visitors

free counters

Tuesday, 3 January 2012

موعود کی تلاش، طلاق اور حلالہ: ڈاکٹر انوار احمد کی تحریر

موجود سے زیادہ موہوم ،معلوم سے زیادہ نامعلوم اور دستیاب سے زیادہ موعود سے ہماری دل چسپی کے مارے ہوئے معاشرے کے لئے اول تو نعمت اللہ شاہ ولی کی پیش گوئیاں ہی کافی ہیں، مگر گذشتہ دنوں( شاید جان لیوا)علالت سے پہلے پیر پگاڑہ اور انہی کی طرح آہنی مرکزِ نجوم سے فیض یاب ہونے والے ان کے سیاسی و غیر سیاسی مرید بھی اس میدان میں کود پڑے تھے، اور تو اور پاکستان کے ایک سابق درشنی وزیرِ اعظم نے(جنہوں نے بڑی منکسرانہ ڈھٹائی سے جنرل مشرف کو اپنا باس کہا تھا)، بڑے عادلانہ وثوق سے کہہ دیا تھا کہ موجودہ حکومت ۲۵ دسمبر کو ختم ہو جائے گی۔(کوئی دل جلا یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ یہ حکومت قائم کب تھی)۔
شیخ رشید احمد جیسے بے روزگاروں نے بھی دسمبر ختم ہونے سے دو ہفتے پہلے ہی یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ نیا (فوجی) نظام قائم ہونے میں صرف اڑتالیس گھنٹے رہ گئے ہیں۔دراصل ہمارے ملک میں بے خبری اور بے حسی کا اندھیرا کچھ اس طرح غالب ہے کہ باخبر اور حساس افراد اور ذرائع کی افراط ہے، جن میں سے بیشتر علمِ نجوم کا سہارا لیتے ہیں اور احتیاطاً خود بھی عسکری مدار پر گردش کرتے ہیں۔
تاہم میَں ہمیشہ اپنے دوستوں اور شاگردوں کو نجومیوں کی پیش گویؤں پر بھروسہ نہ کرنے کو کہتا ہوں مگر خود چھپ چھپ کر اپنی ’قسمت کا ہفتہ ‘ بڑے شوق سے پڑھتا ہوں اور ایک قابلِ رحم سرائیکی کی طرح اچھے شگن شگون کے انتظار میں مہینوں بلکہ برسوں انتظار کرتا ہوں کہ قسمت کا کوئی اچھا ہفتہ ہی میسر آجائے،گذشتہ ہفتہ کچھ ایسا ہی تھا،اس کا پہلا پیش گو جملہ ہی میرے لئے امام مہدی کی نوید لئے ہوئے تھا’آپ کی زندگی میں ایک ایسا شخص آئے گا،جو زندگی کا رُخ ہی بدل کے رکھ دے گا‘،جذباتی خوشیوں کوترسے ہوئے اس معاشرے میں ایک’ ریٹائرڈ مرد‘ کے لئے بھی اس فقرے کے وہی معنی ہیں،جو کسی حکیم کے زیرِ علاج مایوس نوجوان کی رگوں میں رینگتی کسی دوائی کے سرگوشی نما اثر کے،چنانچہ میَں نے موبائل کے ان پیغامات کے جواب دینے بھی شروع کر دئیے جو کوئی خاتون بقائمی ہوش و حواس لکھ نہیں سکتی یا بھیج نہیں سکتی۔
بہر طور جیسے کوئی منتظر رہتے ہوئے بے چین ہو کر گھر سے باہر نکل آتا ہے،میَں بھی اسلام آباد سے ملتان چلا گیا،وہاں میرے سبھی وہی پیارے تھے جو ،اس مرحلے پرمیری زندگی کا رُخ بدلنے سے قاصر ہو چکے ہیں بلکہ معذرت کر چکے ہیں، سو،ملتان سے کراچی کے لئے نکل گیا،سفر کے دوران جاوید ہاشمی بھی شہیدوں والی شان کے ساتھ جہاز میں سوار ہوئے، ان کی بیماری،فوجی حکومت کے ہاتھوں ان کے ابتلا اور ان کے حالیہ فیصلے کے اسباب سے لگاؤ کے باوجود مجھے یہ کہنے دیجئے کہ میَں بہت متعصب آدمی ہوں،مجھے اسلامی جمیعتِ طلبہ سے کسی کی نسبت،شفیقہ ضیا کی طرف سے کسی کو منہ بولا بیٹا کہہ کر کسٹمز والوں سے ان کے بعض دوستوں کو سہولتیں دلوانا،حمید گل جیسے لوگوں کی اعانت سے ضیا کی مجلسِ شوریٰ میں جانا وغیرہ آسانی سے بھولتا نہیں،اس لئے جب وہ اپنے حالیہ فیصلے کے جواز میں کچھ باتیں قریب بیٹھے بعض لوگوں سے اس طرح کہتے رہے کہ بہت زیادہ عقبی نشستوں پر مجھ ایسے گراں گوش لوگوں تک بھی پہنچتی رہیں ،تاہم میَں اپنے آپ سے ایک ہی سوال کرتا رہا کہ بعض طاقت وروں کی میاں صاحب کی حالیہ ملاقات کے بارے میں بھلاکس نے جاوید ہاشمی کو بتایا ہے؟
عمران خان نے،حمید گل نے یا ان کے ماضی کے ایک ساتھی سینیٹر نے،جو کبھی پیر پگاڑہ اور جمالی کی طرح بڑے اعتماد سے سیاسی پیش گوئیاں کیا کرتے تھے؟بہرطور کراچی ایر پورٹ پر عمران خان،جاوید ہاشمی کو لینے آئے ہوئے تھے،اگلے روز کراچی میں ان کا بلاشبہ ایک اہم جلسہ تھا،جس کی کامیابی کا کریڈٹ وہاں کی فیصلہ کن سیاسی طاقت کو بھی دیا جا سکتا ہے۔
پیپلز پارٹی سے اپنے پہلے عشق کے باوجودعمران خان کے اقتدار میں آنے کا انتظار مجھے بھی ہے،کیونکہ اسی ایک لیڈر میں یہ صلاحیت ہے کہ اپنے سرپرستوں کو گراؤنڈ سے ہمیشہ کے لئے باہر نکال دے،عمران خان نے ماجد جہانگیر کے بارے میں جو فیصلہ کیا تھا، اگر کسی کو یاد ہے تو سیاست دانوں کی دائمی تذلیل پر مائل سبھی اداروں کے سنگین دل لرزتے تو ہوں گے،بہرطور سیاست اورجمہوریت کے حوالے سے میرے کچھ رومانوی تصورات ہیں،جو خان کو میری قسمت کے ہفتے کاموعودہ شخص نہیں بنا سکتے تھے۔
سو پھر میَں کراچی کے ان تمام بزرگ اہلِ علم سے ملا،جنہوں نے اپنی عمریں بڑے علمی،ادبی کاموں کے لئے وقف کر رکھی ہیں، ڈاکٹرفرمان فتح پوری ،جنہوں نے نہ صرف سن انیس سو بائیس کے جنوری میں جاری ہونے والے ماہنامہ ’نگار‘ کی شمع گذشتہ چھ دہائیوں سے تھام رکھی ہے۔بانی مدیر نیاز فتح پوری نے جس خوب صورت ترک شاعرہ نگار بنت عثمان کی تصویر دیکھ کر اپنے اس جریدے کا نام رکھا تھا،اپنے قیامِ ترکی کے دوران ایک ترک استاد کی مدد سے میں نے اس شاعرہ پر ایک مضمون بھی لکھا تھا،مقتدرہ قومی زبان کے تیسرے صدر نشیں ڈاکٹر جمیل جالبی جو ،وہیل چیئر پر بیٹھے مجھے اور بہاولپور یونیورسٹی کے ڈاکٹر نجیب جمال کو بتا رہے تھے کہ وہ اینسویں صدی کے اواخر تک کی تاریخِ ادب کی ایک اور جلد مجلسِ ترقی ادب کو شائع ہونے کے لئے دے چکے ہیں اور اب بیسویں صدی کے ادب کی تاریخ کے لئے کام کر رہے ہیں۔
میَں ڈاکٹر اسلم فرخی سے بھی ملا اور ان کی وضع داری اور عالمانہ انکسار سے اس مرتبہ بھی متاثر ہوا، باہمی ناپسندیدگی کے باوجود جمیل الدین عالی سے بھی ملاقات ہوئی اور میَں نے کوشش کی کہ ان سے بھی متاثر ہوا جائے مگر کچھ تعصبات ہمیشہ میری کم نصیبی بن جاتے ہیں،پھر آکسفورڈ پریس کی امینہ سید کو ایک بہت بڑے اشاعتی ادارے کو پاکستان میں ایک تہذیبی ادارہ بنانے اور دفتر کو نگار خانہ بنانے میں منہمک دیکھا، راحت سعید،حارث خلیق اور اشفاق حسین کے ساتھ مل کر خود کو اس بات پر متفق ہوتے دیکھا کہ فی الوقت ترقی پسند مصنفین کے پاس حمید اختر مرحوم کا جانشیں کوئی نہیں۔
مگر جب لاہور میں آکر ایک کمپیوٹر انجینئر ڈاکٹر سرمد حسین کے مرکزِ تحقیقاتِ لسانیات(CLE) کو دیکھا تو میں نے رشک کے باوجود ان سے کہا کہ وہ’ ای ۔بیعت ‘کا سلسلہ شروع کریں تو مجھے اپنے مریدوں میں شامل کر لیں، یہ مرحلہ طے ہو جاتااگر اس وقت وہاں محمد شہباز فیصل آباد سے مجھے ڈھونڈتا ہوا نہ آ جاتا، جو ایک مزدور ہے،جس نے اپنی پنجابی شاعری،گالیوں اور پاگل پن کا ایک تانا بانا سا بنا رکھا ہے،جس کو جونہی کوئی افسر گستاخی خیال کرتا ہے، خادمِ اعلیٰ کا ہم نام نوکری سے نکال دیا جاتا ہے، دس کارخانوں سے نکال دئیے جانے کے بعد وہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد کی ایکسچینج میں لائن مین تھا،جب میَں وہاں پڑھا رہا تھا تب بھی وہ رب تک اپنی بات پہنچانے کا خواہشمند تھا مگر وہ اس بات سے پریشان تھا کہ زمین والوں کے بہت سے نوحے کہیں خلا میں رہ جاتے ہیں،کسی زمانے میں اسے اس عدم ترسیل کے سائنسی اسباب بھی جانتا تھا مگر بعد میں اسے خیال ہوا کہ یہ کوئی سازش ہو رہی ہے کہ رب سے پہلے اس کی باتیں ’جسوس‘ سن لیتے ہیں۔
اس نے وہاں آکر مجھ سے کہا کہ تواڈی وڈے جج اوراں نال واقفیت ہے تے مینوں پھئے لگوا دیو،نیں تاں آپڑیں ’پیپل پارٹی‘ نوں طلاق دے دیو‘ اس جملے میں جتنے لفظ ہیں،ان سے دوگنی گالیاں تھیں،ڈاکٹر سرمد حسین کے ساتھ کام کرنے والے سکالر پاکستانی زبانوں کے ذخیرہ الفاظ پر بھی کام کر رہے ہیں،وہ چمکتی آنکھوں کے ساتھ بجھی آنکھوں والے مدقوق محمدشہباز کی فصاحت و بلاغت سے لبریز گفتگو میں اپنے مطلب کے لفظ ریکارڈ کر رہے تھے،وہ کہے جا رہا تھا’جدوں تسی طلاق دیو گے تے میَں توانوں ایدے نال مڑ کے نکاح نہیں کرن دیاں گا،پہلے میَں حلالہ کرن دے بہانے ساڈے نال حرام کاری کرن آلیاں نال۔۔۔۔۔ کراں گا رج کے‘۔

No comments:

Post a Comment