مولانا محمود الحسن ترجمہ کرتے ہیں،
'اور پایا تجھ کو بھٹکتا، پھر راہ سمجھائی'
کہا جاسکتا ہے مولانا محمود الحسن ادیب نہ تھے ان سے چوک ہوگئی آئیے ادیب، شاعر، مصنف اور صحافی مولانا عبد الماجد دریا آبادی کی طرف رجوع کرتے ہیں ان کا ترجمہ ہے،
'اور آب کو بے خبر پایا سو رستہ بتایا'
مولانا دریا آبادی پرانی وضع کے اہل زبان تھے، ان کے قلم سے صرف نظر کر لیجیے اس دور میں اردوئے معلیٰ میں لکھنے والے اہل قلم حضرت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے دروازے پر دستک دیتے ہیں، ان کا ترجمہ یوں ہے،
"اور تمہیں ناواقف راہ پایا اور پھر ہدایت بخشی"
پیغمبر کی گم راہی اور پھر ہدایت یابی میں جو وسوسے اور خدشے چھپے ہوئے ہیں انہیں نظر میں رکھیے اور پھر "کنزالایمان" میں امام احمد رضا خاں رحمة اللہ علیہ کے ترجمے کو دیکھیے
بیاورید گر اینجا بود سخن دانے
غریب شہر سخن ہائے گفتنی دارد
امام نے کیا عشق افروز اور ادب آموز ترجمہ کیا ہے فرماتے ہیں:
'اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی' ﴿کنزالایمان﴾
کیا ستم ہے فرقہ پرور لوگ "رشدی" کی ہفوات پر تو زبان کھولنے اور عالم اسلام کے قدم بہ قدم کوئی کارروائی کرنے میں اس لیے تامل کریں کہ کہیں آقا یانِ ولیِ نعمت ناراض نہ ہوجائیں مگر امام احمد رضا کے اس ایمان پرور ترجمے پر پابندی لگادیں جو عشق رسول کا خزینہ اور معارف اسلامی کا گنجینہ ہے
جنوں کا نام خرد رکھ دیا خرد کا جنوں
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے"
﴿ایضاً، ص: 8،9﴾
کنزالایمان میزان نقد میں
اب ذرا کنزالایمان پر مولانا نیازی کا تبصرہ ملاحظہ ہو،
"ادب و احتیاط کی یہی روش امام احمد رضا کی تحریر و تقریر کے ایک ایک لفظ سے عیاں ہے۔ یہی ان کا سوز نہاں ہے جو ان کا حرز جا ں ہے۔ ان کا طغراے ایمان ہے، ان کی آہوں کا دھواں ہے
حاصل کون و مکان ہے، برتر از ایں وآں ہے، باعث رشک
قدسیاں ہے، راحتِ قلب عاشقاں ہے، سرمہٴ چشم سالکاں
﴿ایضاً، ص: 8﴾
مولانا کوثر نیازی کے "کنزالایمان" اور دیگر تراجم قرآنی پر اس جامع اور غیر جانب دارانہ تبصرے کے بعد مزید کسی تبصرہ و تجزیہ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
کنزالایمان کے علمی و فکری اثرات
راقم کا وجدان یہ کہتا ہے اور میری پختہ رائے بھی ہے کہ اعلیٰ حضرت امام شاہ احمد رضا خاں قدّس سرہ المنان کی دیگر حسنات کا اگر ذکر نہ بھی کیا جائے اور فقط اس ایک خوبی و خصوصیت کو ہی لے لیا جائے جو آپ نے حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حرمت و تقدیس رسالت کے لیے سر انجام دی ہے اور "عشق و محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اصل ایمان ہے " کے اپنے فکر و فلسفے کو جس طرح سے ہر مسلمان کے دل میں اتار کر اُن کے عقیدہ و ایمان کی حفاظت کی ہے۔ آپ کے بقائے دوام، بخشش و مغفرت اور بلندیِ درجات کے لیے یہی کافی تھا۔ آپ نے اپنے ترجمہٴ قرآن "کنزالایمان" اور دیگر تصانیف بالخصوص اپنے فتاوٰی "فتاوٰی رضویہ" کے ذریعے سے تقدیسِ الوہیت، حرمتِ ناموس رسالت اور عظمت اولیا کے تحفظ کا فریضہ سر انجام دیا ہے۔ اس کی مثال اسلام کی صدیوں پر محیط تاریخ میں عنقا ہے۔ اور مستقبل میں بھی اس کی مثال کی پیش گوئی مشکل ہے۔
بر صغیر میں بدعقیدگی کی تحریک کا آغاز مولوی اسماعیل دہلوی (م1831ء) کی بدنام زمانہ کتاب نام نہاد "تقویة الایمان" کے منظر عام پر آنے سے ہوا اور پھر ملتِ اسلامیہ میں چھپے ہوئے مار آستینوں اور کچھ غیروں کے"دست غیب" کی کرشمہ سازیوں سے اس اعتزالی تحریک کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا گیا۔ اہانتِ رسول کی اس تحریک میں نئے نئے فتنے جنم لیتے رہے۔ چھوٹے چھوٹے فرقے وجود میں آتے رہے اور ملتِ اسلامیہ کے جسد ناز پر نوتراشیدہ، بد عی اور باطل عقائد کے نشتر چلاتے رہے ہیں۔ اس طوفانِ بلا خیز میں جو ذات ہمیں ملت کے مجموعی ایمان کا دفاع کرکے اس کے بکھر جانے والے اجزا کو ملاکر ایک مالا میں پرونے میں کوشاں و ساعی نظر آتی ہے اور افرادِ ملت کو اسلاف کی راہ پر گامزن رہنے کا درس دیتی نظر آتی ہے وہ صرف اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی رحمة اللہ علیہ کی ذاتِ مقدسہ ہے۔ یہ بات ہم محض عقیدت کے طور پر ہی نہیں کہہ رہے بلکہ خود امام احمد رضا خاں رحمة اللہ علیہ کے مخالفین بھی برملا اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کہ فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ اور اُن کے پیر و کار قدیم طریقوں پر قائم رہے۔ مولا نا سلیمان ندوی جو اپنے طبعی میلان کے اعتبار سے اہل حدیث (غیر مقلدانہ) خیالات رکھنے والے تھے وہ لکھتے ہیں:
"تیسرا فریق وہ تھا جو شدت کے ساتھ اپنی روش پر قائم رہا اور اپنے آپ کو اہل سنت کہتا رہا۔ اس گروہ کے پیشوا زیادہ تر بریلی اور بدایوں کے علما تھے۔"
﴿حیاتِ شبلی، ص: 46 بحوالہ تقریبِ تذکرہٴ اکابر اہل سنت، ص: 22 از مولانا عبد الحکیم شرف قادری﴾
اہلِ حدیث مکتبِ فکر کے شیخ الاسلام ثناء اللہ امر تسری کی گواہی بھی ملاحظہ ہو۔
"امر تسر میں مسلم آبادی، غیر مسلم آبادی (ہندو و سکھ وغیرہ) کے مساوی ہے۔ اسّی (80) سال قبل سب مسلمان اسی خیال کے تھے جن کو بریلوی حنفی خیال کیا جاتا ہے۔"
﴿شمع توحید (مطبوعہ سر گودھا) ص 40 بحوالہ امام احمد رضا محدث بریلوی پر دنیا بھر میں نئی نئی تحقیقات، از علامہ عبد الحکیم شرف قادری، ص: 5﴾
مذکورہ بالا دو مذہبی گواہوں کے علاوہ ایک موٴرّخ اور جدید تعلیم یافتہ غیر جانب دار شخصیت کی گواہی بھی ملاحظہ ہو:
"انہوں (مولوی احمد رضا علیہ الرحمة) نے نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی۔"
﴿موج کوثر: ص: 70، از شیخ محمد اکرام﴾
مذکورہ بالا ان تمام حوالہ جات کے پیش کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ امام احمد رضا خاں نے نہ تو کوئی نیا فرقہ قائم کیا اور نہ کوئی نیا مسلک و مذہب ایجاد کیا، بلکہ آپ پوری تندہی، پورے اخلاص اور کمال استقامت کے ساتھ اسلاف امت کے عقائد کی تبلیغ و اشاعت کی۔ انہی کا دفاع کیا اور مخترعہ عقائد کے حاملین کو اسلاف امت کے ہی مذہبی عقائد کی طرف دعوت دی۔ یہ آپ کے اخلاص ہی کا نتیجہ اور آپ کی فکر کے مبنی بر صداقت ہونے کی دلیل ہے کہ ان بدعتی گروہوں کے بانیاں کے بعد آنے والی اُن کی معنوی اولاد جب میدان میں اترتی ہے تو وہ امام احمد رضا خاں کے فکری و اعتقادی نشتروں کا مقابلہ کرنے سے کتراتی ہے، اپنے بڑوں کی راہ پر چلنے سے بظاہر گریز کرتی ہے: وہ اپنے تراجم اور تحریروں میں بظاہر ایسے الفاظ لاکر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اپنے اکابرین کے تراجم سے متفق نہیں ہیں۔
حکمتِ احمد رضا تیری کیا بات ہے
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے سورہٴ والضحیٰ کی آیت نمبر 7 " وَوَجَدَکَ ضَآ لّاً فَھَدٰی" کا ترجمہ یوں کیا ہے:
طططتت"اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی"
مخالفین حق نے جب اپنی مزعومہ توحیدی عینک لگا کر عشق محبت میں ڈوبے ہوئے ترجمے کنزالایمان کو دیکھا اور پڑھا تو بغضِ رسالت میں جلتے ہوئے یہ فتوٰی صادر کیا کہ "مولانا احمد رضا خاں نے یہ ترجمہ درست نہیں کیا اور اُن کا ترجمہ غلط ہے" اس کو اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ کی کرامت ہی قرار دیا جائے گا کہ یہ ہی "مفتیان" جب قلم اُٹھائے قرآن مجید کا ترجمہ کرنے بیٹھتے ہیں تو اگرچہ وہ "اپنی محبت میں خود رفتہ پایا" کی ترکیب تو اختیار نہیں کرتے مگر اشارةً اس ترجمہٴ رضا کی تائید ضرور کرتے ہیں۔
آئیے ہم اپنے اس موقف کی تائید میں چند مثالیں پیش کرتے ہیں تاکہ حقیقت پوری طرح مبرھن ہوکر سامنے آجائے۔
مولانا ابو الکلام آزاد جو کانگریس کے "شوبوائے" کے نام سے پورے ہندوستان میں شہرت پانے والے مذہبی راہنما تھے ، آزاد سیاسی طور پر کانگریسی اور مسلکی اعتبار سے پکے "دیوبندی" تھے اگرچہ اپنی "ابوالکلامی" کا اظہار کرتے ہوئے تقلید ائمہ اور اپنے اسلاف جیسے والا بزرگ مولانا خیر الدین، مولانا منور الدین وغیرہ جو پکّے اورمتصلّباہل سنت تھے اور اسماعیل دہلوی و تقویت الایمانی تصور توحید کے سخت مخالف تھے ، ان سے بیزاری کا اکثر اظہار کرتے رہتے تھے (اُن کی اپنی کتاب "تذکرہ" کے مندرجات اس پر بطور سند و دلیل کافی ہے)۔ مولانا آزاد نے بھی ترجمہٴ قرآن اور "ترجمان القرآن" کے نام سے قرآن مجید کی تفسیر لکھی، مولانا آزاد کا ترجمہٴ قرآن 1350ھ/1931 ء میں پایہٴ تکمیل کو پہنچا۔ آزاد نے اپنے اس ترجمے میں "سورہٴ الضحیٰ" کا ترجمہ کرتے ہوئے زیر بحث آیت کریمہ کا ترجمہ بایں الفاظ کیا!
"اے پیغمبر! ہم نے دیکھا کہ ہماری تلاش میں ہو۔ ہم نے خود ہی تمہیں اپنی راہ دکھلادی۔"
﴿ترجمان القرآن جلد سوم، ص: 184﴾
آزاد کا یہ ترجمہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں کے ترجمہٴ کنزالایمان کی بڑی حد تک تائید کرتا ہے۔ الفاظ کے فرق کے باوجود مفہوم قریب قریب ایک ہی ہے۔
تفسیر عثمانی
دیوبند کے شیخ الہند مولوی محمود الحسن نے "موضح الفرقان" کے نام سے قرآن مجید کا ترجمہ کیا جو 1336ھ/1918ء میں مکمل ہوا۔ مترجم نے تکمیل ترجمہ کے بعد اس کے حواشی بھی لکھنا شروع کیے مگر وہ صرف "سورہٴ آل عمران" تک حواشی لکھ سکے بعد میں ان حواشی کو ان کے شاگرد مولوی شبیر احمد عثمانی نے مکمل کیا۔ جو تفسیر عثمانی کے نام سے مشہور ہوئے۔ مولوی محمود الحسن نے ترجمہ تو خالص دیوبندی فکر کے مطابق ہی کیا ہے لیکن شبیر احمد عثمانی نے اس پر جو حاشیہ لکھاہے وہ قابل توجہ ہے ملاحظہ ہو:
"جب حضرت جوان ہوئے قوم کے مشرکانہ اطوار اور بیہودہ رسم و راہ سے سخت بیزار تھے۔ اور قلب میں خدائے واحد کی عبادت کا جذبہ پورے زور کے ساتھ موجزن تھا۔ عشق الٰہی کی آگ سینہٴ مبارک میں بڑی تیزی سے بھڑک رہی تھی۔ وصول الی اللہ اور ہدایت خلق کی اس اکمل ترین استعداد کا چشمہ جو تمام عالم سے بڑھ کر نفس قدسی میں ودیعت کیا گیا تھا اندر ہی اندر جوش مارتا تھا۔ لیکن کوئی صاف کھلا ہوا راستہ اور مفصل د ستور العمل بظاہر دکھائی نہیں دیتا تھا۔ جس سے اس عرش و کرسی سے زیادہ وسیع قلب کو تسکین ہوتی۔ اسی جوش طلب اور فرط محبت میں آپ بے قرار اور سرگرداں پھرتے اور غاروں اور پہاڑوں میں جاکر مالک کو یاد کرتے اور محبوب حقیقی کو پکارتے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے 'غارِ حرا' میں فرشتے کو وحی دے کر بھیجا اور وصول الی اللہ اور اصلاح خلق کی تفصیلی راہیں آپ پر کھول دیں یعنی دین حق نازل فرمایا "مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِیْمَانُ وَلٰکِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْراً نَّھْدِیْ بِہ مَنْ نَشَآءُ مِنْ عِبَادِنَا (شوریٰ رکوع5) (تنبیہ) یہاں "ضآلًّا" کے معنی کرتے وقت "سورہٴ یوسف" کی آیت "قَالُوْا تَاللّٰہِ اِنَّکَ لَفِیْ ضَلٰلِکَ الْقَدِیْمِ O" ک پیش نظر رکھنا چاہیے۔"
﴿تفسیر عثمانی، بذیل حواشی سورة الضحیٰ، ص: 778، 779، مطبوعہ دار التصنیف کراچی﴾
اب ذرا عثمانی صاحب کا سورہٴ یوسف کی مذکورہ آیت پر لکھا گیا حاشیہ بھی ملاحظہ ہو، لکھتے ہیں:
"یعنی یوسف کی محبت، اس کے زندہ ہونے اور دوبارہ ملنے کا یقین تیرے دل میں جاگزیں ہے، وہی پرانے خیالات ہیں جو یوسف کی خوشبو بن کر دماغ میں آتے ہیں"۔
﴿ایضاً بذیل حواشی سورہٴ یوسف آیت نمبر 95، ص:319، حاشیہ:1﴾
عثمانی صاحب کے اوّل الذکر حاشیہ سے اشارة النص سے اور ثانی الذکر حاشیے سے بطور "عبارة النص" ثابت ہوا کہ "ضآل" کا معنیٰ صرف گمراہ ہونا اور بھٹکنا ہی نہیں ہیں۔ بلکہ کسی کی محبت کا غالب آجانا اور کسی کی محبت میں وارفتہ ہوجانے کا معنی بھی پایا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مولانا عثمانی کبھی "لَفِیْ ضَلٰلِکَ الْقَدِیْمِ' 'کا معنی "یوسف کی محبت" نہ کرتے عثمانی صاحب اپنے حواشی میں صراحةً امام اہل سنت مولانا شاہ احمد رضا خاں کے بیان فرمودہ ترجمے "آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ پایا" کی تائید و تصدیق کر رہے ہیں۔ لیکن حیرت ہے کہ موصوف کے استاد اور مترجم مولوی محمود الحسن صاحب کی نظر اس معنی کی طرف کیوں نہ گئی؟ مقام رسالت سے اس قدر بے خبری کو غلط فکری اور بدعقیدگی کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔
ایک اور شہادت
پروفیسر مولوی فیروز الدین روحی دیوبندی نے سورہٴ والضحیٰ کی زیر بحث آیتِ مبارکہ کا ترجمہ یوں کیا ہے:
"اور آپ کو طالب پایا تو ہدایت دی"
اس ترجمہ پر اپنے تفسیری حاشیے میں لکھتے ہیں:
"پھر آپ کس طرح قلبی اضطراب میں مبتلا تھے کہ کسی طرح دنیا کی ضلالت اور کفر و شرک کا ازالہ ہوجائے تو اللہ تعالیٰ نے اس دلی تڑپ اور شوق کو اس طرح پورا کر دیا کہ اس نے آپ کو منصب نبوت و رسالت پر تفویض فرما کر ہدایت کی وہ راہ بتادی جس پر گامزن ہوکر کفر و شرک کی گند میں مبتلا لوگ نور ہدایت سے اپنے قلوب کے گند کا ازالہ کرلیں۔"
﴿قرآن کریم اردو ترجمہ مع مختصر تفسیر، پارہ 30، ص:67 مطبوعہ ادارہٴ تبلیغ القرآن نمبر 118، گولیمار کراچی﴾
پروفیسر روحی اپنے زیر نظر آیت کریمہ کے ترجمے اور اس کے حاشیے میں ضلالت و گمراہی کی نسبت حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں بلکہ "قلبی اضطراب" یعنی محبت الٰہی میں خود رفتگی کی نسبت کرتے ہوئے عام لوگوں کی ضلالت و گمراہی اور کفر و شرک میں مبتلا ہونے کو بیان کرکے آیت کے مفہوم کو واضح کر رہے ہیں کہ العیاذ باللہ گمراہ اور راہ حق سے بھٹکے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہیں تھے بلکہ وہ لوگ تھے جن کی طرف آپ نبی بن کر مبعوث ہوئے تھے۔
یہ ایک مُسلَّمَہ حقیقت ہے کہ قلب مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں جہاں محبت الٰہی کا بحرِنا پیدا کنار موجزن تھا وہاں قلب اطہر اس حوالے سے بھی مضطرب رہتا تھا کہ بادیہٴ ضلالت میں گم کردہ راہ لوگ میری دعوت حق پر ایمان کیوں نہیں لاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی بھی دی گئی ہے جیسا کہ ارشاد فرمایا:
لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُوٴْمِنِیْنَ O ﴿الشعراء 26:3﴾
"(اے حبیبِ مکرم!) کہیں تم اپنی جان پر کھیل جاوٴ گے اُن کے غم میں کہ وہ ایمان نہیں لائے۔"
بلاشبہ یہ امام احمد رضا خاں اور آپ کے ترجمے "کنزالایمان" کے فکری اثرات ہیں کہ ایسے چراغ روشن کیے ہیں جن کے ذریعے اعتقادی بے راہ روی کے اندھیرے خود بخود چھٹ جاتے ہیں۔ اور ہر صحیح العقل سلیم الفطرت شخص جادہٴ مستقیم کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔ جو یقینا فکر رضا کے صحیح و صواب ہونے کی بین دلیل ہے۔
جدید مترجمین قرآن پر اثرات:
جس طرح یہ ایک مسلحہ حقیقت ہے کہ قرآن مجید ایک ابدی اور دائمی شان رکھنے والی آخری الہامی کتاب ہے تو یہ بات بھی بغیر کسی شک و شبہ کے کہی جاسکتی ہے کہ قرآن مجید کے تراجم میں سے "کنزالایمان" بھی اپنے اندر یہ شان رکھتا ہے، جس طرح قرآن کی تاثیر ہر دور میں ایک ثابت شدہ حقیقت ہے اسی طرح کنزالایمان بھی اپنے اثرات مرتب کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اس نے صرف علوم قدیمہ کے ماہرین کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ عصری علوم کے ماہرین و ارباب علم و دانش کے قلوب و اذھان کو بھی مسخر کیا ہے۔
﴿1﴾ قیام پاکستان کے بعد ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے قرآن و سنت کے پیغام کی اشاعت کے حوالے سے جن اہل علم نے شہرت پائی ہے اُن میں سے ایک نام حضرت سید محمد وجیہ السیما عرفانی علیہ الرحمة کا بھی ہے۔ موصوف جدید ذہن رکھنے والے روشن خیال عالم اور سلسلہٴ عالیہ چشتیہ کے نامور شیخ بھی تھے۔ آپ سورہٴ والضحیٰ کی اس آیت کریمہ کا ترجمہ یوں کرتے ہیں:
"اور آپ کو مقصود کی چاہت میں گم گشتہ دیکھا تو مقصود تک پہنچادیا۔"
﴿عرفان القرآن، سورہٴ والضحیٰ، 93:7﴾
یاد رہے کہ موصوف نے "عرفان القرآن"کے نام سے قرآن مجید کا عمدہ اور شستہ و رواں ترجمہ کیا ہے۔ "ضآلّاً فَھَدٰی" کا ترجمہ مقصود کی چاہت اور مقصود تک پہنچا دینا، ایک عمدہ تعبیر ہے۔ اور مقام رسالت کے آداب کے تقاضوں کے بھی قریب تر ہے۔ اِس لیے کہ حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود و مطلوب ذاتِ حق کے سوا اور کچھ نہ تھا، مترجم نے اپنے ترجمے میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اسی طرح موصوف "سورہٴ یوسف" میں حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کی بات جس کو قرآن نے ذکر کرتے ہوئے یوں بیان فرمایا ہے!
"قَالُوا تَا للّٰہِ اِنَّکَ لَفِیْ ضَلٰلِکَ الْقَدِیْمِ"
"کہنے لگے خدا کی قسم آپ تو محبت کے اسی پُرانے غلبے میں گرفتار ہیں۔"
بیٹوں نے "ضلال" کی نسبت حضرت سیدنا یعقوب علیہ السلام جو اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی تھے کی طرف کی تھی حضرت مترجم نے اسی نسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کا ترجمہ "غلبہٴ محبت" انتہائی موٴدب الفاظ میں کیا ہے، مقام نبوت کا یہی تقاضا تھا۔ جو ترجمے میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔
﴿2﴾ جامعہ اسلامیہ (اسلامی یونیورسٹی)بہاولپور کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر سید حامد حسن بلگرامی کا نام اسلامی دنیا بالخصوص پاکستان کے علمی حلقوں میں کسی قسم کے تعارف کا محتاج نہیں۔ موصوف نے "فیوض القرآن" کے نام سے قرآن مجید کا بڑا ہی وجد آفریں ایمان افروز ترجمہ کیا ہے جس کو پڑھتے ہوئے قلب و روح اپنے اندرتازگی محسوس کرتے ہیں علاوہ ازیں اس ترجمے کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ تمام مکاتب فکر کے اکابر علما نے اس کی تائید و توثیق کی ہے۔ اکابرین اہلِ سنت میں سے حضرت غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمة اللہ علیہ، حضرت ضیاء الامت پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمة اللہ علیہ اور زینت مسند فقہ حضرت علامہ مفتی محمد حسین نعیمی رحمة اللہ علیہ کے اسماے گرامی اس کے موٴیدین میں شامل ہیں: اکابر زعماے ملت کے موٴید اس ترجمے میں سورہٴ والضحیٰ کی زیر بحث آیت مبارکہ کا ترجمہ ملاحظہ ہو:
"اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو (سرگشتہٴ شوق، وادی عشق الٰہی میں) سرگرداں پایا تو (اس نے) آپ کو منزل مقصود پر پہنچایا (غار حرا سے اُٹھا کر تبلیغ کے فرائض سونپے کہ دنیا اپنے ہادی کو دیکھے، ہدایت پائے)"۔
﴿فیوض القرآن، سورہٴ والضحیٰ 93:7﴾
﴿3﴾ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے بھی "عرفان القرآن" کے نام سے تقدیس الوہیت اور ادب و احترامِ رسالت سے لبریز ایسا ایمان افروز اور روح پرور ترجمہ کیا ہے کہ جس کو پڑھتے ہوئے قاری اپنی کشتِ ایمان میں بہار کو جو بن پر دیکھتا ہے۔ عشق و محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوب کر لکھے گئے اس وجدانی ترجمہٴ قرآن میں سورہٴ الضحیٰ کی زیر نظر آیت کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔
"اور اس نے آپ کو اپنی محبت میں خود رفتہ و گم پایا تو اس نے مقصود تک پہنچادیا۔"
﴿سورة والضحیٰ، 93:7﴾
صاحب عرفان القرآن ڈاکٹر محمد طاہر القادری، صاحب کنزالایمان اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں سے کس قدر متاثر ہیں؟ اس کا اندازہ ذیل کے اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے آپ سورہٴ والضحیٰ کی اسی زیر تبصرہ آیت کریمہ کے غلط تراجم پر جرح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔ ایک طویل اقتباس ملاحظہ ہو:
"بے شک ضلال میں بے خبری کا معنی پایا جاتا ہے اور بے خبر ہونا ضلال کا تقاضا بھی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس چیز سے بے خبری؟ کسی نے اس بے خبری کو راہ شریعت سے بے خبری پر محمول کیا، کسی نے راہ ہدایت سے بے خبری پر اور کسی نے راہ حق سے عدم آگہی پر لیکن اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ نے اسے وفورِ محبت میں خود سے بے خبری پر محمول کیا۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم وفورِ محبت الٰہی میں اس قدر مستغرق تھے کہ آپ کو اپنی ذات تک کی خبر نہ رہی۔
تاریخی تناظر میں بھی یہی حق و صواب ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بعثت سے پہلے چالیس چالیس روز غار حرا کی تنہائیوں میں یاد الٰہی میں مصروف رہتے تھے۔ چنانچہ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی عشق الٰہی میں استغراق و محویت کی اسی کیفیت کو ترجمے کے قالب میں ڈھالتے ہوئے اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ نے یہ ترجمہ فرمایا:
"اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی"
یعنی اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم جب تیری محبت و محویت اس کمال تک پہنچ گئی کہ تجھے نہ اپنی خبر رہی نہ دنیا و مافیھا کی یعنی جب تیرا استغراق و انہماک اپنے نقطہٴ عروج کو چھونے لگا تو "فَھَدٰی" ہم نے تمام حجابات مرتفع کر دیے۔ تمام پردے اُٹھادیے۔ تمام دوریاں مٹادیں۔ تمام فاصلے سمیٹ دیے اوراپنی بارگاہِ صمدیت میں مقام محبوبیت پر فائز کردیا۔
اعلیٰ حضرت نے محب و محبوب کے مابین چاہت و محبت کی کیفیات اور کمال درجہ احوال و دلربائی کا لحاظ کرتے ہوئے اس انداز سے ترجمہ کیا کہ لغت و ادب کے تقاضے بھی پورے ہوگئے اور بارگہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ادب کا دامن بھی ہاتھ سے چھوٹنے نہ پایا۔"
"ایں سعادت بزور بازو نسبت"
﴿کنزالایمان کی فنّی حیثیت، ص:31،32﴾
کنزالایمان کے تہذیبی و ثقافتی اثرات:
اس وقت موجود تمام تراجم قرآنی میں سے جس قدر گہرے تہذیبی و ثقافتی اثرات اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے ترجمہٴ کنزالایمان نے معاشرے پر کیے ہیں کسی اور ترجمے نے نہیں کیے ۔ آج معاشرے میں اسلامی و روحانی ثقافت کے جو مظاہر ہمیں نظر آتے ہیں اور معمول بہ دین کی بہاریں چمنستانِ حیات میں تازگی ایمان کا ساماں لیے نظر آتی ہیں یہ سب فیض ہے کنزالایمان کا۔
سائنس کی نو بہ نو ایجادات نے اگرچہ بظاہر تہذیب انسانی کو ترقی و عروج کی انتہائی حدوں تک پہنچادیا ہے مگر اس مادی ترقی کے چکا چوند عہد میں بھی انسان مادیت پرستی کا شکار ہوکر خالق سے تو دور ہوا ہی تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے آپ سے بھی دور ہوچکا ہے بلکہ خود سے نفرت کرنے لگا ہے۔ مادی مال و دولت اور مادہ پرستی کی اندھی محبت نے تمام اقدار حیات کو پامال کرکے رکھ دیا ہے۔ تمام رشتوں کا تقدس ہوائے نقس کی نذر ہوچکا ہے۔ غرض یہ کہ یہ سارا شاخسانہ ہے مادی تہذیب کا۔ بقول اقبال
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہوجا محبت کی زباں ہوجا
اس ماحول میں بھی ہر طرف محافل قرأت و نعت، محافل میلاد، عرس بزرگان دین، محافل گیارہویں شریف نہ صرف پاک و ہند میں بلکہ پوری دنیا میں بلا امتیاز رنگ و نسل اپنی خوشبو پھیلا رہی ہیں۔ اسلامی تہذیب و ثقافت اور تمدن کا شکوہ پوری آن بان کے ساتھ جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ بلاشبہ مسلم روحانی ثقافت کا احیا اور دفاع کرنا اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ کا ایک ایسا تاریخی اور انقلابی کارنامہ ہے کہ ہند کی پوری تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
امام احمد رضا نے اس دور میں اقدار دین کو ثابت رکھنے میں کردار اد اکیا جب جدید مغربی تہذیب کی فسوں کاریوں اور فرقِ مبتدعہ کی مخترعات سے قصر دین کی بنیادوں کو کمزور کیا جا رہا تھا۔ امتِ مسلمہ کا رشتہ اس کے کعبہٴ ایمان حضور پُر نور سید الانس والجان سے اور اسلافِ امت سے توڑنے کی سر توڑ کوششیں کی جا رہی تھیں علامہ علاوٴالدین صدیقی سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کے بقول:
"جب دین کی قدروں کو نیچے گرایا جا رہا تھا۔ اس وقت مولانا شاہ احمد رضا خاں قادری آگے بڑھے اور انہوں نے دین کی قدروں کو صحیح مقام پر ثبات بخشا۔"
﴿انوار رضا، ص:655 بحوالہ مقالاتِ یوم رضا، ص:70 مطبوعہ دائرة المضفین لاہور﴾
امام احمد رضا نے قلم و قرطاس کے ذریعے اسلامی ثقافت کا دفاع ہی نہیں کیا بلکہ اس کے فروغ میں تمام تر جوش ایمان، غیرت دینی اور ملی حمیت کے سرفر و شانہ جذبوں کے ساتھ اہم کردار ادا کیا۔ آپ کی بلند پایہ علمی تصانیف بالخصوص عظیم فقہی شاہکار "فتاوٰی رضویہ" نے نہ صرف مسلم فکر و فلسفہ اور عقائد اسلامیہ کے دفاع میں اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ اصلاح احوال، تعمیر سیرت اورپختگی عمل میں بھی راہنمائی کا فریضہ ادا کیا ہے۔ دلوں میں خوفِ خدا اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی آپ کی تصانیف کی اہم خصوصیت ہے۔ آپ کے علم و فکر کا یہ ایک ایسا پہلو اور وصف ہے، جس کو اپنے اور پرائے سب تسلیم کرتے ہیں۔ چنانچہ مودودی کے معتمد خاص،سابق جسٹس ملک غلام علی مسلکی و اعتقادی، فکری و نظریاتی ہر اعتبار سے اختلاف رکھنے کے باوجود فکرِ رضا کے اس خصوصی وصف کا اعتراف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
"حقیقت یہ ہے کہ مولانا احمد رضا خاں صاحب کے بارے میں اب تک ہم لوگ سخت غلط فہمی میں مبتلا رہے ہیں ان کی بعض تصانیف اور فتاویٰ کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جو علمی گہرائی میں نے ان کے یہاں پائی وہ بہت کم علما میں پائی جاتی ہے۔ اور عشق خداورسول صلی اللہ علیہ وسلم تو ان کی سطر سطر سے پھوٹا پڑتا ہے۔"
﴿انوار رضا، ص:656 بحوالہ ارمغانِ حرم، ص:14 مطبوعہ لکھنوٴ﴾
علامہ عبد الحمید شخ الجامعہ، الجامعة النظامیہ، حیدر آباد دکن، بھارت، اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کے اس وصف حیات کا تذکرہ کرتے ہوئے یوں گویا ہوتے ہیں:
"مولانا احمد رضا خاں صاحب سیف الاسلام اور مجاہد اعظم گزرے ہیں۔ اہل السنة والجماعة کے مسلک و عقائد کی حفاظت کا ایک مضبوط قلعہ تھ۔ آپ کا مسلمانوں پر احسانِ عظیم ہے کہ ان کے دلوں میں عظمت و احترام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اولیاے امت کے ساتھ وابستگی برقرار ہے۔ خود مخالفین پر بھی اس کا اچھا اثر پڑا اور ان کا گستاخانہ لب و لہجہ ایک حد تک درست ہوا۔"
﴿امام احمد رضا ارباب علم و دانش کی نظر میں، مطبوعہ الٰہ آباد، 1977ء، ص:145﴾
پروفیسر عبد الشکور شاد، کابل یونیورسٹی، کابل، افغانستان، کا بیان بھی ملاحظہ ہو:
"علامہ موصوف کی تحقیقی کاوشیں اس قابل ہیں کہ ہندوستان و پاکستان کی تاریخِ ثقافت اسلامی میں بالتفصیل ثبت ہوں اور تاریخ علم وہنگِ افاغنہ و آریانا دائرة المعارف کو لازم ہے کہ ان کے اسم گرامی کو ساری موٴلفات کے ساتھ اپنے اداروں میں محفوظ کریں۔"
﴿پیغاماتِ یوم رضا، ص:33، بحوالہ حیات مولانا احمد رضا خاں، از پروفیسر ڈاکٹر مسعود احمد، ص: 17﴾
مولانا کوثر نیازی کی ایک روایت بھی نظروں میں رہنی چاہیے۔ وہ اپنے استاذ مولانا ادریس کاندھلوی کا قول یوں بیان کرتے ہیں:
"میں نے صحیح بخاری کا درس مشہور دیوبندی عالم شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی سے لیا ہے۔ کبھی کبھی اعلیٰ حضرت کا ذکر آجاتا تو مولانا کاندھلوی فرمایاکرتے تھے۔" مولوی صاحب! (یہ مولوی صاحب اُن کاتکیہ کلام تھا) مولانا احمد رضا خاں کی بخشش تو انہی فتووں کے باعث ہوجائے گی" اللہ تعالیٰ فرمائے گا احمد رضا خاں تمہیں ہمارے رسول سے اتنی محبت تھی کہ اتنے بڑے بڑے عالموں کو بھی تم نے معاف نہیں کیا۔ تم نے سمجھا کہ انہوں نے توہین رسول کی ہے۔ تو ان پر بھی کفر کا فتویٰ لگادیا۔ جاوٴ اسی ایک عمل پہ ہم نے تمہاری بخشش کردی۔"
﴿امام احمد رضا خاں ایک ہمہ جہت شخصیت، ص:7﴾
غرض یہ کہ وہ تمام اسلامی معاشرتی رسومات جو اسلامی ثقافت کی شناخت اور اس کی علمبردار ہیں۔ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے اپنی تعلیمات میں نصوص شرعیہ سے جہاں اُن کا جواز ثابت کیا وہاں اُن تمام دینی و اسلامی رسومات میں پیدا ہوجانے والی خرابیوں کی اصلاح بھی کی، اور یوں مسلم ثقافت کا چہرہ نمایاں کیا۔ شیخ محمد اکرام جو عقائد کے اعتبار سے وہابی اور نظریاتی طور پر اعلیٰ حضرت رحمة اللہ علیہ سے سخت مخالفت رکھتے تھے اپنی کتاب میں یوں رقمطراز ہیں:
"مولوی احمد رضا خاں نام: (انہوں) نے کوئی پچاس کے قریب کتابیں مختلف نزاعی اور علمی مباحث پر لکھیں اور نہایت شدت سے قدیم حنفی طریقوں کی حمایت کی۔ وہ تمام رسوم فاتحہ خوانی، چہلم، برسی، عرس، تصورِ شیخ، قیام میلاد، استمداد از اہل اللہ (مثلاً یا شیخ عبدا لقادر جیلانی شیئاً للہ سے) اور گیارہویں کی نیاز وغیرہ کے قائل ہیں۔
(موج کوثر، ص:70۔ ادارہٴ ثقافت اسلامیہ لاہور-مکب روڈ)
سماجی ومعاشرتی اثرات
کنزالایمان شریف نے صرف مذہبی و اعتقادی زندگی کو ہی متاثر نہیں کیا۔ بلکہ اس نے عامة الناس کی سماجی و معاشرتی زندگی پر بھی اپنے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں مثلاً یہ کہ
﴿1﴾ شادی بیاہ کے موقع پر دلہن کو جہاں جہیز میں عمدہ اور قیمتی سامان دیا جاتا ہے۔ وہاں ہمارے معاشرے میں بچی کو قرآن مجید کا تحفہ دے کر گھر سے روانہ کرنے کا قابل قدر اور مستحسن طریقہ بھی پایا جاتا ہے۔ راقم کا یہ مشاہدہ بھی ہے اور تجربہ بھی کہ اس موقع پر بالعموم جو مصحف شریف دلہن کو اس کے گھر والوں کی طرف سے دیا جاتا ہے وہ ترجمہٴ کنزالایمان شریف ہی ہوتا ہے۔
﴿2﴾ کنزالایمان فی ترجمة القرآن کا یہ خصوصی فیض ہے کہ جوں جوں لوگوں میں قرآنی تعلیمات کا شوق بڑھ رہا ہے توں توں اُن کے اندر عشق و محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبات بھی فروغ پارہے ہیں۔ اور ان کا اظہار یوں ہوتا ہے کہ پہلے بالخصوص شادی کی تقریبات پر ناچ گانے اور رنگ و سرود کی محفلیں سجائی جاتی تھیں۔ اور حد سے بڑھ جانے والے شراب میں مست ہوکر دادِ عیش دیتے تھے مگر اب الحمد للہ رنگ ثفاقت بھی بدل رہا ہے اور طرز معاشرت بھی تبدیل ہو رہا ہے اور روز بروز خوشی و مسرت کے ان لمحاتمیں محافلِ قرأت و نعت، محافل میلاد کی صورت میں ذکر الٰہی اور عشق و محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے روح پر ور نغمے الاپے جاتے ہیں۔ دلوں کو ذکر خدا و رسول سے تسکین پہنچانے کا اہتمام ہوتا ہے۔ اس لیے اگر یہ کہا جائے کہ اس سماجی و معاشرتی انقلاب اور ذہنی سوچ میں تبدیلی کا سہرا سراسر صاحب کنزالایمان اور کنزالایمان فی ترجمة القرآن کے سر ہے تو یہ خلاف حقیقت نہ ہوگا۔
﴿3﴾ اس وقت مارکیٹ میں متعدد تراجم قرآنی شائع بھی کیے جارہے ہیں اور وہ کثرت سے فروخت بھی ہورہے ہیں لیکن جس قدر اشاعتی ادارے اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ احمد رضا خاں قادری کا "کنزالایمان فی ترجمة القرآن" چھاپتے ہیں کوئی دوسرا ترجمہ اتنی کثیر تعداد میں شائع نہیں ہوتا۔ راقم نے حضرت حکیمِ اہل سنت حکیم محمد موسیٰ امر تسری علیہ الرحمة یا علامہ اقبال احمد فاروقی دونوں میں سے کسی ایک بزرگ سے سنا تھا کہ شروع شروع میں تاج کمپنی والے اپنے مخصوص نظریات کی وجہ سے کنزلایمان شریف کو چھاپنے پر تیار نہ تھے۔ انہیں بہت سے لوگوں نے اس طرف متوجہ کیا لیکن وہ آمادہ نہ ہوئے مگر اہل علم کے اصرار پر جب انہوں نے اس مبارک اور سوادِ اعظم کے مقبول ترین ترجمہٴ قرآن کو پہلی مرتبہ چھاپا تو اُن کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ پہلے ایڈیشن کی نکاسی اتنی سرعت کے سات ہوئی کہ لوگوں کی مانگ پوری کرنا مشکل ہوگئی۔ چنانچہ اس سے حوصلہ پاکر تاج کمپنی کے مطبوعہ دیگر تراجم پر سبقت لے گیا۔ اور آج تک اُس کا یہ اعزاز برقرار ہے۔
یہ تو تاج کمپنی کا معاملہ تھا یہی نہیں بلکہ قرآن مجید کی طباعت و اشاعت کرنے والی جتنی کمپنیاں ہیں، اُن سب کا اگر جائزہ لیا جائے تو سب کی صورت حال یہی ہوگی کہ اشاعت و ترسیل کے اعتبار سے کنزالایمان شریف باقی تمام تراجم سے فائق ہوگا۔ کثرتِ اشاعت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اس کی مانگ بھی سب سے زیادہ ہے جب یہ ایک حقیقت ہے تو اس امر سے بھی انکار نہیں کہ سب سے زیادہ یہی پڑھا جانے والا ترجمہ ہے۔ چنانچہ یہ سب کنزالایمان کے سماجی و معاشرتی اثرات ہیں کہ اس نے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں سے لے کر ایک عام شخص تک کو اپنی فکر سے متاثر کیا ہے اور یوں دینی و روحانی ذہن سازی میں اہم کردار ادا کیا ہے، اور ان شاء اللہ صبح قیامت تک اس کا یہ فیضان جاری رہے گا۔
سیاسی اثرات
کنزالایمان شریف کے سیاسی اثرات کا جائزہ لینے کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت کے موقع پر صاحبِ کنزالایمان مولانا احمد رضا خان علیہ الرحمة نے ان دونوں تحریکوں سے عملی طور پر علیحدہ ہوکر جس قومی و ملی حمیت کا ثبوت دیا وہ آپ کی مومنانہ فراست، بیدار مغزی، دور اندیشی اور تدبر کا بین ثبوت ہے۔ آپ نے اپنی دانش نورانی سے خلافتی لیڈروں کو مشرکینِ ہند (ہندووٴں) کی سفاکی اور اُن کے مظالم سے( اُس وقت جب کہ ان دونوں کی مسلمان قیادت نے تاریخی حقائق کو پس پشت ڈالتے ہوئے مشرکین ہند سے مودت و محبت اور اتحاد کی پینگیں چڑھانا شروع کیں اور ہر اس راہنما کو ملت دشمن، مخالفدین اور انگریز کا ایجنٹ قرار دیا جس کسی نے بھی تحریک خلافت اور ترک موالات کی مخالفت کی۔ مگر افسوس کہ ہندووٴں سے اتحاد و محبت کے جوش میں ہوش و حواس کھو بیٹھنے والے جذباتی لیڈروں نے اس مرد خدا کی ایک نہ سنی حالانکہ آپ نے تاریخی پس منظر کے طور پر درج ذیل حقائق کو انتہائی دلسوزی اور درد مندی کے ساتھ) آگاہ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ
"کیا وہ ہم سے دین پر نہ لڑے؟ کیا قربانیِ گاوٴ پر اُن کے سخت ظالمانہ فساد پُرانے پڑگئے؟کیا کٹار پورو آرہ اور کہاں کہاں کے ناپاک و ہولناک مظالم جو ابھی تازہ ہیں دلوں سے محو ہوگئے؟ بے گناہ مسلمان نہایت سختی سے ذبح کیے گئے، مٹی کا تیل ڈال کر جلائے گئے، ناپاکوں نے پاک مسجدیں ڈھائیں، قرآنِ کریم کے پاک اوراق پھاڑے، جلائے اور ایسی ہی وہ باتیں جن کا نام لیے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔"
مسٹر گاندھی جس کو خلافتی لیڈر اپنا رہبر و پیشوا تسلیم کر چکے تھے، وہ اسلام اور مسلمانوں کا بدترین دشمن تھا۔ اس کے عزائم سے خلافتی لیڈروں کو آگاہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
"وہ جو آج تمام ہندووٴں اور نہ صرف ہندووٴں، تم سب ہندو پرستوں کا امام ظاہر و بادشا ہِ باطن ہے یعنی گاندھی صاف نہ کہہ چکا کہ مسلمان اگر قربانیِ گاوٴ نہ چھوڑیں گے تو ہم تلوار کے زور سے چھڑا دیں گے۔ا ب بھی کوئی شک رہا کہ تمام مشرکین ہند دین میں ہم سے محارب ہیں۔"
﴿المحجة الموٴتمنہ فی آیة الممتحنہ از امام احمد رضا خاں، مطبوعہ مکتبہٴ حامدیہ گنج بخش روڈ، لاہور، ملخص، ص:116 تا 119﴾
قرآن مجید نے اہل ایمان کو یہود و نصاری اور کفار و مشرکین سے دوستی کرنے اور اُن کو اپنا ہم راز بنانے سے منع فرمایا ہے جب خلافتی لیڈروں نے اسلام سے کھلم کھلّا بغاوت کرتے ہوئے مشرک اعظم گاندھی کو اپنا رہبر و پیشوا بنالیا، یہاں تک کہ اس کو مسجد میں لاکر منبر رسول پر بٹھایا گیا۔ بلکہ یہ تک کہا گیا کہ
"نبوت ختم نہ ہوتی تو گاندھی نبی ہوتے"
﴿اخبار اتفاق،دہلی، 27/ اکتوبر 1920ء بحوالہ المحجة الموٴتمنة حاشیہ ص:184، حاشیہ، 5، از مولانا حشمت علی﴾
امام اہل حق نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
"انہیں راز دار و دخیل کار بنا نا حرام قطعی تھا۔ یہ اس سے بھی بدرجہا بڑھ کر اُن کے ہاتھ بک گئے۔ انہیں اپنا امام و پیشوا بنالیا۔ اُن کو اپنا راہنما بنالیا ہے۔ جو وہ کہتے ہیں وہی مانتا ہوں میرا حال تو سر دست اس شعر کے موافق ہے
عمرے کہ بآیات و احادیث گزشت
رفتی و نثار بت پرستی کردی
اللہ یونہی چھاپ لگادیتا ہے ہر مغرور ستمگر کے دل پر۔"
﴿المحجة الموٴتمنة، ص:184﴾
یہ دوقومی نظریہ کا دینی و قرآنی تصور ہے جس کو امام المحققین، سید المفسرین اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمة اللہ علیہ نے قرآن مجید کی صرف ایک آیت کریمہ کی تشریح و تفسیر بیان کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔
فکر رضا کا اثر:
راست فکری پر مشتمل امام احمد رضا خاں کے ان افکار و نظریات کے سائے میں پروان چڑھنے والوں نے کنزالایمان سے مستنیر فکر اسلامی سے اپنے دامن علم و عمل کو بھرتے ہوئے اور صاحب کنزالایمان کے فیض صحبت سے حمیتِ مِلّی اور غیرتِ دینی کا جو درس لیا تھا اس کا پرچم تھامے ہوئے وہ آل انڈیا سنّی کانفرنس کے نام سے میدان عمل میں اترے اور قائد اعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کا سبز جھنڈا اٹھائے ہندو اور انگریز دونوں کی غلامی کا انکار کرتے ہوئے آزاد مسلم ریاست کا مطالبہ کرتے ہیں تو چشم فلک نے دیکھا 23 مارچ 1940ء کو جس اسلامی ریاست کا مطالبہ کیا جاتا ہے صرف ساڑھے چھ سال کے مختصر عرصے میں دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت ایک آزاد و مختار ریاست کی حیثیت سے عالمی نقشے پر اُبھر کر سامنے آتی ہے، یوں اقبال کا یہ خواب عملی تعبیر کی صورت میں دنیائے انسانی کے سامنے آتا ہے
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہٴ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمہٴ توحید سے
﴿بانگِ درا۔ کلیاتِ اقبال اردو، ص:222﴾
مشہور کالم نگار اور صحافی میاں عبد الرشید مرحوم قیام پاکستان میں اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمة اور آپ کے متبعین کی خدمات اور کردار کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"When Pakistan Resolution was passed in 1940. The efforts of Hazrat Barelvi bore fruit and all his adherents and spiritual leaders rose as and man to support Pakistan movement. Thus the contribution of Hazrat Barelvi towards Pakistan is not less than that of Allama Iqbal and Quaid-e-Azam."
[Mian Abdul Rasheed: Islam i n Indo Pak sub- continent, Lahore 1977]
ترجمہٴ مفہومی:
"1940ء میں جب قرارداد پاکستان پاس ہوئی تو حضرت بریلوی کی ساعی بار آور ہوئی۔ آپ کے متبعین جن میں علما و صوفیا سب ہی شامل تھے۔ تحریکِ پاکستان کی حمایت کے لیے فرد واحد کی طرح اُٹھ کھڑے ہوئے۔ بلاشبہ پاکستان کے لیے حضرت بریلوی کی خدمات قائد اعظم اور علامہ اقبال سے کسی طرح کم نہیں۔"
﴿برّصغیر پاک و ہند میں اسلام، مطبوعہ لاہور، ص:67، از میاں عبد الرشید﴾
یہی مصنف اپنی دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:
"یہ صحیح ہے کہ مغربی تعلیم یافتہ لوگوں نے جن میں کالجوں کے نوجوان طلبہ پیش پیش تھے تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا، لیکن حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی کے ہم مسلک حضرات کے تعاون نے بھی اس تحریک کو بڑی تقویت بخشی اور تحریک کے سفر کامرانی کو آسان بنادیا۔ علمائے دیوبند کی اکثریت، بعض علمائے اہل حدیث اور اسی طرح علمائے ندوہ کی ایک شاخ تحریک پاکستان کی مخالف تھی۔"
﴿پاکستان کا پس منظر اور پیش منظر از میاں عبد الرشید، ص:117 مطبوعہ لاہور 1982ء﴾
حاصل کلام
نتیجہٴ بحث یہ کہ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں فاضل بریلوی علیہ الرحمة نے براہ راست قرآن و سنت کے انوار سے فیض پاکر فکر صحیح اور فہم سلیم تک رسائی حاصل کی اور پھر پوری تندہی سے بلا خوف لومة اللائم اللہ تعالیٰ جل وعلا اور حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کے منکروں، دین اسلام اور عقائد حقہ کے مخالفوں اور ملتِ اسلامیہ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کیا وہ آپ ہی کا مقدر اور آپ ہی کا نصیب تھا۔ آپ نے فدایان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر تیار کیا کہ جس کی سوچ فکر اور عقیدہ ہی یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ جل جلالہ اور رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و حرمت پر جان قربان کر دینا ہی روح ایمان اور اصل زندگی ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہے وہ خواہ کوئی بھی ہو باپ ہو، بیٹا ہو، بھائی ہو، لیڈری کا دعویدار ہو، دنیا کا رئیس و سرمایہ دار ہو۔ اس سے ہماراکوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے کہ وہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر کفر کی منزل کا راہی بن گیا ہے جب کہ اہل ایمان کی منزل تو مکة المکرمة اور مدینة المنورة ہے۔ پاکستان کے سابق مرکزی وزیر تعلیم خاں محمد علی خاں ہوتی نے مندرجہ بالا حقیقت کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے:
"فاضل بریلوی جنہوں نے مسلمانوں کی فکری آبیاری کے لیے ایک ہزار کے لگ بھگ کتب ہر موضوع پر تحریر فرمائی ہیں، مسلمانوں کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ کفر کی سب قسموں سے الگ رہنا چاہیے، اگر انگریز سے ترک موالات ضروری ہے تو ہندو سے بھی ترک موالات لازمی ہے، نہ ہندو مسلمان کا ساتھی بن سکتا ہے اور نہ ہی غمخوار۔"
﴿گناہِ بے گناہی از پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد علیہ الرحمة، ص،74 مطبوعہ حیدر آباد، سندھ1988ء﴾
یہ مختصر مضمون "کنزالایمان فی ترجمة القرآن" کے گذشتہ اور رواں صدی پر مرتب ہونے والے چند پہلووٴں پر مشتمل اثرات کو بیان کرتا ہے۔ اگر زندگی کے مختلف اور بڑے بڑے پہلووٴں کو مدنظر رکھ کر اس موضوع پر کام کیا جائے تو اس کے لیے ایک ضخیم دفتر درکار ہے۔ اور ایک ٹیم کا متقاضی ہے جو اس فریضے کو سر انجام دے سکے۔
اہم نکات
کنزالایمان کے فکری اثرت کے موضوع پر لکھے گئے زیر نظر مضمون کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
﴿1﴾ کنزالایمان فی ترجمة القرآن میں امام ہلسنت مولانا شاہ احمد رضا خاں بریلوی رحمة اللہ علیہ نے تقدیس الوہیت، آداب بارگاہ نبوت و رسالت اور تعظیم اولیا کا کامل طور پر پاسِ ادب و فرق مراتب کو ملحوظ رکھا ہے۔
﴿2﴾ ترجمہ کرتے وقت اسلافِ امت کے فکر و فلسفہ اور عقائد و نظریات کو مدنظر رکھا گیا ہے، اور ترجمے میں اہلِ حق سے کہیں بھی اعتزال کی راہ کو نہیں اپنایا گیا۔
﴿3﴾ ترجمہ اس انداز میں کیا گیا ہے کہ قرآن کا طالب علم ایک حد تک لمبی لمبی تفاسیر سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔
﴿4﴾ ترجمہٴ کنزالایمان کو پڑھتے ہوئے قاری کے دل میں محبت و اطاعتِ الٰہی اور عشق و محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبات والہانہ طور پر پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں جو قاریِ قرآن کو عمل کی طرف، سنت نبوی کی اتباع کی طرف اُبھارتے ہیں۔
"مآخذ و مراجع"
تراجم قرآن
﴿1﴾ ابوالکلام آزاد، مولوی (1378ھ/1958ء) ترجمان القرآن
﴿2﴾ احمد رضا خاں، مولانا شاہ (1340ھ/1921ء) کنزالایمان فی ترجمة القرآن
﴿3﴾ اشرف علی تھانوی، مولوی (1362ھ/1943ء) ترجمہ و تفسیر بیان القرآن
﴿4﴾ محمد جونا گڑھی، مولوی، قرآن کریم مع اردو ترجمہ و تفسیر
﴿5﴾ حسین علی واں بھچراں، مولوی (1363ھ/1943ء) بلغة الحیران فی ربط آیات القرآن
﴿6﴾ حامد حسن بلگرامی ، ڈاکٹر سید، فیوض القرآن
﴿7﴾ رفیع الدین دہلوی، مولانا شاہ (1233ھ/1817ء)
﴿8﴾ شبیر احمد عثمانی، مولوی (1369ھ/1950ء)
﴿9﴾ محمد طاہر القادری، پروفیسر ڈاکٹر، حیات عرفان القرآن
﴿10﴾ عبد القادر دہلوی ، مولانا شاہ (1242ھ/1828ء) موضح القرآن مع ترجمہٴ قرآن
﴿11﴾ عبد الماجد دریا آبادی، مولوی، القرآن الحکیم مع ترجمہ و تفسیر
﴿12﴾ فتح محمد جالندھری ، مولوی، فتح المجید
﴿13﴾ فیروز الدین روحی ، پروفیسر مولوی، تفسیر القرآن مع ترجمہ
﴿14﴾ محمود الحسن دیوبندی ، مولوی (1338ھ/1919ء) قرآن شریف مترجم
﴿15﴾ مودودی، سید ابو الاعلیٰ (م1399ھ/1979ء) تفہیم القرآن
﴿16﴾ نذیر احمد دہلوی، ڈپٹی مولوی (م1331ھ/1912ء)، غرائب القرآن
﴿17﴾ وجیہ السیما عرفانی، سیّد، عرفان القرآن
کتب و رسائل
﴿18﴾ احمد رضا خاں، امام، المجحة الموٴتمنہ فی آیة الممتحنة، مکتبہٴ حامدیہ، گنج بخش روڈ، لاہور، 1976ء-1396ھ
﴿19﴾ محمد اکرام شیخ، موج کوثر، ادارہٴ ثقافت اسلامیہ، 2کلب روڈ، لاہور، مئی 2000ء
﴿20﴾ محمد جلال الدین قادری، ابوالکلام آزاد کی تاریخی شکست، مکتبہٴ رضویہ 24/2 سوڈ ایوال کالونی، ملتان روڈ، لاہور، رجب 1400ھ مئی1980ء
﴿21﴾ محمد طاہر القادری، پروفیسر ڈاکٹر، کنزالایمان کی فنّی حیثیت، منہاج القرآن پبلی کیشنز 365 ایم بلاک، ماڈل ٹاوٴن، لاہور، اپریل 1997ء
﴿22﴾ عبد الحکیم شرف قادری، علامہ، امام احمد رضا محدث بریلوی پر دنیا بھر میں نئی نئی تحقیقات، رضا اکیڈمی رجسٹرڈ لاہور، ربیع الثانی 1422ھ/2001ء طبع اوّل
﴿23﴾ عبد الحکیم شرف قادری، علامہ تذکرہٴ اکابر اہل سنت ،مکتبہ قادریہ
﴿24﴾ صالحہ عبد الحکیم شرف الدین، ڈاکٹر، قرآن حکیم کے اُردو تراجم، قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ، کراچی،
﴿25﴾ عبد الرشید، میاں، پاکستان کا پس منظر اور پیش منظر، ادارہٴ تحقیقات پاکستان دانش گاہ پنجاب لاہور، جون 1982ء
﴿26﴾ABDUL RASHID: Islam in Indo Pak sub-continent Lahore, 1977
﴿27﴾ کوثر نیازی، مولانا، امام احمد رضا خاں بریلوی، ایک ہمہ جہت شخصیت، ادارہٴ معارف نعمانیہ، لاہور، ربیع الثانی 1411ھ/ نومبر 1990ء
﴿28﴾ محمد مسعود احمد، پروفیسر ڈاکٹر، حیات مولانا احمد رضا خاں بریلوی، اسلامی کتب خانہ اقبال روڈ سیالکوٹ 1402ھ/1981ء
﴿29﴾ محمد مسعود احمد، پروفیسر ڈاکٹر، فاضل بریلوی اور ترک موالات، مرکزی مجلس رضا، لاہور، بار پنجم رمضان المبارک 1397ھ/اگست 1977ء
﴿30﴾ محمد مسعود احمد، پروفیسر ڈاکٹر، گناہ ِبے گناہی، جماعتِ اہل سنت، ضلع حیدر آباد، سندھ، 1988ء
﴿31﴾ غلام جابر شمس المصباحی، ڈاکٹر، کلیّاتِ مکاتیب رضا، مکتبہٴ بحر العلوم، مکتبہٴ نبویہ گنج بخش روڈ، لاہور، 1426ھ/2005ء
﴿32﴾ عبداللطیف، الحاج شیخ، انوار رضا، شرکتِ حنفیہ لمیٹڈ، گنج بخش روڈ، لاہور، 1397ھ (مجموعہٴ مقالات)
﴿33﴾ محبوب الرسول قادری ملک ، انوار رضا، انٹرنیشنل غوثیہ فورم، جوہر آباد، ضلع خوشاب ،2003ء(مجموعہٴ مقالات)
﴿34﴾ محمود احمد قادری، مولانا پیر، مکتوباتِ امام احمد رضا خاں بریلوی رحمة اللہ علیہ، مکتبہٴ نبویہ گنج بخش روڈ، لاہور، جنوری 1986ء
﴿35﴾ محمد یٰسین اختر مصباحی، مولانا امام احمد رضا اہلِ دانش کی نظر میں، الہ آباد، بھارت، 1397ھ/1977ء
﴿36﴾ محمد اقبال علامہ کلیاتِ اقبال اردو، اقبال اکادمی پاکستان، لاہور، 1995ء
﴿37﴾ مقبول احمد قادری، حاجی، پیغاماتِ یوم رضا، مرکزی مجلس رضا ،لاہور، 1976ء
﴿38﴾ عبد النبی کوکب، قاضی، مقالاتِ یوم رضا، لاہور، 71-1968ء
﴿39﴾ اختر راہی، تذکرہٴ علماے پنجاب، مکتبہٴ رحمانیہٴ اردو بازار، لاہور، 1400ھ/1981ء
﴿40﴾ خورشید احمد، پروفیسر، سیّارہ ڈائجسٹ، قرآن نمبر جلد:2، محمد اقبال طاہر 189۔ ریواز گارڈن، لاہور، تیسرا ایڈیشن جنوری 1988ء
Assalam o Alaikum wa Rahmatullah e wa Barakatoho,
ReplyDeleteEzzat M,aab Muhtram Shaikh sahib! I am student of PhD Islamic Studies
in Sargodha University.My topic for PhD thesis is " PUNJAB MAEN ULOOM
UL QURANWA TAFSEER UL QURAN PER GHAIR MATBOOA URDU MWAD'' please guide
me and send me the relavent material.I will pray for your success and
forgiveness in this world and the world hereafter.
Jzakallah o khaira
hopful for your kindness.
your sincerely and Islamic brother,
Rafi ud Din
Basti dewan wali street Zafar bloch old Chiniot road Jhang saddar.
Email adress: drfi@ymail.com mob: 03336750546,03016998303
اچھی کاوش ہے
ReplyDeleteاچھی کاوش ہے
ReplyDelete