visitors

free counters

Wednesday 29 February 2012

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں (رضٰ اللہ عنہُن ) کی تعداد


سوال: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہما سے صرف ایک بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہما تھیں یا کہ زینب ، رقیہ ، اُم کلثوم رضی اللہ عنہا بھی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا سے تھیں؟ قرآن و سنت اور شیعہ و سنی ہر دو مکتب فکر کی کتب سے وضاحت کردیں۔

جواب: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ۲۵ برس کی عمر میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہاسے شادی ہوئی اور بعثت سے قبل سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کے بطن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین بیٹیاں زینب، رُقیہ، اُم کلثوم رضی اللہ عنہُن پیدا ہوئیں اور بعثت کے بعد سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا پیدا ہوئیں۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنھا کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہما سے کیا۔ رقیہ رضی اللہ عنھا اور اُم کلثوم رضٰ اللہ عنھا کا نکاح بالترتیب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کیا۔ تیسری صدی ہجری تک کسی بھی شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا چاروں بیٹیوں میں سے کسی ایک کا بھی انکار نہیں کیا اور فریقین کی معتبر کتب میں اِن بنات کا تذکرہ موجود ہے۔
چوتھی صدی ہجری میں ایک غالی شیعہ ابو القاسم علی بن احمد بن موسیٰ المتوفی ۳۵۲ھ نے اپنی بدنامِ زمانہ کتاب ’’الا ستغا ثۃ فی بدع الثلاثۃ‘‘میں اس بات کا انکار کیا اور کہا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی بیٹیاں نہیں تھیں بلکہ ربیبہ بیٹیاں تھیں۔ حالانکہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھاکا پہلا نکاح عتیق بن عائز مخزومی سے ہوا اور اس سے ایک لڑکی ہندہ پیدا ہوئی ۔ پھر اس کے بعد دوسرا نکاح ابو ھالہ تمیمی سے ہوا جس سے ایک لڑکا ہند اور ایک لڑکی ہالہ پیدا ہوئی اور اس کے بعد پھر آپ رضی تعالیٰ عنھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کی چار بیٹیاں زینب ، رُقیہ ، اُم کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔ نسب کی یہ تفصیل کتاب نسب قریش ص ۳۳، ص۲۲۸کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ‘ عمدۃ الطالب فی انساب آل ابی طالب اور جمھرۃ الانساب وغیرہ میں موجود ہے۔اس سے معلوم ہوا سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کی اپنے پہلے خاندوں سے زنیب ، رُقیہ اور اُم کلثوم (رضی اللہ عنہا ) نامی کوئی بیٹی نہیں ۔ یہ شیعہ کا دجل اور ان کی تلبیس ہے۔
لیکن شیعہ محدثین میں سے مشہور شیعہ عبداللہ مامقانی نے اپنی کتاب ’’تنقیح المقال‘‘ ص ۷۹ پر ابو القاسم کو فی کی اس بات کا رد کیا ہے۔ (تنقیح المقال شیعہ کے رجال پر بڑی معروف کتاب ہے)۔
چنانچہ عبداللہ مامقانی شیعہ نے ۷۹ پر لکھا ہے:
’’ابو القاسم کو فی کا ’’الاستغاثۃ فی بدع الثلاثۃ‘‘ میں یہ قول کہ زینب اور رقیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں نہیں تھیں بلکہ ربیبہ تھیں۔ قولِ بلا دلیل ہے۔ یہ ابو القاسم کی اپنے رائے محض ہے۔ جس کی حیثیت نصوص کے مقابلہ میں مکڑی کے جالے کے برابر بھی نہیں ۔ کتب فریقین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیوں پر نصوص موجود ہیں اور شیعوں کے پاس اپنے ائمہ کے اقوال موجود ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں۔‘‘
یہ بات بھی یاد رہے کہ اکثر علمائے شیعہ نے ابو القاسم شیعہ کی ہفوات پر نقد کیا ہے بلکہ اسے بے دین قرار دیا ہے جیسا کہ معروف شیعہ عالم شیخ عباس قمی نے ’’تتمہ المنتھٰی ص ۲۹ پر لکھا ہے۔‘‘
’’ابو القاسم کو فی علی بن احمد بن موسی وفت یافت و اودر آخر عمر مذھبش فاسد شدہ بود و کتابھا بسیار تالیف کردہ انداز کتابھائے ابوالقاسم کو فی کتاب الاستغاثۃ است‘‘
ابو القام کوفی جب فوت ہوا تو آخری عمر میں اس کا مذہب فاسد ہو گیا تھااور اس نے کئی کتابیں تالیف کی ہیں۔ اس کی کتابوں میں سے ایک کتاب "استغاثہ" بھی ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ ابو القاسم کوفی جو غالی شیعہ تھا اور کئی فساد پر مبنی کتابوں کا مصنف تھا اس نے سب سے پہلے بنات الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا۔ پھر اس کی پیروی میں بعد والے شیعوں نے انکار کیا حالانکہ قرآن مجید ، کتب احادیث اور فریقین کی کتب سے یہ بات تواتر کی حد تک ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا سے چار بیٹیاں تولد ہوئیں ۔ اب نصوص ملاحظہ کریں:
’’اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنے اوپر اپنی بڑی چادریں لٹکا لیا کریں۔ یہ قریب تر ہے کہ وہ پہنچانی جائیں۔پس وہ ایذا نہ دی جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘(الاحزاب : ۵۹)
اِس آیت کریمہ میں لفظ ازواج ، زوجہ کی ، بنات، بنت کی اور نساء ، امراۃ کی جمع ہے اور جمع کا اطلاق کم از کم تین پر ہوتا ہے اور اس آیت سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں تین سے زائد تھیں اور فریقین کی کتب سے اس بات کا تعین ہو جاتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کی تعداد چار ہے۔
قرآن کی اس آیت میں پردے کے احکام بیان کئے جا رہے ہیں اور احکام شرعیہ کا مُکلف بالغ ہوتا ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ نزول آیت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین سے زائد بالغ بیٹیاں موجود تھیں جنہیں پردے کا حکم دیا گیا ہے۔
اہل سنت کے ہاں تو یہ بات متفقہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار صاحبزادیاں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کے بطن سے تھیں۔ اس لئے اہل سنت کے حوالے نقل کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ جو لوگ اس بات کے منکر ہیں ، ہم اُن کی معتبر کتابوں کے حوالوں پر اکتفا کرتے ہیں۔
۱) عبداللہ مامقانی شیعہ اپنی کتاب ’’تنقیح المقال فی احوال الرجال‘‘ ص ۷۷ طبع نجف میں رقمطراز ہے:
بے شک فریقین کی کتب اس بات سے بھری پڑی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا سے چار بیٹیاں زینب ، اُم کلثوم، فاطمہ اور رقیہ رضی اللہ عنہُن پیدا ہوئیں اور انہوں نے اسلام کو پایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی۔
۲) مشہور شیعہ محدث محمد بن یعقوب کلینی نے ’’اصول کافی‘‘ باب التاریخ ص ۲۷۸ پر لکھا ہے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۵ برس کی عمر میں خدیجہ رضی اللہ عنھا سے شادی کی اور خدیجہ رضی اللہ عنھا سے بعثت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک بیٹا قاسم اور تین بیٹیاں رقیہ، زینب اور اُم کلثوم رضی اللہ عنہُن پیدا ہوئیں اور بعثت کے بعد طیب ، طاہر اور فاطمہ پیدا ہوئے۔
۳) شیخ صدوق نے اپنی کتاب ’’خصال ‘‘۲/۱۸۶ پر لکھا ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے حمیرا (عائشہ رضی اللہ عنھا) بے شک اللہ تعالیٰ نے بچے دینے والی میں برکت رکھی ہے ۔ خدیجہ رضی اللہ عنھا نے مجھ سے طاہر کو جنم دیا اور وہ عبداللہ اور مہطر ہے اور اس نے مجھ سے قاسم ، فاطمہ، رقیہ اُمِ کلثوم اور زینب (رضی الہ عنہم) کو جنم دیا۔
اس حوالہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی چار بیٹیوں کا اقرار کر رہے ہیں جو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا سے ہیں۔
۴) "مناقب" اِبن شہر آشوب ۱/۱۶۱ میں ہے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدیجہ سے اولاد قاسم اور عبداللہ (رضی اللہ عنہما) تھی اور وہ دونوں طاہر و طیب تھے اور چار بیٹیاں زینب ، رقیہ ، اُم کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔
۵) "تذکرۃ المعصومین) ص ۶ میں ہے:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ۲۰ برس سے کچھ زائد تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ رضی اللہ عنھا سے نکاح کیا اور بعثت سے پہلے خدیجہ رضی اللہ عنھا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین بیٹیاں رُقیہ، اُمِ کلثوم اور زینب رضی اللہ عنہُن تھیں۔
۶) شیعہ کی معروف ترین کتاب تحفۃ العوام ۱۱۶ پر ہے۔
اے اللہ اپنے نبی کی بیٹی رُقیہ رضی اللہ عنھا پر رحمت نازل فرما اور جس نے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں تکلیف دی ، اُس کو لعنت کر۔ اے اللہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اُم کلثوم رضی اللہ عنھا پر رحمت نازل فرما اورجس نے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں تکلیف دی اس پر لعنت کر۔



اس کے علاوہ شیعہ مذہب کی معتبر کتب حیاۃ القلوب ، جلاء العیون، تھذیب الاحکام ، الاستبصار، مراء ۃ العقول ، فروع کا فی، صافی شرح کافی، کشف الغمۃ، قرب الاسناد، مجالس المومنین ، اعلام الوری، منتخب التواریخ ، مناقب آل ابی طالب ، امالی شیخ طوسی، رجال کشی اور انوار نعمانیۃ وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا سے چار بیٹیوں کا ذکر موجود ہے۔

بشکریہ تحفظ حدیث فاؤنڈیشن (http://difaehadees.com/Masail/1/8.htm)

Tuesday 28 February 2012

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا


× ادارہ الحسنات رام پور کا اسلامی دینی اصلاحی رسالہ
ماہنامہ "الحسنات"
فی شمارہ: 18روپے زرسالانہ: 150 روپے دیگر ممالک: 20 ڈالر
منگوانے کا پتہ: ادارہ الحسنات پرانی کھنڈ سار، رامپور 244901 (یوپی) انڈیا
× دارالعلوم دیوبند (ہند) کا ترجمان
ماہنامہ "دارالعلوم" مدیر اعلیٰ: حبیب الرحمن اعظمی
ویب سائٹ:
www.darululoom-deoband.com
ای میل:
info@darululoom-deoband.com
ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔
دیگر سرگرمیاں: جدید فقہ وفتاوی، دعوت وتبلیغ، عصری مباحث، مکتبہ صوتیات
× جامعہ فاروقیہ کراچی کا ترجمان ماہنامہ "الفاروق"
ویب سائٹ:
www.farooqia.com/urdu/alfarooq.htm
تمام موجود رسائل ڈاؤن لوڈ کئے جا سکتے ہیں
× دارالعلوم ندوۃ العلماء(ہند) کا ترجمان
پندرہ روزہ "تعمیر حیات" لکھنو مدیر: شمس الحق ندوی
فی شمارہ: 7 روپے زرسالانہ: 150 روپے بیرون ممالک: 35 ڈالر
ویب سائٹ:
www.nadwatululama.org
ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔
ملنے کا پتہ: پوسٹ بکس نمبر 93 ندوۃ العلماءلکھنو 226007 انڈیا
× دینی اصلاحی رسالہ
ماہنامہ "دعوۃ الحق" ایڈیٹر: حافظ مقصود احمد
فی شمارہ: 10 روپے سالانہ: 100 روپے
ای میل:
altouheed@yahoo.com
منگوانے کا پتہ: مرکزی دعوۃ التوحید، جامع مسجد شاہ اسماعیل
I-9/4 اسلام آباد
× جامعہ ملیہ اسلامیہ کا
سہ ماہی "اسلام اور عصر جدید" مدیر: اختر الواسع
فی شمارہ: 30 روپے زرسالانہ: 100 روپے
پاکستان وبنگلہ دیش: 40 روپے زرسالانہ پاکستان وبنگلہ دیش: 150 روپے
دیگر ممالک: 6 ڈالر زرسالانہ دیگر ممالک: 20 ڈالر
منگوانے کا پتہ: ذاکر حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ، جامعہ نگر، نئی دہلی 11025
× علمی دینی، اصلاحی، تربیتی، دعوتی رسالہ
ماہنامہ "اﷲ کی پکار" مدیر: ڈاکٹر خالد حامدی فلاحی
فی شمارہ: 10 روپے زرسالانہ: 120 روپے دیگر ممالک: 15 ڈالر
منگوانے کا پتہ: 1/11، ابوالفضل اتکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی 110025
× دینی و اصلاحی ماہنامہ
"فیضان القرآن" مدیر اعلیٰ: ڈاکٹر حفیظ الرحمن بغدادی
فی شمارہ: 15 روپے زر سالانہ: 150 روپے
منگوانے کا پتہ: ادارہ فیضان القرآن
A/1 سلیم گارڈن شاہدرہ لاہور
دیگر سرگرمیاں: دینی لٹریچر کی اشاعت، نادار خواتین کی تعلیم، فاصلاتی کورسز
× عالمی اسلامی تحریکوں اور جامعہ ابوہریرہ خالق آباد نوشہرہ کا ترجمان
ماہنامہ "القاسم" نوشہرہ
منگوانے کا پتہ: جامعہ ابوہریرہ، برانچ پوسٹ آفس، خالق آباد ضلع نوشہرہ، سرحد پاکستان
فی شمارہ: 15 روپے زرسالانہ: 150 روپے بیرون ممالک: 30 ڈالر
دیگر سرگرمیاں: جدید مسائل پر فتاویٰ کا بھی اہتمام ہے
× دینی اصلاحی رسالہ
ماہنامہ "علم وآگہی" فیصل آباد
بلاقیمت
منگوانے کا پتہ: ادارہ علم وآگہی، ڈی گراؤنڈ سموسہ چوک (نزد نورانی مسجد) فیصل آباد
ویب سائٹ:
www.ilmoagahi.com
ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔
دیگر سرگرمیاں: مفت سلائی و دستکاری، طوبی ڈسپنسری، طوبی لائبریری، طوبی پبلک سکول، فری میرج سروس
× تحقیقی، سائنسی، تفریحی رسالہ
ماہنامہ "بصیرت" کراچی
زرسالانہ: 300 روپے
منگوانے کا پتہ: معظم ٹیرس، تیسری منزل فلیٹ نمبر 9 نزد جامعہ اشرف المدارس، گلشن اقبال بلاک 2 کراچی، پی او بکس نمبر 11182
 


 

مسلم اور مذہبی صحافت کا تاریخی تجزیہ

خوشتر نورانی صاحب

گزشتہ دو سو سالوں میں ذرائع ابلاغ میں تدریجی وسعت کے باوجود آخر مسلم اور مذہبی صحافت کا دائرہ کیوں سمٹتا چلا گیا؟

 
 

مسلم صحافت کی تاریخ پونے دو سوسال پرانی ہے، اس طویل عرصے میں اپنی تمام تر جد و جہد اور صحافتی تقاضوں کی تکمیل کے باوجود اسے کبھی بھی وہ عروج حاصل نہیں ہوسکا جو دوسری قوموں کی صحافت کا مقدر ٹھہرا- ان پونے دو سوسالوں میں ذرائع ابلاغ کا دائرہٴ کار وسیع تر ہوتا گیا، لیکن مسلم صحافت غیرمنقسم ہندوستان سے مسلم سماج اور اس کے بعد مسلمانوں کے مذہبی یا اردو پسند حلقوں میں سمٹتی چلی گئی- ان گزرے ہوئے سالوں میں کبھی کسی تحریک یا جذبے کے زیر اثر مسلم صحافت کا دائرہ وسیع ہوتا ہوا دکھا بھی تو صرف اس وقت تک جب تک مذکورہ تحریک یا جذبے میں حرارت باقی رہی- ان کی یخ بستگی کے ساتھ ہی مسلم صحافت کی یہ وسعت سمٹ کر پھر اپنے محور پر گردش کرنے لگی- آگے چل کر مسلم صحافت کے بطن سے ہی مسلمانوں کی مذہبی صحافت نے بھی اپنے بال و پر نکالے، لیکن بہ استثنائے چند ان کے ذمہ داران کی صحافتی تقاضوں سے بے خبری مذہبی رسالوں کو طویل زندگی نہیں دے سکی اور اگر وسائل کی فرواوانی نے کسی کو لمبی عمر تک زندہ بھی رکھا تو اسے عوام کی جانب سے قبولیت کا خلعت عطا نہیں ہوسکا-

 مذہبی صحافت کی عدم مقبولیت نے ہی شاید موٴرخین کو اس کی مبسوط تاریخ لکھنے سے بے پروا رکھا، ناقدین نے اس کے محاسن و معائب پر گفتگو نہیں کی اور محققین نے اس کے لیے اپنی بساط تحقیق نہیں بچھائی- دنیا کی مختلف قوموں اور زبانوں یہاں تک کہ مسلم صحافت کی تاریخ اور عروج و زوال پر بھی ہمیں کثیر سرمایہ ملتا ہے، جب کہ مذہبی صحافت کی تاریخ، اس کے عناصر و اسالیب، رجحانات اور محاسن و معائب پر مشتمل چند مبسوط علمی و تحقیقی مضامین بھی نہیں ملتے-کسی بھی ترقی یا زوال کے دو بنیادی عناصر ہوتے ہیں: ایک داخلی اور دوسرا خارجی- داخلی عناصر کا تعلق صلاحیت، پیش کش او رطریق کار سے ہوتا ہے، جب کہ خارجی عناصر حالات اور ماحول پر مشتمل ہوتے ہیں- ترقی کا مدار دونوں عناصر کی صحیح تنظیم و ترتیب پر ہے، ان میں سے کسی ایک کی ناہمواری زوال اور نامقبولیت کا باعث بن جاتی ہے- عام مسلم صحافت اور مسلم مذہبی صحافت کی تاریخی کڑیوں کو مختلف ادوار میں جوڑنے کی کوشش کی جائے تو ہر دور میں ذرائع ابلاغ کے ہمہ گیر اثرات کے باوجود دونوں کی نامقبولیت کو مذکورہ نکتے میں دیکھا جاسکتا ہے-

مسلم صحافت کے داخلی عناصر تو ہر دور میں صحیح رہے، لیکن بدقسمتی سے اس کے دائرہٴ اثر کو خارجی عناصر نے کبھی وسیع اور ہمہ گیر ہونے کا موقع نہیں دیا، یہ خارجی عناصر مختلف زمانے میں مختلف رہے جن کی تفصیل یہ ہے:

۱- انگریزی سرکار کی سیاسی قلا بازیاں ۲- ۱۸۵۷ء کے الم ناک حادثے ۳- لسانی تعصب ۴- ہندوٴں اور مسلمانوں کا مذہبی اور معاشرتی تناوٴ ۵-تقسیم ہند ۶-اردو زبان کا اسلامائزیشن ۷-اور تقسیم ہند کے بعد اقلیتی اور اکثریتی مفادات پر حکومتوں کا جانب دارانہ رویہ-

جب کہ مذہبی صحافت سے عوام کی عدم دلچسپی کا سبب خارجی عناصر کے ساتھ داخلی عناصر بھی رہے، جن کی تفصیل یہ ہے:

۱-پیش کش کا روایتی طریق کار۲- Outdatedموضوعات کا انتخاب۳- عصری مفاہیم اور اسالیب سے بے خبری۴- صحافتی اصول سے ناآشنائی۵- فروعی مسائل پر جنگ و جدال۶- رسائل کی اشاعت میں وقت، محنت اور توجہ کی کمی ۷- صحافت کی اہمیت و اثرات سے غفلت

ان دونوں عناصر کو سمجھنے کے لیے مسلم اور مذہبی صحافت کے تاریخی ادوار کا جائزہ ضروری ہے-

برصغیر میں مطبوعہ صحافت کا آغازاور مسلمان:- برصغیر میں مطبوعہ صحافت کی ابتدا کلکتہ سے ۱۷۷۹ء میں "کلکتہ جنرل ایڈورٹائزر" کی اشاعت سے ہوئی، اس ہفت روزہ انگریزی اخبار کو جیمز آگسٹس ہیکی نے جاری کیا، جسے عرف عام "ہیکی کا گزٹ" بھی کہتے ہیں- وقت گزرنے کے ساتھ جیسے جیسے ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلط ہندوستان کے مختلف علاقوں پر بڑھتا گیا انگریزی صحافت میں بھی توسیع ہوتی گئی، یہاں تک کہ انیسویں صدی کے ربع اول تک انگریزی اخبارات کی تعداد ایک درجن سے زائد ہوگئی-یہ بھی واضح رہے کہ انگریزی صحافت کی توسیع ان علاقوں (بنگال اور اس کے مضافات) میں ہو رہی تھی جہاں مسلمان نہایت پسماندگی کی حالت میں گزر بسر کر رہے تھے، کیوں کہ انگریزوں کے متعدد اقدامات نے انہیں معاشی، سماجی اور تعلیمی حیثیت سے کمزور کردیا تھا، جب کہ ہندوٴں میں (جو پہلے سے ہی مسلمانوں کے زیر اقتدار تھے) انگریزی تعاون سے اصلاحی تحریکیں شروع ہوچکی تھیں، ان اصلاحات اور ہندوستانیوں میں عیسائیت کی تبلیغ کے لیے جگہ جگہ عیسائی مشنریاں بھی قائم کی جاچکی تھیں، جنہیں مسلمان قبول کرنے کو تیار نہیں تھے-اس وقت انگریزوں نے محسوس کیا کہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے مختلف علاقائی زبانوں میں اخبارات و رسائل بھی جاری کیے جائیں- چنانچہ ہندوٴں اور عیسائی مشنری کے زیر اہتمام فارسی، ہندی، بنگالی اور گجراتی زبانوں میں اخبارات نکلنا شروع ہوئے-

اس سلسلے میں کلکتہ سے ۱۸۱۸ء میں ڈاکٹر مارش مین نے بنگالی زبان کا پہلا رسالہ ماہنامہ "ڈگ درشن"، کلکتہ سے ہی اپریل ۱۸۲۲ء میں ہندو مصلح راجہ رام موہن رائے نے فارسی کا پہلا ہفت روزہ "مرأة الاخبار"، ممبئی سے۱۸۲۲ء میں مرزبان جی نے گجراتی زبان کا اولین اخبار ہفت روزہ "بمبئی سماچار" اور کلکتہ سے ہی ۱۸۲۶ء میں جگل کشور شکلا نے ہندی کا پہلا ہفت روزہ اخبار "اودنت مارتنڈ" جاری کیا- اس تفصیل کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہ جاتا کہ برصغیر کی ابتدائی مطبوعہ صحافت میں مسلمانوں کا نام و نشان بھی نہیں تھا-

اردو صحافت کے آغاز کا مقصد اور مسلمان:-اردو کی مطبوعہ صحافت کا آغاز بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر اہتمام ۱۸۲۲ء میں ہفت روزہ "جام جہاں نما" کلکتہ سے ہوا، جس کا مدیر و مہتمم منشی سدا سکھ کو بنایا گیا، لیکن اردو صحافت کی اشاعت اور فروغ کا مقصد عیسائیت کی تبلیغ یا ہندوستانیوں کی اصلاحات نہیں تھی، اگر ایسا ہوتا تو مذکورہ اخبار کو کلکتہ کی بجائے اردو کے مراکز یا علاقوں سے جاری کیا جاتا، کلکتہ اور اس کے مضافات میں تو مسلمانوں کے درمیان بھی اردو مقبول نہیں تھی تو وہاں کے عام ہندوستانی کیا پڑھتے؟ شاید اسی وجہ سے مذکورہ اخبار کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ور وہ مختصر سی مدت میں بند ہوگیا- اردو صحافت کے آغاز کا مقصد موٴرخین نے جو بیان کیا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں کے تقریباً ہزار سالہ دور حکومت میں فارسی کو علمی، ادبی اور تہذیبی زبان کا درجہ حاصل تھا، یہ مسلمانوں کے اقتدار کی نشانی تھی جبکہ اردو صرف شعر و سخن کی زبان تھی- انیسویں صدی کے ابتدائی ادوار میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کی سیاسی اور عسکری قوت بڑھنے لگی تو انگریزوں نے چاہا کہ ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں کا رشتہ ان کے ماضی سے کاٹ کر انہیں ذہنی و فکری حیثیت سے بھی غلام بنایا جائے- اس مشن اور خواہش کی تکمیل کے لیے فارسی زبان کا خاتمہ ضروری تھا-انگریزی کا چلن اس وقت عام نہیں تھا، اس لیے ان کی نگاہ انتخاب اردو پر پڑی اور انہوں نے اردو کو فروغ دینے کا منصوبہ بنایا- ۱۸۰۰ء میں فورٹ ولیم کالج کا قیام اسی مقصد کے تحت ہوا تاکہ فارسی کے بالمقابل اردو زبان کو ہندوستانیوں میں عام کرنے کی تحریک چلائی جاسکے اور اسی مقصد کے تحت مذکورہ ہفت روزہ اخبار بھی جاری کیا گیا-یہاں تک کہ ۱۸۳۰ء میں فارسی کو ختم کرکے اردو سرکاری زبان بنا دی گئی- اس طرح انگریزوں کی سیاسی قلابازیوں اور منصوبوں کے نتیجے میں انیسویں صدی کے ربع اول سے ۱۸۵۷ء تک ہندوستان کی مقامی زبانوں (فارسی، اردو، بنگالی، گجراتی، مراٹھی) میں تقریباً سو اخبارات ورسائل جاری ہوئے،جن میں مسلمانوں کی حصہ داری پچیس فیصد سے زیادہ نہیں رہی، اس کے برخلاف ہندوٴں نے انگریزوں کے تعاون سے مطبوعہ صحافت کے اس ابتدائی دور میں غیرمعمولی دلچسپی کا مظاہرہ کیا-

مسلم صحافت:-برصغیر میں مسلم صحافت کو چار ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

پہلا دور ۱۸۳۳ء سے ۱۸۵۷تک،دوسرا دور ۱۸۵۸ء سے ۱۹۰۰ء تک،تیسرا دور ۱۹۰۱ء سے ۱۹۴۷ء تک اور چوتھا دور ۱۹۴۸ء سے تاحال

پہلا دور: -برصغیر میں مغلوں کے زوال کے ساتھ ہی مسلمانوں کے(ہر محاذ پر)زوال کی تاریخ شروع ہوتی ہے،چنانچہ مسلم صحافت بھی اس کا شکار ہوئی اور بر صغیر میں مطبوعہ صحافت کے تقریباً ۵۲/سالوں اور ہندو صحافت کے ۱۳/سالوں کے بعد ۱۸۳۱ء میں مسلم صحافت کا آغاز ہوتا ہے- ۱۸۳۱ء میں مولوی سراج الدین نے کلکتہ سے پہلا فارسی اخبار "آئینہ سکندر" جاری کیا،جبکہ مولانا محمد حسین آزاد کے والد مولوی محمد باقرنے ۱۸۳۶ء میں دہلی سے "دہلی اردو اخبار"کے نام سے پہلا اردو اخبار نکالا-اس طرح ۱۸۵۷ء تک فارسی اور اردو زبانوں میں مختلف مقامات سے مسلمانوں نے مزید چند اخبارات و رسائل جاری کیے،جن کی کل تعداد تیس کے آس پاس ہوگی-

مسلم صحافت کے اس پہلے پڑاوٴ میں مسلمانوں کے پاس نہ کوئی منصوبہ تھا اور نہ کوئی مشن یا تحریک جس کو وہ اپنی صحافت کے ذریعے آگے بڑھاتے،اس لیے مسلم صحافت کا پہلا دور صحافتی نقطہٴ نظر سے بد رنگ اور پھیکا ہی رہا-اسی وجہ سے مسلم صحافت اپنے پہلے دور میں براہ راست کوئی نمایاں خدمت بھی نہیں انجام دے سکی اور نہ ہی کوئی اخبار عوام میں بہت زیادہ مقبول ہوسکا-اس دورکے اکثر اخبارات و رسائل آخری مغل تاجدار بادشاہ غازی کے شب و روز کا اشتہار بنے ہوئے تھے یا پھراستادان شعر و سخن کی آپسی چپقلش کے نمائندے-مثلاً اس وقت استاد ذوق اور مرزا غالب کی فنی رقابت عروج پر تھی،لہذا مسلم اخبارات بھی دو حصوں میں بٹے ہوئے تھے،ایک گروپ غالب کے پرستاروں کا تھاتو دوسرا ذوق کا گرویدہ اور دونوں ہی گروپ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے- ایک بارغالب کو قمار بازی کے الزام میں سزا ہوگئی توبشمول "دہلی اردو اخبار" ذوق کے حامیوں نے اپنے اخبارات میں اس خبر کو خوب اچھالا-اسی طرح مسلم صحافت کا پہلا فارسی اخبار"آئینہٴ سکندر " کو مرزا نوشہ کی سرپرستی حاصل تھی ،اس لیے ہر خبر کی سرخی کے نیچے ان کا ایک فارسی کا شعر بھی ہوا کرتا تھا-شعرا کے منظوم کلاموں کی کثرت اشاعت ان پر مستزاد،جس نے صحافت کو مشاعرہ گاہ بناکر رکھ دیا تھا-ان اخبارات میں ملکی اور بین الاقوامی خبریں بھی ہوتی تھیں،جن کے مآخذ و مراجع انگریزوں اور ہندوٴں کے زیر ادارت نکلنے والے اخبارات ہی ہواکرتے،اس لیے واقعات کے حقائق کا تعین بھی مشکل تھا اور خبروں کے بین السطور سے صحیح تجزیہ و تبصرہ بھی پریشان کن-ہاں!ان میں کچھ اخبارات ایسے بھی تھے جو انگریز افسروں کے ناروا ظلم وجبر کے خلاف آواز حق بھی بلند کرتے تھے،مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی-

جہاں تک مذہبی صحافت کی بات ہے ،جس میں عموماً مذہبی امور پر مسلمانوں کی رہنمائی مقصود ہوتی ہے،اسلامی تعلیمات کی تبلیغ و اشاعت ہوتی ہے اور مذہبی و ملی مسائل کا تاریخی و تجزیاتی مطالعہ ہوتا ہے ،مسلم صحافت کے اس پہلے دور میں اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا-حیرت کی بات ہے کہ انگریز و ں نے اپنی طاقت کے ابتدائی مرحلے میں ہی عیسائیت کی تبلیغ کا آغاز مختلف شعبوں سے کردیا تھا جس میں صحافت بنیادی کردار ادا کررہی تھی،لیکن مسلمانوں کی جانب سے کوئی مجلہ یا رسالہ شروع نہیں کیا گیا،حالانکہ رد عمل میں اس کام کا آغاز ناگزیر تھا-اس کے علاوہ ۵۷ء سے پہلے ملک کے سیاسی حالات بھی ایسے نہیں تھے جیساکہ اس کے بعد ہوئے،مادی انقلاب نے ہندوستان کے دروازے پردستک بھی نہیں دی تھی اور نہ ہندوستانی مسلمانوں کی مذہبی تپش کو کسی "ازم" نے ٹھنڈا کیا تھا-یہ سچائی ہے کہ اس وقت مسلمان سیاسی سطح پر جوجھ رہے تھے ،مگر مسلم دشمنی کی ایک بڑی وجہ ان کے مذہبی اور ایمانی معاملات بھی تھے-انگریزوں کے ذریعے فارسی زبان کے خاتمے کی کوشش اوراسلامی علوم و فنون کو مٹانے کی جدو جہد اسلام دشمنی کے روشن استعارے تھے-

یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر دین کی رہنمائی اور اشاعت اس کے علما ہی کرتے ہیں ،اسلام کا استحکام اور تبلیغ بھی علمائے شریعت کے ذریعے ہی ہوتی رہی ہے-حیرت ہے کہ برصغیر میں مسلم صحافت کے آغاز اور عروج میں علمانے ہی کمان سنبھالی ،لیکن اپنے پہلے صحافتی دور میں انھوں نے ہی مذہبی صحافت کو بالکل نظر انداز کردیا ،دوسرے لفظوں میں صحافت کے ذریعے اسلام کے استحکام و تبلیغ کی کوشش سے پہلو تہی کی گئی-مسلم صحافت کا آغاز و ارتقا اگر علما کے ذریعے نہیں ہوا ہوتا تو یہ شکایت اتنی بر محل نہیں ہوتی جتنی مذکورہ حالت میں ہوجاتی ہے- یہ شکایت اس وقت اور بھی بامعنی ہوجاتی ہے جب یہ تکلیف دہ تاریخ سامنے آتی ہے کہ اس وقت علماء کا ایک بڑا طبقہ منقولات اور دینی و ملی ضرورتوں سے صرف نظر کر کے یونانی فلسفے کی درس و تدریس اور عقول عشرہ، خرق والتئام فلک اور جزء الذی لایتجزیٰ کے رد و ابطال میں مصروف تھا- قدیم فلسفے کی تردید پر مشتمل ان لاحاصل مصروفیات کا ایک عظیم دفتر آج بھی بطور یاد گار لائبریریوں میں محفوظ ہے- ستم یہ ہے کہ علما کی تدریس کا ایک بڑا حصہ آج بھی ان کے بطلان پر صرف ہورہا ہے، حالانکہ برصغیر میں نہ اس وقت مذکورہ نظریات کا کوئی پرستار تھا اور نہ آج کوئی ان کا حامی و موید ہے- ایسے میں یہ سوال اپنی پوری توانائی کے ساتھ ہمارے سامنے کھڑا ہوجاتا ہے کہ مذہبی حلقے میں یونانی فلسفے کے تردید وابطال کی یہ ہنگامہ آرائیاں کیوں اور کس کے لیے تھیں؟ ہزار کوششوں کے باوجود بھی میں آج تک اس کا کوئی تسلی بخش جواب اپنے آپ کو دے کر مطمئن نہیں کرسکا- یہ بات بھی بڑی حیران کن ہے کہ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں ہی یوروپ کے اندر برپا ہونے والے جدید سائنسی انقلاب نے یونانی فلسفے کو رد کردیا تھا اور اس کے بالمقابل ڈارون ازم، مارکسزم اور فرائڈ کے جنسی فلسفے کی بنیاد رکھ دی گئی تھی، جو براہ راست مذہبی افکار و عقائد سے متصادم تھے اور بشمول برصغیر دنیا کے بڑے خطے کے ذہن و فکر کو تہ و بالا کر رہے تھے، مگر یوروپ کا یہ جدید فلسفہ نہ اس وقت علماء کی دلچسپی کا موضوع تھا اور نہ آج ہے- ممکن ہے دو سو سالوں کے بعدجب کسی نئے فلسفے کی بنیاد پڑے تو وہ یوروپ کے مذکورہ نظریات کی تدریس و تردید کی طرف متوجہ ہوں-

دوسرا دور:-مسلم صحافت کے دوسرے دور کا آغاز ۱۸۵۷ء کی بغاوت کے بعد شروع ہوتا ہے اور انیسویں صدی کے اختتام پر تمام ہوجاتا ہے- ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد مسلمانوں بالخصوص علما پر مصائب و آلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، کیوں کہ اس جنگ کی پیشوائی یہی لوگ کر رہے تھے، اس لیے قید و بند کی صعوبتیں، سرکاری مناصب سے معزولی، سزائے موت ، تعلیمی، سیاسی اور معاشی پابندیاں انہی کے حصے میںآ ئیں- برصغیر میں مسلمانوں کی اس دار و گیر کے نتیجے میں مسلم صحافت بھی بے پناہ متاثر ہوئی اور متعدد اخبارات بند کردیے گئے- دہلی ارد و اخبار کے مدیر مولوی باقر کو مسٹر ٹیلر پرنسپل دہلی کالج کے قتل کی سازش کے الزام میں گولی مار دی گئی، جب کہ ان کے صاحبزادے مولانا محمد حسین آزاد مصنف "آب حیات" گرفتاری سے بچنے کے لیے روپوش ہوگئے، اس کے علاوہ مسلم اخبارات کے بہت سے مدیروں اور مالکوں کو جیل میں ڈال دیا گیا-انقلاب۱۸۵۷ء کے بعد مسلم صحافت کے وجودکا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ۱۸۵۳ء تک اردو زبان کے اخبارات کی تعداد ۳۵ تھی، جب کہ ۱۸۵۸ء میں یہ تعداد گھٹ کر صرف بارہ رہ گئی، ان بارہ میں بھی صرف چھ اخبارات جنگ سے پہلے کے تھے اور چھ نئے تھے- ان بارہ اخبارات میں سے صرف ایک کی ادارت ایک مسلمان کے پاس تھی، باقی تمام غیرمسلموں کی زیر ادارت تھے- گویا یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ۱۸۵۷ء کے انقلاب کے بعد مسلم صحافت عملی طور پر ختم ہوگئی تھی- دوسری طرف ہندو صحافت نے جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد اپنے اخبارات کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف سخت انتقامی کارروائی کا مطالبہ کیا اور گنگا نہا لیا- مسلم صحافت تو عملی طور پر ختم ہوچکی تھی اور جو رہ گئی تھی خوف نے ا ن کے لہجے میں اعتدال پیدا کردیا تھا، ان حالات میں برصغیر کے اندر ہندو صحافت ہی رہ گئی تھی جسے حکومت کی سرپرستی حاصل تھی-

۱۸۵۷ء کے بعد تین چار سالوں تک مسلم صحافت نہایت محدود اور کمزور رہی- ۶۰ء کے بعد مسلمانوں نے ایک بار پھر اپنی بکھری ہوئی طاقت و ہمت کو یکجا کیااور اپنی صحافت کو نئے سرے سے مستحکم کرنے کی جد و جہد کا آغاز کیا- نتیجے میں ایک کے بعد ایک اخبار و رسالہ نکلنا شروع ہوئے، یہاں تک کے اس صدی کے آخر تک مسلم صحافت کی آواز موٴثر اور مضبوط ہو کر آزادی وطن کے احتجاجوں اور نعروں میں تبدیل ہوگئی-

تاریخی ادوار کے حساب سے مسلم صحافت کے دوسرے دور کا آغاز ۱۸۵۸ء سے ہوتاہے، اس دور میں ۱۹۰۰ء تک سیکڑوں مسلم اخبارات و رسائل منظر عام پر آئے، لیکن مورخین اور صحافتی تحقیق کاروں کے مطابق اپنے مشمولات، اسلوب، پیش کش اور ذہن سازی کی وجہ سے جو مقبولیت اور شہرت سرسید احمد خاں(۱۸۱۷ء/۱۸۹۸ء )کے اخبار اور رسالے کو ملی وہ کسی دوسرے کے حصے میں نہ آسکی-سرسید کی مقبول او رموٴثر صحافت کی وجہ سے ہی محققین نے مسلم صحافت کے دوسرے دور کے باقاعدہ آغاز کا سہرا ان کے سر باندھا ہے- مسلم صحافیوں کی لمبی فہرست میں سر سید پہلے شخص تسلیم کیے گئے جنہوں نے صرف مسلمانوں کی اصلاحات کے لیے صحافت کے میدان میں آنے کا فیصلہ کیا اور ان میں جدید علوم کے حصول کی تحریک پیدا کرنے کے لیے علی گڑھ سے ۱۸۶۶ء میں ہفت روزہ" سائنٹفک سوسائٹی" جاری کیا، جو بعد میں علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے نام سے بھی مشہور ہوا- یہ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں شائع ہوتا تھا تاکہ انگریزوں اور ہندوستانیوں بالخصوص مسلمانوں کو متوجہ اور متاثرکرسکے- بقول ڈاکٹر مسکین علی حجازی:

 "انہوں(سرسید) نے اس اخبار کو صحت کے اعتبار سے اس مقام پر پہنچادیا جہاں پہلے کوئی اردو اخبار نہیں پہنچا تھا، علاوہ ازیں انہوں نے اپنے مدلل، منطقی، عام فہم اداریوں، تبصروں اور مضامین سے اخبار کو مفید اور وقیع بنایا-"(صحافتی زبان،ص:۱۹،مطبوعہ سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور)

انگریزوں نے اپنی سیاسی قوت کے ابتدائی دور میں فارسی دشمنی میں اردو کے فروغ کی جو کوشش شروع کی تھی، وہ انقلاب ۱۸۵۷ء کے بعد کامیاب ہونا شروع ہوگئی تھی، اس لیے مسلم صحافت کے دوسرے دور میں فارسی کے مقابلے میں اردو اخبارات و رسائل کثیر تعداد میں نکلے، لیکن ان کا اسلوب ادیبانہ اور عربی و فارسی آمیز تھا- یہ اسلوب مسلم صحافت کے قبول عام میں بڑی رکاوٹ تھا- مسلم صحافت کے اسلوب کو بھی اپنے اخبار کے ذریعہ عام فہم بنانے میں سرسید نے بنیادی رول ادا کیا، جس کے اثرات بعد کے اخبارات میں بھی دکھائی دیے-

مسلم صحافت کے پہلے دور کی طرح دوسرے دور میں بھی مذہبی صحافت کا نام و نشان نظر نہیں آتا، سوائے اس کے کہ کچھ اخبارات و رسائل کبھی کسی شمارے میں اپنی مضامین شائع کردیا کرتے تھے- سرسید کے اخبار کے علاوہ دوسرے دور کی پوری مسلم صحافت پہلے پہل صحافت برائے صحافت پر عامل رہی، لیکن اپنے اخیر دور میں اس کی پوری توجہ آزادی وطن کی جد و جہد پر مرکوز ہوگئی- یہ صحیح ہے کہ دوسرے دور میں مسلم صحافت کا مرکزی موضوع آزادی وطن رہا اور یہ بھی سچ ہے کہ اس دور میں مذہبی صحافت کہیں نظر نہیں آتی، لیکن میری رائے میں باقاعدہ مذہبی صحافت کا آغاز اسی دور سے ہوتا ہے- یہ الگ بات ہے کہ اس آغاز کو وسعت نہیں مل سکی-

برصغیر میں صحافت کی مفصل تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ سرسید احمد خاں نے ہی مذہبی صحافت کی بنیاد رکھی اور ۲۴/ دسمبر ۱۸۷۰ء میں علی گڑھ سے "تہذیب الاخلاق" جاری کیا- اس رسالے کا مقصد مسلمانوں کی دینی رہنمائی اور ان کی معاشرت کی اصلاح تھی- سرسید نے "تہذیب الاخلاق" کے پہلے ہی شمارے میں "تمہید" کے زیر عنوان اپنے مقصد کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ:

"بس ہمارا مطلب ہندوستان کے مسلمان بھائیوں سے ہے اور اس مقصد کے لیے یہ پرچہ جاری کرتے ہیں تاکہ بذریعہ اس پرچے کے جہاں تک ہوسکے ان کے دین و دنیا کی بھلائی میں کوشش کریں-"(ص:۱)

اس رسالے کے تعلق سے محمد افتخار کھوکھر نے تاریخ صحافت میں لکھا ہے کہ:

"تہذیب الاخلاق نے مسلمانوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کردیا- اس اخبار نے مسلمانوں کو فرسودہ روایات، رسومات کی اندھا دھند تقلید ترک کرنے کا مشورہ دیا، مسلمانوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اپنی زندگیوں میں اسلام کو رائج کریں، لڑکیوں کے لیے بھی تعلیم کا انتظام کریں اور ہر قسم کے علوم و فنون سے استفادہ کریں-" ( ص: ۸۳/ مطبوعہ مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد،پاکستان)

یہ بات بھی بڑی عجیب ہے کہ تہذیب الاخلاق کی بے پناہ شہرت و مقبولیت کے باوجود اس صدی کے آخر تک مذہبی صحافت کا کوئی دوسرا نقش سامنے نہیں آسکا، اس عرصے میں اگر کوئی مذہبی رسالہ جاری ہوا بھی ہوگا تو اس کی عدم مقبولیت تاریخ صحافت میں اپنا اندراج نہیں کراسکی-

مسلم صحافت کے پہلے دور کی طرح دوسرے دور میں بھی مسلم صحافیوں اور علماء کی سرگرمیوں کے موضوعات اور ان کی ترجیحات مختلف تھیں، جن میں مذہبی صحافت کی گنجائش نہیں تھی، جس کا خمیازہ موٴرخین کی بے اعتنائی، عوام کی عدم دلچسپی اور نامقبولیت کی شکل میں مذہبی صحافت آج تک بھگت رہی ہے، جب کہ اسلام کی تبلیغ اور مسلمانوں کی دینی رہنمائی کا یہ ایک بڑا اور موٴثر ذریعہ ہوسکتا تھا- سرسید نے اس نوشتہ دیوار کو پڑھ لیا اور مذہبی صحافت کے ذریعہ مسلم سوسائٹی میں ذہنی و فکری انقلاب برپا کردیا- آج اسی کا نتیجہ ہے کہ برصغیر کی اصلاحی، صحافتی، ادبی اور تعلیمی تاریخ کے حوالے سے موٴرخین، محققین اور لکھنے والوں کی کوئی بات سرسید کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی-

مذہبی صحافت کے آغاز و ارتقا میں سرسید کے نمایاں کردار کے اعتراف کے ساتھ یہ بات بھی اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ انہوں نے اپنی مذہبی صحافت اور مذہبی تحریروں کے زریعے دین کی جو تعبیر و تشریح پیش کی وہ" اعتزالی فکر" کی نئی شکل تھی، جو امت مسلمہ کے شدید مذہبی انحرافات کا سبب بن گئی- سرسید کی تعلیمی، صحافتی اور اصلاحی میدانوں میں گرانقدر خدمات کے باوجود علما سے ان کے شدید اختلافات کی وجہ مذکورہ تعبیر و تشریح ہی تھی- یہ نظریاتی اختلافات آگے چل کر ان کی تعلیمی، اصلاحی اور صحافتی تحریکوں پر بھی براہ راست اثر انداز ہوئے- سرسید کی مذہبی تشریحات اور امت مسلمہ پر ان کے اثرات کے حوالے سے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا یہ اقتباس قابل مطالعہ ہے:

"سرسید کے کام کو اصلاح اور تنقید عالی کے الفاظ سے تعبیر کرنا اور یہ کہنا کہ مسلمانوں میں ان کے بعد جتنی اہم مذہبی، سیاسی، اجتماعی، ادبی، تعلیمی تحریکیں اٹھی ہیں ان سب کا سررشتہ کسی نہ کسی طرح ان سے ملتا ہے، دراصل مبالغہ کی حد سے متجاوز ہے- سچ یہ ہے کہ ۵۷ء کے بعد سے اب تک جس قدر گمراہیاں مسلمانوں میں پیدا ہوئیں ان سب کا شجرہٴ نسب بالواسطہ یا بلا واسطہ سرسید کی ذات تک پہنچتا ہے، وہ اس سرزمین میں تجدد کے امام اول تھے اور پوری قوم کا مزاج بگاڑ کے دنیا سے رخصت ہوئے-"(ترجمان القران، شوال ۱۳۵۹ھ بحوالہ مولانا مودودی کے ساتھ میری رفاقت کی سرگزشت اور اب میرا موقف، مولانا منظور نعمانی، ص: ۹۲، مطبوعہ الفرقان بک ڈپو، لکھنوٴ)

تیسرا دور:- مسلم صحافت کا تیسرا دور ۱۹۰۱ء سے شروع ہوکر ۱۹۴۷ء میں آزادی اور تقسیم ہند پر ختم ہوتا ہے- اس دور کو مسلم صحافت کا سب سے تابناک اور زریں دور کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا- اس کے کئی اسباب تھے:

۱-            بیسویں صدی کے آغاز میں انگریزی سرکار کے آمرانہ رویوں سے تنگ آکر مسلمانوں میں بھی سیاسی حقوق کی بازیافت کی جد و جہد تیز تر ہوگئی-

۲-            ۱۸۵۷ء کے انقلاب کے ساتھ آزادی وطن کی جس تحریک کی ابتدا ہوئی تھی، انیسویں صدی کے آغاز میں وہ تحریک ایک نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ پرجوش ہوگئی-

۳-            ۱۹۱۱ء میں انگریزی حکومت کی جانب سے بنگال کی تقسیم کی منسوخی اور ۱۹۱۳ء میں مسجد کانپور کی شہادت نے مسلمانوں میں بے بسی اور محرومی کا احساس جگایا، نتیجے میں مسلم قائدین اور صحافیوں نے انگریزوں کے ساتھ مصالحت کی پالیسی کو ترک کرنے کا فیصلہ کرلیا-

۴-            پہلی جنگ عظیم(۱۹۱۴ء-۱۹۱۸ء)میں سلطنت عثمانیہ کو ختم کرنے کی کوششیں جاری تھیں، جس کے نتیجے میں تحریک خلافت شروع ہوگئی-

۵-            تحریک خلافت کے ساتھ ساتھ تحریک ترک موالات اور تحریک ہجرت بھی جاری تھی اور اس کے ساتھ سانحہ جلیانوالہ باغ بھی ہوچکا تھا، جس نے ملک میں انگریزوں کے خلاف ہیجان برپا کر دیا -

۶-            سلطنت عثمانیہ کے خلاف۱۹۱۱ء میں جنگ طرابلس اور ۱۳/۱۹۱۲ء میں جنگ بلقان برپاہوگئی- اس طرح پوری دنیا میں مسلمانوں کے مذہبی، سماجی اور سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان لگا ہو اتھا،جس کو مسلم قائدین اچھی طرح محسوس کرنے لگے-

ان اسباب کی وجہ سے مسلم صحافت ایک نئے مگر زیادہ بامقصد اور موٴثر دور میں داخل ہوگئی، جس میں مصلحتوں، مصالحتوں اور خوشامدانہ لہجوں کی گنجائش نہیں تھی- اس وقت مسلم صحافت کی جو نئی صورت حال تھی اس میں جوش، جذبہ، توانائی،بغاوت، مبارزت طلبی، جرأت و بے خوفی تھی-مسلم صحافت کی اس نئی طرز کی قیادت مولانا ظفر علی خان، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ابوالکلام آزاد کر رہے تھے-

اول الذکر نے زمیندار (۱۹۱۰ء)،ثانی الذکر نے کامریڈ (۱۹۱۱ء)، ہمدرد(۱۹۱۲ء) اور موٴخر الذکر نے الہلال (۱۹۱۲ء) کے ذریعے مسلمانو ں میں اپنے حقوق کی بازیابی، آزادی وطن کی جد و جہد اور مذہبی تحفظات کی جو روح پھونکی، وہ آزادی ہند پر جا کر ختم ہوئی- ان تینوں نے بقول ڈاکٹر مسکین علی حجازی "صحافت کو نعرہٴ رستاخیز کا رنگ دے دیا-" اس جرأت و بے خوفی کی وجہ سے انہیں ناقابل برداشت اذیتوں اور مشکلات کا بھی سامنا رہا، سالہا سال نظر بندی اور قید و بند میں زندگی گزارے، متعدد بار چھاپہ خانے اور ضمانتیں ضبط کی گئیں اور مختلف نوعیت کی سزائیں دی گئیں- آخر مسلسل ضمانتوں، ضبطیوں اور نظر بندیوں کے پیش نظر مولانا ظفر علی خان کا زمین دار ۱۹۱۳ء میں، مولانا محمد علی جوہر کا کامریڈ ۱۹۱۴ء اور ہمدرد ۱۹۱۵ء میں اور مولانا آزادکا الہلال ۱۹۱۴ء میں بند ہوگیا-کچھ عرصے کے بعد ہمدرد اور الہلال دوبارہ جاری کیے گئے،لیکن پہلا ۱۹۲۷ء اور دوسرا ۱۹۲۹ء میں پھر بند ہوگیا- مذکورہ تینوں شخصیات کی صحافت سے عملی طور پر دستبردار ی کے بعد گوکہ مسلم صحافت کا وہ رنگ ڈھنگ نہیں رہا، لیکن ان تینوں نے مسلم صحافت کو جو نیا عنوان اور ولولہ دیا تھا اس نے برصغیر میں مسلم صحافت کو زندہ رہنے کا حوصلہ دے دیا، جس کے سہارے ۱۹۴۷ء تک سیکڑوں اخبارات و رسائل نکلتے رہے اور اپنی اپنی سطح پر صحافتی ذمہ داریاں پوری کرتے رہے- مسلم صحافت کے اسی دور میں صحافت میں جذبات نگاری کی بنیاد پڑی، عالم اسلام کے مسائل اٹھانے کی وجہ سے برصغیر کے مسلمانوں کا اسلامی دنیا سے ایک نیا رشتہ قائم ہوا، چونکا دینے و الی زبان فروغ پائی،صحافت میں تاجرانہ رنگ آیا ، ہفت روزہ اخبارات کثرت سے روزناموں میں تبدیل ہوئے ، صحافت کا دائرہٴ اثر بہت وسیع ہوگیا اور سب سے اہم بات یہ کہ مسلم صحافت عوام کی ترجمان بن گئی، جس کی وجہ سے اخبارات کے سرکولیشن میں بے پناہ اضافہ ہوا اور ان کی تعداد بھی بہت بڑھ گئی-

مسلم صحافت کے اس انقلابی عہد میں اگر مذہبی صحافت کی بات کی جائے تو بیسویں صدی کے آغاز سے مذہبی صحافت کا باقاعدہ اجرا اور برصغیر کے مختلف خطوں سے اس کی اشاعتوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے-اس عرصے میں ۱۹۴۷ء تک تقریباً ڈیڑھ سو مذہبی رسائل و جرائد کا سراغ ملتا ہے-مسلم صحافت کے اس تیسرے دور میں مولانا آزاد کے "الہلال"کو اگر مذہبی صحافت کے زمرے میں لایا جائے تو اس کے علاوہ کوئی بھی مجلہ یا رسالہ شہرت اور مقبولیت کی اس بلندی تک نہیں پہنچ سکا جہاں تک الہلال کے رسائی تھی-جہاں تک اس دور کی مذہبی صحافت کی افادیت کا تعلق ہے ،اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس ڈیڑھ سو رسائل کی فہرست میں ایسے کئی رسائل اور مجلات سامنے آئے جو اپنے اپنے حلقوں میں مسلمانوں کی دینی و شرعی رہنمائی کا ذریعہ بنے نیز ان کے ذریعے بالواسطہ اردو زبان کا فروغ بھی ہوا،کیونکہ اس دور میں فارسی زبان عملی طور پر ختم ہوچکی تھی اور جتنے بھی رسائل و جرائد منظر عام پر آرہے تھے وہ سب کے سب اردو میں تھے-ان میں قاضی عبد الوحید فردوسی کا ماہنامہ تحفہٴ حنفیہ،پٹنہ(۱۹۰۸ء)اور مفتی عمر نعیمی کا السواد الاعظم،مراد آباد (۱۹۱۸ء) خاص طور پرقابل ذکر ہیں-اول الذکر نے تحریک ندوہ کے مسلکی اشتراک و اتحاد کی پالیسی کے خلاف اہل سنت و جماعت کی طرف سے بنیادی کردار ادا کیا جبکہ موخر الذکر نے قیام پاکستان کی تحریک میں اپنے مشمولات اور فکر انگیز مضامین کے ذریعے نمایاں حصہ لیا-لیکن پہلا قاضی عبدالوحید کے انتقال کے بعد اور دوسرا تقسیم ہند کے بعد جاری نہ رہ سکا-ان کے علاوہ اس دور کے مذہبی رسائل و جرائد میں ہفت روزہ الفقیہ،امرتسر(۱۹۱۸ء) ماہنامہ ترجمان القرآن ،حیدرآباد(۱۹۳۲ء)ماہنامہ معارف،اعظم گڑھ(۱۹۱۶ء)اور ہفت روزہ پیغام،کلکتہ (۱۹۲۱ء) کا فی اہم تھے اور اپنے مشمولات اور اثرات کے اعتبار سے تمام معاصر رسائل پر فوقیت رکھتے تھے لیکن جب بات صحافت کے وسیع اثرات کی کی جائے تواس بات کو بھی ماننا ہوگا کہ اس دور میں کوئی بھی مذہبی مجلہ یا رسالہ وسیع پیمانے پر مسلم معاشرے میں قابل ذکر اثرات قائم نہیں کرسکا-اس کی بنیادی وجہ" داخلی عناصر"(جس کی تفصیل ابتدا میں بیان کردی گئی)کی بے ترتیبی کے ساتھ "مسلمانوں کی مسلکی تقسیم"بھی تھی-

بر صغیر کی مسلم تاریخ میں محققین کے ذریعے یہ بات تسلیم کر لی گئی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان مسلکی فرقہ بندی کی ابتدا شاہ اسماعیل دہلوی (۱۷۷۹ء/۱۸۳۱ء ) کے ذریعے ہوئی ،جب انھوں نے ۱۲۴۰ھ(۲۵/۱۸۲۴ء)میں 'تقویة الایمان'نامی کتاب لکھی-اس کتاب کی اشاعت سے قبل مسلمانوں میں دو ہی فرقے مشہور تھے ،ایک شیعہ اوردوسرا سنی-اس کتاب کی اشاعت کے بعد مختلف ادوار میں متعدد فرقے وجود میں آئے،جیسے وہابی،اہل حدیث،اہل قرآن،دیوبندی،چکڑالوی،نیچری وغیرہ-ہر فرقہ اصول اور فروع میں خاص نظریات کا حامی و داعی تھا-اس طرح مسلمانان ہند مختلف فرقوں اور مسلکوں میں بٹتے چلے گئے-ظاہر ہے کہ مسلمانوں کی یہ مسلکی تقسیم صرف نظریاتی اور فکری سطح تک محدود نہیں رہی،بلکہ ۵۷ء کے بعد ایک انسٹی ٹیوشن کی شکل میں جتنے مدارس وجود میں آئے ،مساجد تعمیر ہوئیں ،تنظیمیں اورتحریکیں تشکیل پائیں، کتابیں لکھی گئیں ان سب پر مسلکی رنگ غالب رہا، کیونکہ ہر سطح اور ہر محاذ سے اپنے اپنے مسلک کی تبلیغ اور دفاع کی کوششیں کی جارہی تھیں-اس ماحول میں جب مذہبی صحافت کی ابتدا ہوئی تو مسلکی تقسیم کا اثر اس پر بھی پڑا-کسی بھی مسلک کے صحیح یا غلط اور اس کے حق تبلیغ و دفاع کی بحث سے قطع نظر اس دور کے تمام مذہبی رسائل اپنے اپنے مسلک کی نمائندگی کر رہے تھے،اس لیے ان میں سے کوئی ایک بھی امت کا رسالہ نہیں بن سکا-مذہبی صحافت کی یہ مسلکی تقسیم اس کی عام مقبولیت ،توسیع اور اثرات میں رکاوٹ بن گئی،اس لیے کہ ہر پرچہ اپنے خاص مسلکی نظریات کے ساتھ صرف اپنے ہی حلقے میں پڑھا جارہا تھا-یہ بات بالکل قطعی ہے کہ ہر چیز کے کچھ اپنے تقاضے اور اصول ہوتے ہیں ،جن کی پاسداری ضروری ہوتی ہے- صحافت کے بھی اپنے تقاضے اور اصول ہیں،جس کوحد سے زیادہ نظریاتی تسلط،تقسیم،ادعائیت،موضوعیت اور جانب داریت راس نہیں آتی-

چوتھا دور:-منقسم اور آزاد ہندوستان میں مسلم صحافت کا چوتھا اور آخری دور ۱۹۴۸ء سے شروع ہوا اور آج( ۲۰۱۰ء) تک جاری ہے-حالانکہ اکیسویں صدی کے آغاز سے سائنسی ایجادات اور ترقیات کے سہارے صحافت وسیع اور موٴثر ترین ہو کر ایک نئے دور میں داخل ہوگئی ہے- اب کسی بھی جمہوری ملک کی تنظیم و تعمیر میں صحافت کو عدالت، پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے ساتھ چوتھے ستون کی حیثیت سے تسلیم کرلیا گیا ہے-یعنی ایک جمہوری ملک میں صحافت کو وہی حیثیت حاصل ہے جو عدالت ،پارلیمنٹ اور انتظامیہ کو ہے ،لیکن ذرائع ابلاغ کی اس نئی صورت حال کو بہت دن نہیں گزرے ہیں، اس لیے مسلم صحافت کے پانچویں دور کی حیثیت سے اس مختصر عہد کا مستقل جائزہ قبل از وقت ہوگا-

ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کے بعد مسلم صحافت اپنے چوتھے دور میں بہت زیادہ ترقی نہیں کرسکی، بلکہ اکیسویں صدی کے اختتام تک تدریجاً نہایت محدود ہوگئی- اس کی متعدد وجوہات ہیں:

۱- ۱۹۴۷ء میں تقسیم ہند کے بعد پاکستان وجود میں آیا اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہجرت کر کے وہاں چلی گئی- اس تقسیم اور ہجرت کے نتیجے میں موجودہ ہندوستان کے مسلمان عددی طور پر اقلیت میں آگئے-

۲- مغلیہ سلطنت کے خاتمے کے بعد مسلمانوں پر جو سیاسی، معاشی اور تعلیمی زوال آیا، اسے ہر دور کی سیاست اور مسلمانوں کی داخلی کمزوریوں نے کبھی ختم ہونے کا موقع نہیں دیا- تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں کی صورت حال اور بھی ابتر ہوگئی، جس کا بالواسطہ اثر مسلم صحافت پر بھی پڑا-

۳- تقسیم ہند سے پہلے متحدہ ہندوستان کی زبان اردو تھی، انگریزی سرکار کی عنایتوں سے جب ہندو مسلم کشمکش کا آغاز ہوا تو لسانی تعصبات کا دور شروع ہوا- پہلے فارسی کو ختم کرکے اردو کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی، جب اردو فروغ پا گئی توحکومت کے تعاون سے ہندی اور دوسری مقامی زبانوں کو ترجیح دی جانے لگی، کیوں کہ اردو مسلمانوں کی علمی، ادبی، ثقافتی اور صحافتی زبان بن گئی تھی، جب کہ ہندو اردو سے دھیرے دھیرے کنارہ کش ہو کر ہندی اور دوسری مقامی زبانوں کے فروغ کی کوششیں کر رہے تھے- اس لیے آزادی سے قبل ہندوتو اردو کے ساتھ دوسری زبانوں میں بھی اخبارات نکال رہے تھے، لیکن مسلمانوں کی صحافتی سرگرمیاں صرف اردو میں تھیں- اس صورت حال کا اثر یہ ہوا کہ اردو کو مسلمانوں کی زبان بنادیا گیا اور تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کی قومی زبان ہندی قرار دے دی گئی- گویا مسلمانوں سے اچانک قوت گویائی چھین لی گئی اور انہیں گونگا بنادیا گیا، کیوں کہ وہ اردو کے علاوہ کسی اور زبان سے آشنا نہیں تھے-

۴- تقسیم ہند کے بعد غیر مسلم حکومتوں کی تعلیمی وزارت کی زیر نگرانی ابتدائی درجات سے اعلیٰ درجات تک جو تعلیمی نصاب ترتیب دیا گیا، اس میں اردو کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی- اس لیے ۱۹۴۷ء کے بعد جو نسلیں پڑھ کر نکلیں وہ عمومی طور پر اردو سے نابلد ہوتی گئیں اور اگر مسلمانوں کی اپنی کوششوں اور حکومتوں کی ووٹ بینک پالیسی کے تحت اردو میڈیم اسکول و کالج قائم بھی ہوئے تو ان کا نظام و نصاب اتنا کمزور تھا کہ وہاں سے نکلنے کے بعد معاشی خوشحالی کا تصور نہیں کیا جاسکتا تھا، اب بھی یہی صورت حال ہے، اس لیے مسلمان بھی اپنے بچوں کو عموماً اردو میڈیم سے تعلیم نہیں دلواتے- اس طرح موجودہ ہندوستان میں اردو معاشیات کی زبان نہ رہ کر صرف ادب کی زبان رہ گئی-اس کا اثر یہ ہوا کہ مسلمانوں کی نئی نسلیں بھی اردو سے ناواقف ہوگئیں- ۴۷ء کے بعد مسلم صحافت کا ذریعہ اظہار چوں کہ اردو ہی رہا، جس کے قارئین مسلمانوں میں بھی رفتہ رفتہ کم ہوتے چلے گئے- جو ہیں ان کا تعلق یا تو مذہبی حلقے سے ہے یا پھر اردوپسند حلقے سے-

۵- ۴۷ء کے بعد مسلم صحافت پر ملک کی نئی سیاسی و سماجی صورت حال اور نئے ماحول و مزاج کا کوئی اثر نہیں ہوا، وہ آزادی وطن سے پہلے جس طرح اردو میں تھی، آزادی کے بعد بھی (اردو کے اجنبی ماحول میں) بدستور اردو میں ہی رہی- مسلمانوں نے اپنی صحافت کو موٴثر اور مستحکم کرنے کے لیے نہ اس وقت دوسری زبانوں کا سہارا لیا اور نہ اب برقی صحافت کے موجودہ دور میں اپنی آواز اور مسائل کو حکومت اور عوام تک وسیع پیمانے پر پہنچانے کے لیے وہ اس طرف متوجہ ہیں- موجودہ ہندوستان میں مسلمانوں کے پاس نہ اپنا کوئی چینل ہے نہ انگریزی اور ہندی میں کوئی موٴثر اور کثیر الاشاعت اخبار- تعلیم کی کمی نے ان کی فکر کو اپنے روشن مستقبل سے بے نیاز کر رکھا ہے- دوسروں کے سہارے اپنی زندگی گزارتے گزارتے انہوں نے اپنی خود داری، عزت نفس اور قوت ارادی کو گروی رکھ دیا ہے-

۶- ۴۷ء کے بعد جتنی بھی حکومتیں آئیں انہوں نے مسلم صحافت یعنی اردو اخبارات کو عمداً نظرانداز کیا اور حکومتی سطح پر جس طرح کی مراعات اور سہولتیں دوسری زبانوں کی صحافت کو ملتی رہیں وہ مسلم صحافت کو نہیں مل سکی- اس صورت حال سے آج بھی مسلم صحافت دو چار ہے-

ان تمام اسباب و وجوہات کی بنیاد پر مسلم صحافت کی محدودیت کے باوجود کچھ اخبارات نے قومی اور ملی سطح پر نمایاں رول ادا کیا- ان میں روزنامہ قومی آواز دہلی و لکھنو، آزاد ہند کلکتہ، انقلاب ممبئی، سیاست حیدر آباد، منصف حیدرآباد، اخبار مشرق کلکتہ اوراردو ٹائمز ممبئی قابل ذکر ہیں، لیکن یہ تمام اخبارات جہاں جہاں سے نکل رہے تھے، ان ہی علاقوں اثر انداز تھے – قومی آواز کے علاوہ آج بھی یہ تمام اخبارات نکل رہے ہیں اور اپنے اپنے علاقوں میں مسلمانوں کی اردو ریڈرشپ کے درمیان بہت مقبول اور اثر انداز ہیں- ان کے درمیان ۷۰ء اور ۸۰ء کے دہے میں دو ایسے بھی اخبارات سامنے آئے جو اپنے اثرات اور ریڈرشپ کے اعتبار سے مذکورہ تمام اخباروں پر فوقیت لے گئے- ایک "نئی دنیا" اور دوسرا" اخبار نو"- اس کے تین اہم اسباب تھے: ایک تو یہ کہ یہ دونوں اخبارات ہفت روزہ تھے، جس کی وجہ سے پورے ملک میں پہنچتے تھے- دوسرا ان اخبارات میں مسلم مسائل کا تجزیہ اور ان پر تبصرہ خاص زاویے سے کیا جاتا تھا، جن میں وقتی جذباتیت، جوش وولولہ، احتجاج اور مظلومیت کا غلبہ رہتا تھا، تیسرا یہ کہ ۸۰ء اور ۹۰ء کے دہے میں مسلمانوں کے ایسے سیاسی اور سماجی مسائل سامنے آئے جن میں انہیں محسوس ہوا کہ ان کے مذہبی، سیاسی اور سماجی تشخصات اور وجود کو مٹانے کی کوششیں کی جارہی ہیں، وہ تھے، بابری مسجد کے تحفظ کا مسئلہ، شاہ بانو کیس میں مسلم پرسنل لاء کا تحفظ اور ہندو فرقہ واریت- اس عہد میں ان دونوں اخبارات نے آزاد ہندوستان میں مسلم صحافت کی تاریخ میں مقبولیت اور اثرات کا نیا ریکارڈ قائم کیا- لیکن مذکورہ مسائل جیسے جیسے سرد پڑتے گئے، مسلمانوں میں سیاسی اور فکری شعور بالغ ہوتا گیا اور اکیسویں صدی کے اختتام کے ساتھ ذرائع ابلاغ ایک نئے دور میں داخل ہوئی، اخبار نو اور نئی دنیا کی مقبولیت اور اثرات کا دائرہ سمٹتا چلا گیا-

جہاں تک روزناموں کی بات ہے تو اکیسویں صدی کے آغاز سے مذکورہ روزناموں نے انگریزی اور ہندی اخبارات کی طرز پر اپنے مشمولات کو زیادہ بامعنی اور چہروں کو رنگین بنالیا، لیکن یہ تبدیلیاں(اردو زبان کے انحطاط کی وجہ سے) ان کی مقبولیت میں بہت زیادہ اضافے کا باعث نہیں بن سکیں- اکیسویں صدی کے آغاز سے مسلم صحافت کے افق پر چند مزید روزناموں کا اضافہ بھی ہوا، تاہم ان کے سرکولیشن اور اثرات حوصلہ افزا نہیں ہیں-ان نئے اخبارات میں روزنامہ "راشٹریہ سہارا" دہلی استثنائی حیثیت کا حامل ہے، جو آزاد ہندوستان میں اپنی وسیع اشاعت، ملٹی ایڈیشنز اور مقبولیت کے اعتبار سے پہلا اخبار بن گیا ہے- حالانکہ یہ اخبار غیر مسلم کمپنی کی ملکیت میں ہے، لیکن مسلم صحافیوں کی زیر ادارت یہ مختلف شہروں سے اپنی تمام اشاعتوں میں جس طرح مسلمانوں کی حمایت و حق میں آواز بلند کرتا رہا ہے، محض مسلمانوں کی ملکیت نہ ہونے کی وجہ سے اسے مسلم صحافت کے زمرے سے خارج نہیں کیا جاسکتا ، بلکہ ملک گیر سطح پر اسے مسلمانوں کی آواز حق کا بڑا آرگن کہا جائے تو غلط نہ ہوگا-

 ۴۷ء کے بعد مسلم صحافت کے اس آخری دور میں اگر مذہبی صحافت کی بات کی جائے تو اس کی اشاعت و اثرات کو دیکھ کر بہت خوشی نہیں ہوتی- ۴۷ء سے قبل مذہبی صحافت کی جو داخلی اور خارجی صورت حال تھی، وہ ۴۷ء کے بعد مزید بگڑتی چلی گئی اور جو اہم مذہبی رسائل و جرائد تھے، وہ یا تو بند ہوگئے یا پھر تقسیم کے بعد پاکستان منتقل ہوگئے- وقت گزرنے کے ساتھ برصغیر کے مذہبی کینوس پر مسلکی تقسیم کا رنگ جب مزید گہرا ہوا تو مذہبی صحافت کا دائرہٴ اثر بھی بہت محدود ہوتا چلا گیا- اب ہمیں اگر مذہبی صحافت کی اشاعت، اثرات اور مشمولات کا جائزہ لینا ہو تو انہیں مسلکی خانوں میں تقسیم کر کے ہی لیا جاسکتا ہے- ۴۷ء کے بعد کی یہ تمام صورت حال کے باوجود اگر مذہبی صحافیوں نے اس کے داخلی عناصر پر توجہ دی ہوتی تو آج مذہبی صحافت کا رنگ ہی الگ ہوتا، کیوں کہ بقول شخصے دنیا میں دوہی چیزیں قابل فروخت ہیں، ایک جنسیات اور دوسری مذہبیات- دراصل انسان مجموعہ ہے جسم اور روح کا-اس کی جسمانی طلب کی انتہا اگر جنسی لذتوں کا حصول ہے تو روحانی تسکین کا ذریعہ مذہب-اس لیے مذہبی صحافت سے عوام کی عدم دلچسپی، اس کی محدود اشاعت، مختصر زندگی اور بے ثمری کا ٹھیکرا عوام اور صحافت کے "مذہبی عنوان" کے سر پھوڑنے کی بجائے اپنے رویوں پر غور کرنا چاہیے- اپنا محاسبہ انہیں یہ احساس ضرور دلائے گا کہ ہائی ٹیک ذرائع ابلاغ کی موجودہ صدی میں مذہبی رسائل کی پیش کش کا طریق کار کتنا پرانا ہے- سائنسی انقلاب کے ذریعے مادیت اور صارفیت کا جو سیلاب آیا ہے وہ مذہب، روحانیت اور انسانیت کو نگلنے کے لیے بے تاب ہے- جس سے معاشرے میں بے شمار جدید مسائل پیدا ہوگئے ہیں-ان جدید مسائل سے منہ پھیر کر مذہبی صحافت کے لیے جن موضوعات کا انتخاب کیا جارہا ہے، وہ کتنا غیر مفید اور بے فیض ہے-موجودہ صدی میں صحافت کو موٴثر ترین بنانے کے لیے ترسیل کی زبان کو دلچسپ، معروضی اور عام فہم بنانے کی کوشش تیز تر ہوتی جارہی ہے، جب کہ مذہبی صحافت کا اسلوب کتنا پیچیدہ اور فہم سے بالا تر ہے- مسلمانوں کی معاشی، تعلیمی اور سماجی مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے دور جاہلیت کے قبائل کی طرح فروعی مسائل پر طویل جنگ و جدال ان پر مستزاد-

مذہبی صحافت کے مذکورہ تمام مسائل کے ساتھ مسلمانوں کے مختلف مکاتب فکر میں کچھ رسائل ایسے بھی نکلے جو معاصر مذہبی رسائل میں اپنی تحریری، فکری اور علمی انفرادیت کی وجہ سے اپنے اپنے حلقوں میں مقبول ہوئے- ان میں اہل سنت و جماعت کا پندرہ روزہ "جام کوثر" کلکتہ ، ماہنامہ "جام نور" کلکتہ، ماہنامہ "پاسبان" الٰہ آباد اور ان کے بعد ماہنامہ "حجاز جدید" دہلی(۱۹۸۸ء) قابل ذکر ہیں-اول الذکر دونوں رسائل علامہ ارشدالقادری(۱۹۲۵ء/۲۰۰۲ء) کی زیر ادارت ۶۱/۱۹۶۰ء میں نکلے اور تین چار سالوں میں بند ہوگئے- اپنے مختصر عہد میں یہ دونوں رسائل اپنے مدیر کے اسلوب تحریر اور انداز فکر کی وجہ سے بے حد مقبول ہوئے- اسی طرح دیوبندی مکتب فکر کا "الجمعیة" دہلی اور ماہنامہ "تجلی" دیوبند-جماعت اسلامی کا سہ روزہ "دعوت" دہلی اور مولانا وحید الدین خان کا "الرسالہ" دہلی مذہبی معاصر رسائل و اخبارات میں نمایاں رہے-

 اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ صحافت خواہ وہ سیاسی ہو، ملی یا مذہبی، اپنے آپ میں کشش اور اثر اندازی کی صلاحیت رکھتی ہے-اس کے ذریعے وسیع پیمانے پر ذہن سازی، فکری تعمیر و ترقی، دعوت و تبلیغ اور اصلاحات کا ناقابل تنسیخ نقش معاشرے میں قائم کیا جاسکتا ہے- شرط یہ ہے کہ صحافت کو جبری اصول و نظام کی بجائے اس کے اپنے اصول اور تقاضوں کے تحت چلایا جائے-

ولی اللّٰہی سلسلہ کے مدارس و جامعات


علمائے اہل حدیث کی تدریسی خدمات

جناب عبدالرشيد عراقى حفظہ اللہ


عموماً دونظام ہائے تعلیم کو مسلمانانِ برصغیر کے تعلیمی رجحانات کی بنیاد بنایا جاتا ہے، ایک مدرسہ علی گڑھ اور دوسرا دار العلوم دیوبند۔ انہی کے حوالے سے آگے تعلیمی اور فکری ارتقا کی بحث کی جاتی ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ دینی مدارس اور سکول وکالج کا یہی نقطہ آغاز تھا۔ جبکہ تاریخی طور پر یہ بات درست نہیں ، مدرسہ علی گڑھ تو مسلمانوں میں انگریز سرکار کی وفاداری اور بدیسی تہذیب سے مرعوبیت کی طرف ایک نمایاں قدم کہا جاسکتا ہے،جس کا تصور اس سے قبل مسلمانوں میں نہیں ملتا لیکن مدارسِ دینیہ کا نقطہ آغاز دار العلوم دیوبند کو قرار دینا علمی خیانت کے مترادف ہے ۔کیونکہ اس سے قبل بھی مسلمانوں کے روایتی دینی مدارس کا سلسلہ قدیم سے چلا آرہا تھا، شاہ ولی اللہ دہلوی
اور ان کے خانوادے نے جو تدریسی اصلاحی خدمات انجام دیں، وہ بھی دار العلوم دیوبند سے دو صدیاں تو پرانی ہیں ہی۔
یعنی اس تاریخی تذکرے میں اس فکری اصلاح کو عمداً نظر انداز کیا جاتا ہے جو جمود وتقلید کے خلاف شاہ ولی اللہ
نے چلائی اور اجتہاد کے احیا کے ساتھ سنت کی طرف رجوع وغیرہ کے رجحانات اس میں پیدا کئے۔ اسی فکری تحریک نے مدرسہٴ دیوبند اور دیگر روایتی مدارس میں حدیث ِنبوی کی طرف توجہ اور اہتمام کو فروغ دیا۔ خلاصہ یہ کہ فکری طور پر اگر علی گڑھ کی تحریک الحاد وتجدد کی داعی تھی تو دار العلوم دیوبند یک سالہ دورئہ حدیث کے باوجود مخصوص فقہ حنفی کی تنگ نائیوں سے باہر نہ آسکا۔ان دونوں انتہائی نکتہ ہائے نظر (تقلید والحاد)کے مابین راہِ اعتدال (اجتہاد) کی علمبردار تحریک ِاہل حدیث بھی تھی، جس کے تدریسی ادارہ جات کے تعارف کے لیے درج ذیل مضمون ہدیہٴ قارئین ہے۔

ماہنامہ 'محدث' لاہور کی جنوری ۲۰۰۲ء کی اشاعت پیش نظر ہے جس میں مولانا زاہد الراشدی کا مضمون بعنوان 'دینی مدارس او ر بنیاد پرستی 'شائع ہواہے، صفحہ ۴۵ پر مولانا زاہد الراشدی لکھتے ہیں:
"نئے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیمی ضروریات کے دو حصوں میں تقسیم ہوجانے کے بعد اہل دانش نے مستقبل کی طرف توجہ دی، سرسید احمدخان نے ایک محاذسنبھال لیا اور دفتری و عدالتی نظام میں مسلمانوں کو شریک رکھنے کے لئے انگریزی تعلیم کی ترویج کو اپنا مشن بنایا جبکہ دینی و قومی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے دینی تعلیم کا محاذ فطری طور پر علماء کرام کے حصہ میں آیا اور اس سلسلہ میں سبقت اور پیش قدمی کا اعزاز مولانامحمد قاسم نانوتوی
اور ان کے رفقا کا حاصل ہوا۔

سوال یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند کا قیام ۱۲۸۳ھ/۱۸۶۶ء میں عمل میں آیا اور اس سے ۲۵ سال پہلے مولانا سید محمدنذیر حسین دہلوی
سرخیل اہل حدیث، مسجد ِاورنگ آبادی، دہلی میں ۱۲۵۸ھ/۱۸۴۲ء میں قائم کرکے تدریس فرما رہے تھے تو مولانا محمد قاسم نانوتوی اور ان کے رفقا کو سبقت کیسے حاصل ہوگئی؟؟؟

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی
کے والد محترم حضرت شاہ عبدالرحیم
نے ۱۰۷۰ھ/۱۶۶۰ء میں دہلی میں مدرسہ رحیمیہ کی بنیاد رکھی۔ جس میں آپ اپنی وفات ۱۱۳۱ھ/۱۷۱۹ء تک تدریس فرماتے رہے۔ حضرت شاہ عبدالرحیم کے بعد ان کے فرزند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی
اپنے انتقال ۱۱۷۶ھ/۱۷۶۲ء تک مدرسہ رحیمیہ میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ
کے بعد ان کے صاحبزادگان حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی، حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی، حضرت شاہ عبدالقادر دہلوی
اور حضرت شاہ عبدالغنی دہلوی
نے 'مدرسہ رحیمیہ' دہلی میں تدریس فرمائی۔ ان چاروں بھائیوں میں سب سے آخر میں حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی
نے ۱۲۳۹ھ/۱۸۲۴ء میں وفات پائی۔

حضرت شاہ عبدالعزیز دہلویکے انتقال کے بعد ان کے نواسہ حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی
کا فیضان جاری ہوا جو ۱۲۵۸ھ/۱۸۴۲ء تک دہلی میں تدریس فرماتے رہے۔ ۱۲۵۸ھ/ ۱۸۴۲ میں حضرت شاہ محمداسحاق دہلوی
نے مکہ معظمہ ہجرت کی اور ۱۲۶۲ھ/۱۸۴۶ء میں مکہ معظمہ میں انتقال کیا۔
حضرت شاہ محمداسحاق دہلوی
کے مکہ معظمہ ہجرت کرنے کے بعد ان کے جانشین# شیخ الکل فی الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث
دہلوی (م۱۳۲۰ھ/۱۹۰۲ء) ہوئے جو ۶۲ سال تک دہلی میں کتاب و سنت کی تعلیم دیتے رہے اور اس عرصہ میں ہزاروں طلباء ان سے مستفید ہوئے۔

مدرسہ عربیہ، دیوبندکا قیام
مدرسہ عربیہ، دیوبند کا قیام ۱۲۸۳ھ/۱۸۶۶ء کو عمل میں آیا، سید محبوب رضی اپنی کتاب 'تاریخ دیوبند' میں لکھتے ہیں کہ
"۱۵/ محرم الحرام ۱۲۸۳ھ/۳۰مئی ۱۸۶۶ء بروز پنج شنبہ… ہندوستان کے مسلمانوں کی تاریخ کا وہ مبارک و مسعود دن تھا جس میں مدارسِ دینیہ کے سابقہ طریق کے بجائے بالکل ایک نئے انداز سے دارالعلوم دیوبند کا آغازہوا۔" (تاریخ دیوبند : ص۳۱۷، طبع دیوبند ۱۹۷۲ء )
مشہور دیو بندی عالم مولانا سید اصغر حسین صاحب لکھتے ہیں :
"دیوبند میں خدا تعالیٰ کے مقبول اور سراپا اخلاص بندوں کی تجویز سے ۱۵/ محرم ۱۲۸۳ھ کوایک عربی مدرسہ کا اجرا ہوا۔" (حیات شیخ الہند طبع دیوبند۱۹۴۸ء ص ۹)

مدرسہ میاں سید نذیر حسین دہلوی (پھاٹک حبش خاں)
حضرت میاں سید محمدنذیر حسین دہلوی نے ۱۲۵۸ھ/۱۸۴۲ء کو دہلی میں تدریس کا آغاز کردیاتھا اور مدرسہ دیوبند ۱۲۸۳ھ/۱۸۶۶ء میں قائم ہوا۔ یعنی مدرسہ دیوبند کے قیام سے ۲۵ سال پہلے دہلی میں اہل حدیث کا مدرسہ قائم ہوچکاتھا ۔


دہلی کے دوسرے اہل حدیث مدارس:



حضرت میاں کے مدرسہ کے ساتھ ساتھ دہلی میں مدرسہ حاجی علی جان، مدرسہ سبل السلام واقع مسجد پھاٹک حبش خان، مدرسہ دارالسلام واقع مسجد صدر بازار دہلی، مدرسہ سعیدیہ عربیہ واقع مسجد پل بنگش دہلی، مدرسہ ریاض العلوم دہلی اور مدرسہ زبیدیہ واقع محلہ نواب گنج، مدرسہ فیاضیہ اور مدرسہ محمدیہ اجمیری دروازہ دہلی میں اپنے اپنے حلقے میں کام کررہے تھے۔

دیگر مدارس :
برصغیر (پاک و ہند) میں علماے اہل حدیث نے دینی مدارس اور جامعات کا ایک جال بچھا دیا تھا اور ان مدارس نے دینی علوم و فنون کی اشاعت میں ایک بھرپور کردار ادا کیا۔ بحمداللہ آج بھی اہل حدیث مدارس قائم و دائم ہیں اور کتاب و سنت کی تعلیم میں سرگرمِ عمل ہیں اور ان کی علمی رِفعت مسلم ہے۔

ہرگز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بعشق 
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما

مدرسہ احمدیہ، آرہ
اس مدرسہ کی بنیاد حضرت شیخ الکل سید نذیر حسین دہلوی
کے تلمیذ ِرشید مولانا حافظ ابراہیم آروی (م۱۳۱۹ھ/۱۹۰۲ء) نے ۱۳۰۵ھ/۱۸۸۸ء میں رکھی۔ علامہ سید سلیمان ندوی (م ۱۹۵۳ء) مولاناحافظ ابراہیم آروی
کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
"مولوی سید محمدنذیر حسین دہلوی
کے شاگردوں میں حافظ ابراہیم آروی خاص حیثیت رکھتے تھے وہ نہایت خوشگوار اور پردرد واعظ تھے۔ وعظ کہتے تو خود روتے اور دوسروں کو رُلاتے۔ نئی باتوں میں اچھی باتوں کو پہلے قبول کرتے۔ چنانچہ نئے طرز پر انجمن علما اور عربی مدرسہ اور اس میں دارالاقامہ کی بنیاد کا خیال انہی کے دل میں آیا۔ انہی نے ۱۸۸۸ء/۱۳۰۵ھ میں مدرسہ احمدیہ کے نام سے ایک مدرسہ آرہ میں قائم کیا اور اس کے لئے مذاکرئہ علمیہ کے نام سے ایک مجلس بنائی جس کا سال بہ سال جلسہ آرہ میں ہوتا۔" (حیاتِ شبلی: ص ۳۸۲)
سید صاحب تراجم علمائے حدیث ہند مؤلفہ مولوی ابویحییٰ امام خان نوشہروی
کے مقدمہ میں لکھتے ہیں
"مولانا سید نذیر حسین دہلوی کی درسگاہ کے ایک مولانا ابراہیم صاحب آروی
تھے، جنہوں نے سب سے عربی تعلیم اور عربی مدارس میں اصلاح کا خیال قائم کیا اور مدرسہ احمدیہ کی بنیاد ڈالی ۔" (تراجم علمائے حدیث ہند ص ۳۶)
مولوی ابویحییٰ امام خان نوشہروی (۱۹۶۶ء) لکھتے ہیں:
"مدرسہ احمدیہ آرہ اپنے عہد میں اہل حدیث بہار کی یونیورسٹی تھی، جس میں تمام حصص ملک کے طلبا حاضر رہے۔" ( ہندوستان میں اہل حدیث کی علمی خدمات ص۱۴۹)
اس مدرسہ کی عظمت کا اندازہ اس کے اساتذہ و شیوخ سے لگ سکتا ہے:
مولانا حافظ ابراہیم آروی، مولانا محمد سعید بنارسی، مولانا حافظ عبداللہ غازیپوری،مولانا محمد اسحاق ظفر غازی پوری، مولانا عبدالقادر مئوی، اور مولانا سید نذیر الدین احمدبنارسی
وغیرہم نے مدرسہ احمدیہ آرہ میں وقتا ً فوقتاً تدریسی خدمات انجام دیں۔ اور اس مدرسہ سے جو علما مستفیض ہوئے، وہ خود بعد میں مسند تدریس پر فائز ہوئے مثلاً مولانا شاہ عین الحق پھلواروی، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری
صاحب تحفة الاحوذی مولانا عبدالسلام مبارکپوری
صاحب ِسیرة البخاری، مولانا عبدالغفور حاجی پوری، اور مولانا ابوبکر محمد شیث جون پوری
صدر شعبہ علومِ دینیہ، مسلم یونیورسٹی وغیرہم۔

مدرسہ احمدیہ سلفیہ، دربھنگہ
دربھنگہ صوبہ بہار کاایک مشہور شہر ہے۔ اس کے محلہ لہریا سرائے میں مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی (م۱۳۳۶ھ/۱۹۱۸ء) جو حضرت میاں صاحب دہلوی کے شاگرد تھے۔ بڑے سرگرم واعظ اور بے نظیر مناظر تھے، نے اس مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ اس مدرسہ میں مولانا رحیم آبادی کے علاوہ مولانا عبدالجلیل مظفر پوری
اور مولانا عین الحق دربھنگوی
تدریس فرماتے رہے۔
مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی
اس مدرسہ کے شیخ الحدیث اور مہتمم تھے۔ ان کے انتقال کے بعد ڈاکٹر سید محمد باقر
اس مدرسہ کے نگران مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر سید محمد باقر اپنے علاقے کی نامور شخصیت تھے، بہار اسمبلی کے ممبر بھی رہے۔ ڈاکٹر صاحب کے دورِ نظامت میں اس مدرسہ نے بڑی ترقی کی، ان کے انتقال کے بعد ان کے فرزند ڈاکٹر سید عبدالحفیظ
اس مدرسہ کے مہتمم و نگران مقرر ہوئے۔ ان کے دور میں بھی مدرسہ ترقی کی طرف گامزن رہا۔ یہ مدرسہ آج بھی کتاب و سنت کی اشاعت میں سرگرمِ عمل ہے۔ ڈاکٹر سید عبدالحفیظ کا انتقال ہوچکا ہے۔ صوبہ بہار کے اکثر علماء اہل حدیث اسی مدرسہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ مدرسہ احمدیہ سلفیہ، دربھنگہ کے علاوہ صوبہ بہار کے اکثر شہروں میں اہل حدیث مدارس قائم ہیں۔
مظفر پور (بہار) میں مولانا عبدالنور مرحوم جو حضرت میاں صاحب دہلوی
کے شاگرد تھے، ۱۹۲۵ء میں دارالتکميل کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا۔ اس مدرسہ کے علاوہ مظفر پور میں دو اور مدرسے مدرسہ احمدیہ اور جامع العلوم تھے۔

جامعہ ازہر
یہ مدرسہ مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی (م۱۳۲۹ھ/۱۹۱۱ء ) صاحب ِعون المعبود علیٰ سنن ابی داؤد کے خلف ِاکبر مولانا محمد ادریس ڈیانوی(م۱۳۸۱ھ/۱۹۶۱ء) نے قائم کیا تھا اور یہ مدرسہ ۱۳۴۰ھ/۱۹۲۲ء میں قائم ہوا اور ۱۹۴۷ء تک کتاب وسنت کی شمع روشن کرتا رہا۔ تقسیم ملک پر حکیم محمد ادریس ڈیانوی
ہجرت کرکے ڈھاکہ چلے گئے اور یہ مدرسہ ختم ہوگیا۔

جامعہ عربیہ دارالعلوم، عمر آباد (مدراس)
یہ مدرسہ حاجی محمد عمر مرحوم نے قائم کیا تھا اور اب تک کتاب و سنت کی اشاعت میں سرگرم عمل ہے اس مدرسہ کے فارغ التحصیل 'عمری' کہلاتے ہیں۔حضرت العلام مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی (م۱۹۸۵ء) اس مدرسہ میں چار سال تک تدریس فرماتے رہے۔ مولانا علم الدین سوہدروی مرحوم بھی حضرت محدث گوندلوی مرحوم کے ساتھ مدراس گئے تھے۔ اور تقریباً ۲ سال تک وہاں تعلیم حاصل کرتے رہے۔ افضل العلما مولانا محمد یوسف کو کن
مصنف ِ'امام ابن تیمیہ
' اسی مدرسہ کے فارغ التحصیل تھے۔

جامعہ محمدیہ عربیہ، رائدرک (مدراس)
جنوبی ہند میں ایک عظیم الشان مدرسہ ہے اور تقریباً ۳۵ سال سے دینی خدمات بجا لانے میں مصروف ہے۔ جنوبی ہند میں کتاب و سنت کی تعلیمات عام کرنے اور مسلک ِاہل حدیث کی اشاعت میں اس کا تاریخی کردار مسلم ہے۔

بنارس کے مدارس


بنارس صوبہ یو پی (اتر پردیش) کا مشہور شہر ہے اور ہندوؤں کا ایک متبرک مقام ہے۔ ہندو یونیورسٹی بھی بنارس میں ہے۔ بنارس میں مسلک ِاہل حدیث کے کئی ایک مدارس تھے جن کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے :

تدریس
۱۲۷۵ھ/۱۸۵۸ء میں مولانا سید جلال الدین احمدجعفری ہاشمی
(م۱۲۷۹ھ/۱۸۶۲ء)نے قائم کیا تھا اور یہ مدرسہ دارالعلوم دیو بند سے چار سال قبل قائم ہوا۔ اس مدرسہ میں مولانا جلال الدین احمد
کے علاوہ ان کے صاحبزادگان مولانا سعید الدین احمد جعفری ہاشمی (م۱۲۹۳ھ/۱۸۷۶ء) مولانا سید مجیدالدین احمد جعفری ہاشمی
(م۱۲۹۸ھ/۱۸۷۸ء)، مولانا سید حمیدالدین احمد جعفری ہاشمی (م۱۳۰۸ھ/۱۸۹۰ء)، مولانا سید شہید الدین احمد جعفری ہاشمی
(م۱۳۳۷ھ/۱۹۱۸ء) اور مولانا سید عبدالکبیر بہاری
(م۱۳۳۱ھ/۱۹۱۳ء) تدریس فرماتے رہے … اس مدرسہ کے دورِ ثانی میں مولانا سید نذیر الدین احمد جعفری ہاشمی
بن مولانا سید حمید الدین احمد جعفری ہاشمی
(م۱۳۵۲ھ/۱۹۳۳ء) اور مولانا سید بشیر الدین احمد جعفری ہاشمی
بن مولانا سید شہید الدین احمد جعفری ہاشمی
(م۱۳۵۸ھ/۱۹۳۹ء) تدریسی خدمات انجام دیتے رہے … دورِ ثالث میں اس مدرسہ میں مولانا ابوالقاسم بنارسی
(م۱۳۶۹ھ/۱۹۴۹ء) اور مولانا حکیم عبدالمجید
اور مولانا عبدالآخر بنارسی
نے تدریسی خدمات انجام دیں۔

مدرسہ مصباح الہدیٰ (جامعہ رحمانیہ) محلہ مدن پورہ، بنارس
یہ مدرسہ حافظ عبدالرحمن مرحوم ساکن بنارس نے ۱۳۱۵ھ/۱۸۹۸ء میں قائم کیا تھا۔ اس مدرسہ کے صدر مدرّس مولانا محمد منیرخان مرحوم تھے۔ جو مولانا احمدعلی سہارنپوری
محشّی صحیح بخاری (م۱۲۹۸ھ/۱۸۸۱ء) مولانا محمد سعید بنارسی(م۱۳۲۲ھ/۱۹۰۴ء) اور شیخ ا لکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی (م۱۳۲۰ھ/۱۹۰۲ء) سے مستفیض تھے، یہ مدرسہ اب بھی جاری ہے۔

مدرسہ سعیدیہ، بنارس
یہ مدرسہ مولانا محمد سعید محدث بنارسی (م۱۳۲۲ھ/۱۹۰۴ء) نے ۱۲۹۷ھ/۱۸۸۰ء میں قائم کیا تھا۔ مولانا محمد سعید بنارسی، حضرت حافظ عبداللہ غازیپوری
(م۱۲۳۷ھ/۱۹۲۰ء) مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی

اور علامہ حسین بن محسن انصاری یمانی
(م۱۳۲۷ھ/۱۹۰۹ء) سے مستفیض تھے۔ مولانا محمد سعید بنارسی کے بعد مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی
(م۱۳۶۹ھ/۱۹۴۹ء ) اور مولانا سید نذیر الدین احمد جعفری ہاشمی
بھی تدریس فرماتے رہے۔
اس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والوں میں مولانا محمد سعید بنارسی
کے صاحبزادگان مولانا ابومسعود قمر بنارسی، مولانا قاری احمد سعید بنارسی، مولانا عبدالآخر بنارسی
اور دوسرے بے شمار حضرات تھے۔

جامعہ سلفیہ، بنارس
اس وقت ہندوستان میں اہل حدیث مدارس میں اس مدرسہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔اس مدرسہ کے پہلے شیخ الحدیث مولانا نذیراحمد دہلوی رحمانی
تھے۔ جو املو ضلع اعظم گڑھ کے باسی تھے اور عراقی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ۱۹۶۵ء/۱۳۱۵ھ میں انتقال کیا۔ مولانا نذیراحمد رحمانی کے بعد مولانا عبدالواحد رحمانی مرحوم بھی اس مدرسہ کے صدر مدرّس رہے۔ ڈاکٹر مقتدیٰ حسن ازہری جنہوں نے مولانا قاضی محمد سلیمان منصور پوری (م۱۹۳۰ء/۱۳۴۹ھ) کی مشہور زمانہ کتاب 'رحمة للعالمین ' کا عربی میں ترجمہ کیا ہے اور اس کے علاوہ مولانا محمد اسماعیل سلفی
(م ۱۹۶۸ء/۱۳۸۷ھ) کی چار کتابوں… مسئلہ حیات النبی ، تحریک آزادیٴ فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی، زیارة القبور اور اسلامی حکومت کے ضروری اجزا … کا بھی عربی میں ترجمہ کیا ہے، اس جامعہ کے وکیل (نائب مہتمم)ہیں۔
جامعہ سلفیہ بنارس کا اپنا پریس ہے۔ اس وقت تک تقریباً دو سو سے زیادہ عربی اور اُردو میں کتابیں شائع کرچکا ہے اور اس کے دو ماہوار علمی رسالے ماہنامہ'محدث' بنارس اردو میں اور عربی میں 'صوت الامہ' شائع ہوتا ہے۔
مولانا صفی الرحمن مبارکپوری مصنف 'الرحیق المختوم' اس مدرسہ میں مدرّس رہے ہیں۔ مولانا محمد مستقیم سلفی مصنف 'جماعت ِاہل حدیث کی تصنیفی خدمات' اسی مدرسہ میں حدیث کے استاد ہیں۔ جامعہ سلفیہ بنارس نے اس وقت ہندوستان میں دارالعلوم ندوة العلما، لکھنوٴ، اور دارالعلوم دیوبند کی برابری کا مقام حاصل کرلیا ہے۔

مدرسہ دارالکتاب والسنة، دہلی
یہ مدرسہ مولانا عبدالوہاب ملتانی (م۱۳۵۱ھ/۱۹۳۲ء)نے صدر بازار، دہلی میں قائم کیا تھا اور یہ مدرسہ اب تک کتاب و سنت کی شمع روشن کئے ہوئے ہے۔ اس مدرسہ کے شیخ الحدیث مولانا عبدالوہاب دہلوی
تھے۔ اس مدرسہ سے جلیل القدر علما مستفیض ہوئے مثلاً مولانا عبدالستار دہلوی، خطیب ِہند مولانا محمد جونا گڑھی
ایڈیٹر اخبارِ محمدی دہلی، اور مولانا محمدسورتی
وغیرہم۔

مدرسہ چشمہ رحمت، غازی پور
یہ مدرسہ مولانا رحمت اللہ فرنگی محلّی
(م۱۳۰۵ھ/۱۸۸۸ء) نے قائم کیا تھا۔ مولانا رحمت اللہ، حنفی المسلک تھے۔ مولانا حافظ عبداللہ غازی پوری
نے اپنی تعلیم کا آغاز اس مدرسہ سے کیا تھا اور اس مدرسہ میں آپ نے مولانا رحمت اللہ
کے علاوہ مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی
(م ۱۳۲۷ھ/۱۹۰۹ء) سے استفادہ کیا تھا۔ ۱۲۹۷ھ/۱۸۸۰ء میں محدث غازی پوری حج بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئے اور وہاں شیخ عباس یمنی
تلمیذ امام محمدبن علی شوکانی

سے حدیث کی سند واجازہ حاصل کی اور حجاز سے واپسی کے بعد محدث غازیپوری
نے اس مدرسہ میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا چنانچہ یہ مدرسہ مسلک ِاہل حدیث پر کاربند ہوگیا۔
حافظ عبداللہ غازی پورینے اس مدرسہ میں سات سال تک (یعنی ۱۳۰۴ھ/۱۸۸۶ء تک) حدیث رسول اللہ کا درس دیا۔ اس کے بعد آپ مولانا حافظ ابراہیم آروی
کی دعوت پر مدرسہٴ احمدیہ، آرہ تشریف لے گئے۔ وہاں آپ نے ۲۰ سال تک یعنی ۱۳۲۷ھ تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ اس کے بعد آپ دہلی تشریف لے آئے اور دہلی میں آپ نے مدرسہ حاجی علی جان اور مدرسہ ریاض العلوم میں درس و افادہ کا بازار گرم رکھا اور سینکڑوں طلبا کو علمی فیوض سے بہرہ ور کیا۔آپ کے مشہور تلامذہ یہ ہیں:
مولانا محمد سعید بنارسی، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری
صاحب ِتحفة الاحوذی، مولانا شاہ عین الحق پھلواروی، مولانا عبدالسلام مبارکپوری
صاحب ِسیرة البخاری، مولانا محمد اکبر شیث جونپوری، مولانا سید محمد داؤد غزنوی، شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی (گوجرانوالہ) وغیرہم

دارالحدیث رحمانیہ، دہلی
اس کے قیام کا پس منظر یہ ہے کہ امیرالمجاہدین صوفی محمد عبداللہ وزیرآبادی (م۱۹۷۵ء/۱۳۹۵ھ) دیوبند تشریف لے گئے۔ جب آپ مدرسہ دیوبند میں پہنچے تو مولانا محمد انورشاہ کشمیری (م۱۹۳۲ء/۱۲۵۱ھ) حدیث کا درس دے رہے تھے۔ حضرت صوفی صاحب مرحوم بھی شاہ صاحب کے درس میں بیٹھ گئے۔ جب شاہ صاحب درس سے فارغ ہوئے تو صوفی صاحب نے شاہ صاحب سے فرمایا:
"آپ حدیث کا درس دے رہے تھے یا حدیث پر تنقید فرما رہے تھے، آپ کا سارا درس حدیث پر تنقید اور تردید پر مشتمل تھا۔"
طلباء حضرت صوفی صاحب کی اس بات کو برداشت نہ کرسکے اور ان کے ساتھ گستاخی پراتر آئے۔ حضرت شاہ صاحب مرحوم صوفی صاحب
کے نام اور کام سے واقف تھے۔ آپ نے طلبا کو سختی سے منع کیا۔ اس کے بعد صوفی محمد عبداللہ، مولانا عبدالعزیز رحیم آبادیکے پاس تشریف لے گئے اور ان کو دیوبند کے واقعہ سے مطلع کیا اور ان کی خدمت میں عرض کیا کہ اہل حدیث جماعت کو بھی ایک مدرسہ قائم کرنا چاہئے۔ مولانا رحیم آبادی نے صوفی صاحب سے اس بات پر اتفاق کیا۔ شیخ عبدالرحمن اورشیخ عطاء الرحمن دونوں بھائی دہلی کے بڑے تجار میں شمار ہوتے تھے اور مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی
سے ان دونوں بھائیوں کے دیرینہ مراسم تھے۔ چنانچہ مولانا رحیم آبادی نے دہلی جاکر شیخ برادران سے دیوبند کا واقعہ بیان کیا اور انہیں تحریک دی کہ دہلی میں آپ ایک مثالی مدرسہ قائم کریں۔
چنانچہ شیخ عبد الرحمن اور شیخ عطاء الرحمن نے مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کی تحریک پر ۱۳۲۹ھ/۱۹۱۱ء میں 'دارالحدیث رحمانیہ' کے نام سے ایک دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی اور باڑہ بند وارڈ میں ایک عظیم الشان عمارت تعمیر کرائی۔ ہوسٹل (دارالاقامہ) علیحدہ تعمیر کرایا اور اس مدرسہ کا سارا انتظام اور طلباکی خوراک وغیرہ کا انتظام بھی اپنے ذمہ لیا۔ یہ مدرسہ ۱۹۴۷ء تک کتاب و سنت کی اشاعت میں سرگرمِ عمل رہا۔
اس مدرسہ کے اولین اساتذہ یہ مقرر ہوئے: مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی،
مولانا احمد اللہ پرتاب گڑھی، مولانا غلام یحییٰ کانپوری
اور مولانا عبدالرحمن نگر نہسوی۔ اس کے بعد اس مدرسہ میں مولانا حافظ محمدمحدث گوندلوی، مولانا عبدالسلام مبارکپوری، مولانا عبید اللہ رحمانی، مولانا نذیر احمد رحمانی
اور مولانا شیخ محمد عبدہ
الفلاح
جیسے نابغہ روز گار علما نے تدریسی خدمات انجام دیں۔
مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی (م۱۹۶۴ء/۱۳۶۴ھ) اس کے اوّلین ممتحن اور مدیر تعلیم مقرر ہوئے اور اس مدرسہ کے آخری وجود ، قیامِ پاکستان تک اس منصب پر فائز رہے۔
اس مدرسہ کے فارغ التحصیل طلبا اپنے نام کے ساتھ 'رحمانی' لکھتے ہیں۔ اس مدرسہ کی ایک بہت لائبریری بھی تھی اور دارالحدیث رحمانیہ کا ایک ماہوار آرگن 'محدث' کے نام سے شائع ہوتا تھا۔ جس کا سالانہ چندہ صرف چار آنے تھا۔ ۱۹۴۷ء کے فسادات میں یہ مدرسہ ختم ہوگیا۔ شیخ عطاء الرحمن
کے صاحبزادے شیخ عبدالوہاب
دارالحدیث کی لائبریری بنارس میں 'جامعہ سلفیہ' کے حوالہ کرکے کراچی آگئے۔

ضلع اعظم گڑھ کے اہل حدیث مدارس



اعظم گڑھ صوبہ یو پی (اتر پردیش) کا ایک مشہور شہر ہے، اس کو ضلع کی حیثیت حاصل ہے۔ اس ضلع میں بڑے بڑے نامور علمائے کرام پیدا ہوئے۔ بقولِ اقبال سہیل:

اس خطہ اعظم گڑھ پہ مگر فیضانِ تجلی ہے یکسر
جو ذرّہ یہاں سے اُٹھتا ہے وہ نیر اعظم ہوتا ہے !


مولانا شاہ ابواسحق بھیروی (م۱۲۳۴ھ)، مولانا حفیظ اللہ ہندوی (م ۱۳۶۴ھ)، مولانا سلامت اللہ جے راجپوری (م۱۳۲۲ھ)، علامہ شبلی نعمانی
(م۱۳۳۲ھ)، مولانا عبدالرحمن مبارکپوری
(م ۱۳۵۳ھ)، مولانا عبدالسلام مبارکپوری(م۱۳۴۲ھ)، مولانا فیض اللہ مئوی (م۱۳۱۶ھ)، مولانا ابوالمکارم محمد علی مئوی (م۱۳۵۱ھ)، مولانا محمد فاروق چڑیا کوٹی
(م۱۳۲۷ھ)، مولانا نذیر احمد دہلوی
(۱۳۸۵ھ) اور مولانا قاضی اطہر مبارکپوری
(م۱۴۱۶ھ) کا تعلق ضلع اعظم گڑھ سے تھا۔

اعظم گڑھ اور اس کے گرد و نواح میں اہل حدیث کے جو مدارس تھے، اس کی تفصیل درج ذیل ہے:

دارالحدیث، اعظم گڑھ
یہ مدرسہ مولانا فیض اللہ مئوی
(م۱۳۱۶ھ) نے قائم کیا تھا۔ آپ کے ساتھ دوسرے مدرّس مولانا محمد شکراللہ
(م۱۳۱۵ھ) تھے۔ اس مدرسہ سے جونامور علما فارغ ہوئے، ان کے نام یہ ہیں:
ملا حسام الدین مئوی
(م۱۳۱۰ھ)، مولانا عبدالغفور رانا پوری
(م۱۳۰۰ھ)، مولانا حافظ عبدالرحیم مبارکپوری
(م۱۳۲۰ھ)، مولانا خدا بخش اعظم گڑھی
(۱۳۳۳ھ) اور مولانا ابوالمعالی محمدعلی مئوی (م۱۳۵۳ھ)

مدرسہ دارالسنة، اعظم گڑھ
یہ مدرسہ مولانا سلامت اللہ جے راجپوری (م۱۳۲۲ھ) نے قائم کیا تھا۔ مولانا سلامت اللہ علمائے اَعلام سے تھے۔ شیخ الکل مولانا سید محمد نذیرحسین محدث دہلوی (م۱۳۲۰ھ) کے تلمیذ ِخاص تھے۔ اعظم گڑھ کے علاوہ مختلف اہل حدیث مدارس مثلاً بنارس، جونپور، غازی پور اور گونڈہ میں تدریس فرماتے رہے۔ محی السنہ نواب سید صدیق حسن خاں (م۱۳۰۷ھ) کے عہد میں بھوپال میں دینی مدارس کے افسر اعلیٰ بھی رہے۔ شمس العلما مولانا حفیظ اللہ ندوی
پرنسپل ندوة العلما، لکھنوٴ اسی مدرسہ کے فارغ التحصیل تھے۔

مدرسہٴ مبارکپور
یہ مدرسہ مولانا حافظ عبدالرحیم مبارکپوری (م۱۳۲۰ھ) نے قائم کیا تھا۔ آپ کے زمانہ میں علاقہ میں حافظ ِقرآن نہ تھے۔ آپ نے اپنی توجہ سے لاتعداد لوگوں کو حافظ ِقرآن کردیا اور علوم بھی پڑھائے۔ حافظ عبدالرحیم
کے انتقال کے بعد آپ کے صاحبزادہ مولانا عبدالرحمن مبارکپوری
صاحب ِتحفة الاحوذی (م۱۳۵۳ھ) اس مدرسہ کے نگران و مہتمم مقرر ہوئے، اور انہوں نے باقاعدہ علومِ اسلامیہ کی تدریس کا آغاز کیا۔ مولانا مبارکپوری سے اس مدرسہ میں جن علما نے استفادہ کیا، ان میں مولانا عبدالسلام مبارکپوری (م۱۳۴۲ھ) اور ان کے صاحبزادگان مولانا عبدالرحمن مبارکپوری (م ۱۳۶۴ھ)، مولانا عبید اللہ رحمانی مبارکپوری (م۱۴۰۲ھ)، مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی (م۱۳۸۲ھ) اور شیخ تقی الدین الہلالی مراکشی
سابق استادِ ادب، ندوة العلما، لکھنوٴ اور جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ(م۱۹۸۷ء) قابل ذکر ہیں۔

مئو ناتھ بھجن کے مدارس


مئو ناتھ بھجن ضلع اعظم گڑھ کا مشہور قصبہ ہے اور شہر کی کثیر آبادی مسلک ِاہل حدیث سے وابستہ ہے۔ اس شہر میں جماعت ِاہل حدیث کی سالانہ کانفرنس تقریباً ہر سال ہوتی تھی۔ اور پورے ہندوستان سے علمائے اہل حدیث کو کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی جاتی تھی۔ مولانا ابوالوفا ثناء اللہ امرتسری (م۱۹۴۸ء)، مولانا حافظ محمد ابراہیم میرسیالکوٹی
(م۱۹۷۵ء)، مولانا عبدالمجید سوہدروی
(م۱۹۵۹ء) اور مولانا محمد اسماعیل سلفی
(م۱۹۶۸ء) وغیرہم مئو ناتھ بھجن تشریف لے جاتے تھے۔ اس شہر میں اہل حدیث مکتب ِفکر کے جو مدارس تھے، ان کی تفصیل یہ ہے:

مدرسہ اسلامیہ، عالیہ
اس مدرسہ کی بنیاد ملا حسام الدین مئوی (م ۱۳۱۰ھ) نے ۱۲۸۵ھ/۱۸۶۸ء میں رکھی۔ اس مدرسہ کے صدر مدرّس خود ملا حسام الدین تھے۔ مولانا حافظ عبدالرحیم مبارکپوری
اور مولانا ابوالمکارم محمد علی مئوی نے اس مدرسہ میں تعلیم حاصل کی تھی۔ ملا حسام الدین مئوی کے انتقال کے بعد مولانا ابوالفیاض عبدالقادر مئوی (م۱۲۳۱ھ/۱۹۱۳ء) اور مولانا عبدالسلام مبارکپوری
صاحب ِسیرة البخاری (م۱۳۴۲ھ/۱۹۲۴ء) اس مدرسہ میں تدریس فرماتے رہے۔

مدرسہ فیض عام
اس مدرسہ کے بانی و صدر مدرّس مولانا عبداللہ شائق (م۱۳۹۴ھ) تھے اور ان کے ساتھ دوسرے مدرّس مولانا محمد سلیمان مئوی (م۱۳۹۸ھ) تھے۔ یہ مدرسہ اب بھی کتاب و سنت کی اشاعت و تعلیم میں مصروفِ عمل ہے۔ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ اشاعت ِکتب کی طرف بھی اس کی توجہ ہے۔ اشاعتی ادارہ 'اہل حدیث اکیڈمی' کے نام سے قائم ہے۔ اس اکیڈمی کی طرف سے اب تک مولانا محمد جونا گڑھی
مرحوم کی تقریباً ۳۰ کے قریب کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ تفسیر ابن کثیر اُردو بنام تفسیر محمدی اور امام ابن قیم
کی کتاب إعلام الموقعین کا اردو ترجمہ بنام 'دین محمدی' اس اکیڈمی نے شائع کی ہیں۔

مدرسہ دارالحدیث مطلع العلوم، میرٹھ
اس مدرسہ کی بنیاد مولانا سید امیر حسن سہسوانی
(م۱۲۹۱ھ/۱۸۷۴ء) نے رکھی تھی اور اس مدرسہ میں وقتاً فوقتاً جن علمائے کرام نے تدریس فرمائی۔ ان کے نام یہ ہیں:
مولانا سید امیر حسن سہسوانی
(م۱۲۹۱ھ)، مولانا سید امیر احمد سہسوانی
(م۱۳۰۶ھ)، مولانا عبدالقادر
بن مولانا غلام رسول قلعوی، مولانا حمیداللہ سراوہ (م۱۳۳۰ھ) اور مولانا عبدالحنان علوی
ایڈیٹر اخبار اہل حدیث گزٹ، دہلی قابل ذکر ہیں۔
تلامذہ میں مولانا عبدالجبار عمرپوری
(م۱۳۳۴ھ) جد ِامجد مولانا عبد الغفار حسن، مولانا ضیاء الرحمن،
مولانا عبدالتواب علی گڑھی
اور مولانا حکیم عبیدالرحمن عمرپوری
وغیرہم شامل ہیں۔

پنجاب کے مدارس



متحدہ پنجاب (مغربی و مشرقی) میں اہل حدیث کے بے شمار مدارس تھے اور صوبہ پنجاب کا کوئی ضلع وتحصیل ایسی نہیں تھی جہاں اہل حدیث کا مدرسہ نہ تھا۔ یہاں صرف مشہور اہل حدیث مدارس کا ذکر کیا جاتا ہے:
مدرسہ محمدیہ، لکھو کے، ضلع فیروزپور
اس مدرسہ کی بنیاد صاحب ِتفسیر محمدی پنجابی مولانا حافظ محمد بن بارک اللہ لکھوی (م۱۳۱۱ھ) نے ۱۳۱۰ھ/۱۸۹۲ء میں رکھی تھی۔ اس مدرسہ میں جن علماء نے تدریسی خدمات انجام دیں، ان کے نام یہ ہیں:
مولانا حافظ محمد لکھوی (م۱۳۱۱ھ)، مولانا محی الدین عبدالرحمن لکھوی (م۱۳۱۲ھ)، مولانا عبدالقادر لکھوی (م۱۳۴۳ھ)، مولانا محمد علی لکھوی مدنی
(م۱۹۷۳ء)اور مولانا عطاء اللہ لکھوی
(م۱۳۷۴ھ) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
اس مدرسہ سے بے شمار حضرات مستفیض ہوئے اور ان میں سے بعض خود مسند ِتدریس پر متمکن ہوئے۔مشہور علماء جو اس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہوئے، ان کے نام حسب ِذیل ہیں:
مولانا رحیم بخش لاہوری، مولانا غلام نبی ربانی سوہدروی، مولانا عبدالوہاب صدری دہلوی، مولانا عبداللہ بن عبداللہ غزنوی، مولانا عبدالقدوس غزنوی، مولانا عبدالاول غزنوی، مولانا احمد علی غزنوی، مولانا حافظ عبداللہ روپڑی، مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی
وغیرہم۔

جامعہ محمدیہ، اوکاڑہ
جامعہ محمدیہ لکھو کے، قیام پاکستان کے بعداوکاڑہ (مغربی پنجاب) منتقل ہوگیا۔ اس مدرسہ کے نگران و مہتمم مولانا معین الدین لکھوی بن مولانا محمد علی لکھوی مدنی ہیں۔ اس مدرسہ سے بے شمار حضرات نے تعلیم حاصل کی ہے۔ مولانا عبدالجبار کھنڈیلوی، مولانا حافظ عبداللہ بڈھیمالوی
اور مولانا عبداللہ امجد چھتوی
اس مدرسہ میں شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز رہے ہیں۔

مدرسہ غزنویہ (تقویة الاسلام ) امرتسر
اس مدرسہ کی بنیاد مولانا سید عبداللہ غزنوی (م۱۲۹۸ھ/۱۸۸۱ء) نے رکھی۔ آپ کے ساتھ دوسرے مدرّس مولانا ابوسعید محمد حسین بٹالوی (م۱۳۳۸ھ/۱۹۲۰ء) تھے۔ مولانا سید عبداللہ غزنوی کے انتقال کے بعد ان کے صاحبزادئہ گرامی مولانا سید عبدالجبار غزنوی (م۱۳۳۱ھ/۱۹۱۳ء) اس مدرسہ کے نگران و مہتمم مقرر ہوئے تو انہوں نے مدرسہ غزنویہ کی بجائے 'تقویة الاسلام' نام رکھا۔
اس مدرسہ میں وقتاً فوقتاً جن علمائے کرام نے تدریسی خدمات انجام دیں، ان کے نام یہ ہیں:
مولانا عبداللہ بن عبداللہ غزنوی (م۱۳۰۰ھ) ، مولانا عبدالجبار غزنوی (۱۳۳۱ھ)، مولانا سید عبدالاوّل غزنوی (م۱۳۱۳ھ)، مولانا عبدالرحیم غزنوی (م۱۳۴۲ھ)، مولانا محمد حسین ہزاروی، مولانا ابواسحق نیک محمد ،مولانا سید محمد داؤد غزنوی(م۱۹۶۳ء) اور حافظ محمد حسین امرتسری روپڑی (م ۱۹۵۸ء) قابل ذکر ہیں۔
اس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والوں میں قابل ذکر علمائے کرام یہ ہیں:
مولانا حافظ عبداللہ روپڑی (م۱۹۶۴ء)، مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی (م۱۹۸۵ء)، مولانا محمد اسماعیل سلفی
(م۱۹۶۸ء) اور مولانا فقیر اللہ مدراسی
(م۱۹۲۳ء)

مدرسہ تقویة الاسلام، لاہور
مولانا سید عبدالجبار غزنوی
کے انتقال ۱۹۱۳ء کے بعد مولانا سید محمد داؤد غزنوی
تقویة الاسلام امرتسر کے ناظم مقرر ہوئے اور قیامِ پاکستان ۱۹۴۷ء تک آپ دارلعلوم تقویة الاسلام کا انتظام و انصرام بڑے احسن طریقے سے چلاتے رہے۔ ۱۹۴۷ء میں مولانا سید محمد داؤد غزنوی
امرتسر سے ہجرت کرکے لاہور تشریف لے آئے اور شیش محل روڈ لاہور پر تقویة الاسلام کا دوبارہ اجرا کیا۔ یہ مدرسہ اب بھی کتاب و سنت کی شمع کو روشن کئے ہوئے ہے۔ ۱۹۶۳ء تک مولاناغزنوی مرحوم اس کے ناظم رہے اور ان کے انتقال کے بعد مولانا سید ابوبکر غزنوی
ناظم مقرر ہوئے۔ اپریل ۱۹۷۶ء میں مولانا ابوبکر غزنوی نے انتقال کیا تو سید عمر فاروق غزنوی
اس کے ناظم مقرر ہوئے۔ سید عمر فاروق ۲ سال تک ناظم رہے۔ ۱۹۷۸ء کو ان کا بھی انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد سید یحییٰ غزنوی اس کے ناظم ہوئے ،آج کل سید جنید غزنوی اس کے ناظم ہیں۔ حافظ محمد حسین روپڑی
(م ۱۹۵۸ء) والد ِگرامی حافظ عبد الرحمن مدنی ،مولانا محمد عطاء اللہ حنیف
(م ۱۹۸۷ء) اور مولانا حافظ محمداسحاق حسینوی اس کے شیخ الحدیث رہ چکے ہیں۔ 
دارلعلوم تقویة الاسلام، لاہور سے فارغ ہونے والوں میں مشہور علمائے کرام یہ ہیں:
مولاناقاضی محمداسلم سیف فیروزپوری، حافظ عزیز الرحمن لکھوی، حافظ شفیق الرحمن لکھوی، حافظ محمد یحییٰ عزیز میرمحمدی، مولانا محی الدین سلفی مرحوم، حافظ عبدالرحمن گوہڑوی مرحوم، مولانا محمد یونس اثری (مظفر آباد آزاد کشمیر) ہیں۔

مدرسہ تائید الاسلام، امرتسر
یہ مدرسہ مولانا احمد اللہ رئیس امرتسر (م۱۳۳۶ھ/۱۹۱۸ء) نے قائم کیا تھا۔ مولانا ثناء اللہ امرتسری (م۱۹۴۸ء) نے اپنی تعلیم کا آغاز اسی مدرسہ سے کیا تھا۔جب مولانا ثناء اللہ
دینی تعلیم سے فارغ ہوکر واپس آئے تو اسی مدرسہ میں صدرمدرس کی حیثیت سے ان کا تقرر ہوا۔ مولانا ثناء اللہ کے تلامذہ میں حافظ محمد کلانوری (ککے زئی) تھے۔ جو استادِپنجاب حافظ عبدالمنان محدث وزیرآبادی
کے انتقال (۱۳۳۴ھ/۱۹۱۶ء) کے بعد دو سا ل تک استادِپنجاب کے مدرسہ میں تدریس فرماتے رہے۔

دارالحدیث، وزیرآباد
یہ مدرسہ مولانا حافظ عبدالمنان محدث وزیرآبادی (م ۱۳۳۴ھ) نے قائم کیا۔ اس مدرسہ میں حضرت حافظ عبدالمنان محدث وزیرآبادی، مولانا حافظ عبدالستار بن محدث وزیرآبادی، مولانا حافظ محمد کلانووی اور مولانا عمر الدین رحمہم اللہ نے تدریسی خدمات انجام دیں۔
اس مدرسہ سے جو علمائے کرام فارغ التحصیل ہوئے۔ ان کا شہرہ برصغیر کے کونے کونے تک پہنچا یعنی فاتح قادیاں مولانا ابوالوفاء ثناء اللہ امرتسری
(م۱۹۴۸ء)، امام العصر مولانا حافظ محمد ابراہیم میرسیالکوٹی (م۱۹۵۶ء)، مناظر اسلام مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی
(۱۹۴۹ء)، مولانا عبدالقادر لکھوی
(م۱۹۲۶ء) ، مولانا محمد علی لکھوی
(۱۹۷۳ء)، مولانا فقیر اللہ مدراسی
(۱۹۲۳ء)، مولانا عبدالحمید سوہدروی
(م۱۹۱۲ء)، مولانا محمداسماعیل سلفی
(م۱۹۶۸ء)، اورمولانا حافظ محمد گوندلوی
(م۱۹۸۵ء)

مدرسہ حمیدیہ، سوہدرہ
یہ مدرسہ مولانا عبدالحمید سوہدروی
بن مولانا غلام نبی ربانی سوہدروی
نے قائم کیاتھا۔ مولانا عبدالحمید مرحوم ایک جلیل القدر عالم تھے۔ مولانا، حافظ عبدالمنان محدث وزیرآبادی، شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی، مولانا شمس الحق ڈیانوی عظیم آبادی
اور علامہ حسین بن محسن انصاری
یمانی سے مستفیض تھے۔ ۱۳۰۱ھ میں پیدا ہوئے اور بہت تھوڑی عمر پائی، ۱۳۳۰ھ میں وفات پائی۔ 
مولانا غلام نبی
ربانی کاشمار اہل اللہ میں ہوتا تھا۔ مولانا حافظ محمد لکھوی
اور شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین دہلوی
سے علومِ اسلامیہ کی تحصیل کی۔ حضرت عارف باللہ مولانا سید عبداللہ غزنوی
سے بھی مستفیض تھے۔ ۱۳۴۸ھ/۱۹۳۰ء میں انتقال کیا۔ اس مدرسہ سے فارغ ہونے والوں میں درج ذیل اصحاب شہرت کے درجہ کو پہنچے : مولانا نظام الدین کٹھوروی
(م۱۹۱۳ء)، مولوی مراد علی کٹھوروی
(۱۹۶۸ء)، مولوی ہدایت اللہ سوہدروی
(م۱۹۶۷ء)، مولوی ابویحییٰ امام خاں نوشہروی
(۱۹۶۶ء)

مدرسہ تعلیم القرآن، سوہدرہ
مولانا غلام نبی
ربانی نے ۱۹۳۰ء میں انتقال کیا۔ آپ کے صاحبزادہ مولانا عبدالحمید
کا ان کی زندگی میں ۱۹۱۲ء میں انتقال ہوچکاتھا۔ مولاناغلام نبی ربانی
کے بعد ان کے پوتے مولانا عبدالمجید
سوہدروی (م۱۹۵۹ء) جانشین ہوئے۔ لیکن وہ اپنی صحافتی مصروفیات کی وجہ سے تدریس کی طرف توجہ نہ دے سکے۔۱۹۴۸ء میں مولانا عبدالمجید
کے صاحبزادہ مولوی حافظ محمد یوسف سوہدروی
نے مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث کے نام ایک مدرسہ قائم کیا۔ یہ مدرسہ حافظ صاحب کے انتقال ۱۹۹۷ء تک جاری رہا۔ اس مدرسہ میں ناظرہ قرآن، ترجمہ قرآن اور حدیث کے اسباق ہوتے تھے۔ راقم آثم کو بھی حافظ صاحب سے شرفِ تلمذ حاصل ہے اور حدیث کی مشہور کتاب مشکوٰة المصابیح اور صرف و نحو کے کچھ اسباق پڑھے۔

مدرسہ اصحابِ صفہ، سوہدرہ
حافظ محمد یوسف
کے انتقال کے بعد ان کے چھوٹے بھائی حافظ عبدالوحید (نواسہٴ شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری)نے یہ مدرسہ قائم کیا۔ اس مدرسہ میں ناظرئہ قرآن مجید، ترجمہ قرآن مجید اور حفظ ِقرآن کی تعلیم دی جاتی ہے۔ حافظ عبدالوحید صاحب آج کل ہیوسٹن (امریکہ) میں اشاعت ِاسلام میں سرگرمِ عمل ہیں اور یہ مدرسہ ان کی نگرانی میں چل رہا ہے۔ اس مدرسہ کے تمام اخراجات حافظ صاحب ہی برداشت کرتے ہیں، مولوی حبیب الرحمن جو حافظ عبدالوحید صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں، حافظ صاحب کی نمائندگی کرتے ہیں۔

سیالکوٹ کے مدارس



سیالکوٹ میں سب سے پہلے اہل حدیث کا مدرسہ مولانا ابوعبداللہ عبید اللہ، غلام حسن (م۱۳۳۶ھ) نے قائم کیا۔مولانا غلام حسن
کا مولد قصبہ ساہوالہ ہے، مولانا غلام مرتضیٰ
سیالکوٹی سے علومِ اسلامیہ کی تحصیل کی اور حدیث کی سند مولانا سیدنواب صدیق حسن خان
(م۱۳۰۷ھ) سے حاصل کی۔ مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی
مرحوم ان کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔

دارالحدیث، سیالکوٹ
یہ مدرسہ مولانا محمدابراہیم میر سیالکوٹی
(م۱۹۵۶ء) نے قائم کیا تھا۔ ۱۹۱۶ء میں قائم ہوا مگر زیادہ جاری نہ رہ سکا۔ ۱۹۳۴ء میں اس کا دوبارہ اجرا ہوا اور چھ ماہ بعد بند ہوگیا۔ مولانا سیالکوٹی
اپنی دیگر مصروفیات کی وجہ سے تدریس کی طرف توجہ نہیں کرسکتے تھے۔تاہم جب تک یہ مدرسہ قائم رہا، بے شمار حضرات مولانا سیالکوٹی سے مستفیض ہوئے۔ مشہور تلامذہ یہ ہیں:
مولوی عصمت اللہ،
مولوی محمد شفیع،
مولوی عبیدالرحمن
ساکن مبارکپور ضلع اعظم گڑھ، مولانا محمد اسماعیل سلفی، مولانا عبدالمجید سوہدروی
اور مولانا عبدالواحد سیالکوٹی۔

جامعہ رحمانیہ (ابراہیمیہ) سیالکوٹ
اس مدرسہ کا آغاز ۱۹۶۲ء میں ہوا۔ ۱۹۶۴ء تک میانہ پورہ کی مسجد میں تعلیم وتدریس کا سلسلہ جاری رہا۔ ۱۹۷۱ء میں یہ مدرسہ ناصر روڈ پراپنی عمارت میں منتقل ہوگیا۔ اب اس مدرسہ کانام 'جامعہ رحمانیہ' ہوگیا ہے۔مولانا محمد علی جانباز اس مدرسہ کے شیخ الحدیث اور مہتمم ہیں۔مولانا عطاء الرحمن اشرف، مولانا محمد یونس اور حافظ عبدالرحمن اس مدرسہ میں مختلف علوم کی تدریس فرماتے ہیں۔
شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز صحیحین کا در س دیتے ہیں۔ جید عالم دین ہیں اور حدیث پر ان کا مطالعہ بڑا وسیع ہے۔ سنن ابن ماجہ کی شرح بزبان عربی ۱۳/ جلدوں میں لکھی ہے۔ جس کی پہلی ۲/ جلدیں شائع ہوچکی ہیں۔

مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث، ساہوالہ
اس مدرسہ کی بنیاد مولانا محمد یحییٰ گوندلوی نے غالباً ۱۹۸۹ء میں رکھی۔ مولانا محمد یحییٰ گوندلوی جید عالم دین ہیں۔ مولانا ابوالبرکات احمد مدراسی، مولانا محمد عبدہ
الفلاح، مولانا عبداللہ فیصل آبادی
اور مولانا حافظ محمد گوندلوی رحہم اللہ اجمعین سے مستفیض ہیں۔ تفسیر اور حدیث پر ان کامطالعہ وسیع ہے۔ تصنیف و تالیف اور تدریس کا خاصا ملکہ حاصل ہے۔ علامہ البانی مرحوم کی صحیح سنن ترمذی اور صحیح سنن ابن ماجہ کاترجمہ اور تشریح ان کے قلم سے شائع ہوچکا ہے۔ تقریر بھی اچھی کرتے ہیں۔ آج کل اس مدرسہ میں تفسیر و حدیث کے اسباق ان کے ذمہ ہیں۔

جامعہ امام بخاری
، سیالکوٹ
یہ جامعہ پروفیسر حافظ محمد مطیع الرحمن سابق پروفیسر دینیات، مرے کالج سیالکوٹ نے قائم کی ہے۔ پروفیسر محمد مطیع الرحمن حضرت پیر آف جھنڈا شاہ بدیع الدین راشدی (م ۱۹۹۶ء) کے ارشد تلامذہ میں ہیں۔ اس جامعہ میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم اور کمپیوٹر سائنس کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔پروفیسر صاحب اس جامعہ کے مہتمم ہیں۔

گوجرانوالہ کے مدارس


گوجرانوالہ کی جامع مسجد اہل حدیث چوک نیائیں جس کو اب مرکزی مسجد اہل حدیث کہا جاتا ہے، میں درس و تدریس کا سلسلہ مولانا علاؤ الدین (م۱۳۳۹ھ/۱۹۲۰ء) نے کیا تھا۔ مولانا علاؤ الدین
حضرت شیخ الکل مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کے تلمیذ تھے۔

جامعہ محمدیہ ،گوجرانوالہ
مولانا علاؤالدین کے انتقال کے بعد شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل
سلفی مرکزی مسجد اہل حدیث کے خطیب مقرر ہوئے۔ تو آپ نے 'جامعہ محمدیہ' کی باقاعدہ بنیاد رکھی ۔ یہ مدرسہ ۸۰ سال سے کتاب و سنت کی اشاعت میں سرگرمِ عمل ہے۔ اس مدرسہ میں مولانا محمد اسماعیل سلفی مرحوم کے علاوہ کئی جید علمائے کرام تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں مثلاً 
مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی
(م۱۹۸۵ء)، شیخ الحدیث مولانا محمد عبداللہ (م۲۰۰۱ء)۔ اس مدرسہ سے بے شمار حضرات فارغ التحصیل ہوئے جن میں بعض کا شہرہ ازقاف بہ تاقاف پہنچا مثلاً 
مولانا محمد حنیف ندوی، حکیم عبداللہ خاں نصرسوہدروی، مولانا حافظ عبداللہ بڈھیمالوی، مولانا محمد اسحاق بھٹی، پروفیسر قاضی مقبول احمد، مولانا حکیم محمود سلفی، مولانا محمد رمضان سلفی، مولانا محمدخالد گرجاکھی، مولانا عزیز الرحمن یزدانی برادرِ اکبر مولانا حبیب الرحمن یزدانی۔ آج کل مولانا حافظ عبدالمنان نورپوری صدر مدرّس اور مولانا عبد الحمید ہزاروی شیخ الحدیث ہیں۔

دارالحدیث، گوندلانوالہ
یہ مدرسہ مولانا حافظ محمد محدث گوندلوی
(م۱۹۸۵ء) نے جاری کیا تھا۔ حافظ صاحب کی ذات محتاجِ تعارف نہیں ہے۔ حضرت الامام مولانا سیدعبدالجبار غزنوی
(م۱۳۳۱ھ) کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔
آپ عصر حاضر کے حافظ الحدیث، جامع معقول و منقول، اور پاکستان کے شیخ الکل تھے۔ ۶۲ سال تک تدریس فرمائی۔ ان کے تلامذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے ،مشہور تلامذہ یہ ہیں:
مولانا عبید اللہ رحمانی مبارکپوری
صاحب ِمرعاة المفاتیح فی شرح مشکوٰة المصابیح، مولانا محمد یوسف کوکن عمری
مصنف 'امام ابن تیمیہ'، مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی
شارح سنن نسائی، شیخ الحدیث مولانا ابوالبرکات احمد مدراسی، شیخ الحدیث مولانا محمد عبدہ
الفلاح،شیخ الحدیث مولانا محمد صدیق
فیصل آبادی، شیخ الحدیث مولانا حافظ محمد اسحق حسینوی، شیخ الحدیث مولانا حافظ عبداللہ بڈھیمالوی، شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز، شیخ الحدیث مولانا محمد اعظم گوجرانوالہ، مولانا علم الدین سوہدروی، مولاناعبدالرحمن عتیق وزیرآبادی، علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید،شیخ الحدیث مولانا حافظ عبدالمنان نورپوری،مولانا عبدالقادر ندوی صدر جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن، مولانا معین الدین لکھوی ناظم جامعہ محمدیہ اوکاڑہ، مولانا ارشاد الحق اثری صاحب ِتصانیف ِکثیرہ،مولانامحمد صادق خلیل فیصل آبادی مترجم مشکوٰة المصابیح و صاحب تفسیر اَصدق البیان مولانا عطاء الرحمن اشرف استادِ حدیث 
جامعہ رحمانیہ ،سیالکوٹ۔

جامعہ اسلامیہ، گوجرانوالہ
جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ حاجی محمد ابراہیم انصاری مرحوم نے قائم کیا تھا۔ حضرت العلام مولانا حافظ محمد گوندلوی (م۱۹۸۵ء)، شیخ الحدیث مولانا ابوالبرکات احمدمدراسی (م۱۹۹۱ء)، اس کے صدر مدرس رہ چکے ہیں۔ آج کل مولانا فاروق الراشدی صدرمدرّس ہیں اور نائب صدر مدرس مولانا محمد اعظم ہیں۔ اس مدرسہ سے بے شمار علماء فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔مشہور علمائے کرام یہ ہیں:
مولانا محمد مدنی
اور ان کے برادرِ خوردحافظ عبدالحمید عامر مدیر الجامعہ الاثریہ جہلم، قاضی عبدالرشید جہلن، مولانا محمد یحییٰ گوندلوی، میاں محمد جمیل، حافظ عباس انجم، حافظ عزیز الرحمن ناظم مکتبہ عزیزیہ لاہور اور مولوی ابوعثمان عبدالرحمن سلفی خطیب مسجداہل حدیث ککے زیاں، سوہدرہ

لاہور،ساہیوال اور دوسرے شہروں کے مدارس



لاہور میں اہل حدیث کے کئی ایک مدارس کتاب و سنت کی اشاعت و تعلیم میں سرگرم عمل ہیں۔ یہاں صرف تین مشہور مدارس کا تعاف پیش خدمت ہے 

جامعہ اہل حدیث، چوک دالگراں لاہور
یہ مدرسہ مفتی ٴدوراں مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی
(م۱۹۶۴ء) اور شیخ التفسیرحافظ محمد حسین (برادرِ خورد) نے ۱۹۵۶ء میں قائم کیا۔ حضرت العلام محدث روپڑی علوم اسلامیہ کے بحر ذخار تھے۔ تمام علوم یعنی تفسیر، حدیث، فقہ، اصولِ فقہ، تاریخ و سیر، اسماء الرجال، لغت و ادب، فلسفہ و منطق اور صرف و نحو وغیرہ میں ان کو یدطولیٰ حاصل تھا۔ مسائل کی تحقیق و تدقیق میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا۔ ان کے تلامذہ کی فہرست طویل ہے، مشہور تلامذہ یہ ہیں:
مولانا عبدالجبار محدث
کھنڈیلوی، مولانا حافظ محمد حسین روپڑی، مولانا سید بدیع الدین شاہ راشدی، مولانا محمد عطاء اللہ حنیف، مولانا حافظ اسماعیل روپڑی، مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی، مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی، حافظ عبد السلام فتح پوری، مولانا عبدالسلام کیلانی، مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی، مولانا حبیب الرحمن شاہ
راولپنڈی اور مولانا عبد الوکیل علو ی وغیرہم۔
حضرت العلام محدث روپڑی نے ۱۹۶۴ء میں انتقال کیا۔ ۱۹۶۲ء سے محدث روپڑی نے اس جامعہ کا تعلیمی انتظام اپنے بھتیجے حافظ عبد الرحمن امرتسری(مدنی) کے سپرد کردیا اور جامعہ کے مالی ناظم حضرت حافظ عبدالقادر روپڑی (م۱۹۹۹ء) اور ان کے معاونِ خاص حافظ محمود احمد
کے سپرد رہا۔بعد ازاں حضرت حافظ عبد القادر روپڑی
۳۵
سال تک جامعہ اہل حدیث کے نگران رہے۔ حضرت حافظ روپڑی
کے انتقال کے بعد ان کے چچا مولوی عبد الواحد کے پوتے مولانا حافظ عبدالغفار روپڑی ناظم مقرر ہوئے۔
جامعہ اہل حدیث میں اس وقت مولانا عبیداللہ عفیف شیخ الحدیث ہیں۔ ان کے علاوہ حافظ عبدالغفار روپڑی، حافظ عبدالوہاب روپڑی، حافظ محمد حنیف مدنی، مولانا جابر حسین مدنی قابل ذکر اساتذہ میں شامل ہیں۔
یہ مدرسہ خانوادئہ روپڑی کی یادگار ہے اور کتاب و سنت کی ترقی و ترویج میں دن رات کوشاں ہے۔ اس مدرسہ کا مدینہ یونیورسٹی کی ثانوی تعلیم سے معادلہ ہے۔ درسِ نظامی کے ساتھ اس میں شعبہ حفظ ِقرآن بھی ہے۔

جامعہ لاہور الاسلامیہ (رحمانیہ) ماڈل ٹاؤن، لاہور
یہ مدرسہ مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی بن مولانا حافظ محمد حسین روپڑی کی زیرنگرانی کتاب و سنت کی شمع روشن کئے ہوئے ہے۔ مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی ایک جلیل القدر عالم دین ہیں۔ حضرت العلام محدث روپڑی کے بھتیجے اور تلمیذ ِرشید ہیں۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے تعلیم یافتہ ہیں، اس لئے مدنی کہلاتے ہیں۔جامعہ کے زیر اہتمام تین کلیہ جات کلیہ الشریعہ ، کلیہ القرآن اور کلیہ العلوم الاجتماعیہ بڑی کامیابی سے کام کررہے ہیں۔ دو معاہد المعہد العالی للشریعہ والقضاء اور المعہد العالی للدعوة والاعلام بھی سرگرم عمل ہیں۔ طلبہ وطالبات کی تعداد ایک ہزار سے متجاوز ہے۔عصری علوم اور کمپیوٹر وغیرہ کی تعلیم اس ادارے میں ابتدا سے ہی لازمی ہے۔ ملکی اور عالمی سطح پر یہ جامعہ امتیازی شان رکھتا ہے۔
جامعہ رحمانیہ کے علاوہ کئی مدارس البنات بھی ان کی زیر نگرانی چل رہے ہیں۔ علاوہ ازیں 'مجلس التحقیق الاسلامی' کے نام سے ایک تحقیقی وعلمی ادارہ بھی قائم ہے۔اس ادارہ کے زیرنگرانی ۳۴ سال سے ایک ماہوار علمی و تحقیقی مجلہ 'محدث' بھی شائع ہورہا ہے۔
ماہنامہ 'محدث' علمی لحاظ سے ایک بلندپایہ رسالہ ہے اور ملک کے علمی و دینی رسائل میں اس کا بڑا اعلیٰ مرتبہ و مقام ہے۔ اس کے مقالات اصلاحی ، معلوماتی اور تحقیقی ہوتے ہیں اسی بنا پر اس رسالہ کی تمام مسالک کے اہل علم و تحقیق کی نظرمیں بڑی قدر ہے۔ حافظ حسن مدنی جو مولانا حافظ عبدالرحمن مدنی کے صاحبزادے ہیں، اس کے مدیر اور حضرت حافظ صاحب مدیر اعلیٰ ہیں۔

ابوہریرہ

اکیڈمی، لاہور
یہ اکیڈمی میاں محمد جمیل ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیة اہل حدیث پاکستان نے ۱۹۹۷ء میں قائم کی۔ اس اکیڈمی میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم بی اے تک دی جاتی ہے۔ میاں محمد جمیل مرکزی جمعیت اہل حدیث کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ آپ اعلیٰ خطیب ہونے کے علاوہ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ حالاتِ حاضرہ پر بھی ان کی وسیع نظر ہے۔ بڑے سلجھے انداز میں ملکی و عالمی سیاست پر تبصرہ فرماتے ہیں۔ ابوہریرہ اکیڈمی میٹرک پاس طلبہ کو علومِ اسلامیہ کی تعلیم مع عصری تعلیم چار سال میں مکمل کرتی ہے۔

جامعہ تعلیم الاسلام، مامون کانجن
جامعہ تعلیم الاسلام امیرالمجاہدین صوفی محمد عبداللہ وزیر آبادی (م۱۹۷۵ء) نے اوڈانوالہ چک ۴۹۳ گ ب میں ۱۹۲۱ء/۱۳۳۹ھ میں قائم کیا تھا اور ۱۹۳۲ء/۱۳۵۱ھ میں اسے باقاعدہ دارالعلوم کی شکل دی گئی۔ ۱۹۶۵ء/۱۳۷۵ھ میں یہ مدرسہ اوڈانوالہ سے ماموں کانجن منتقل ہوگیا۔ یہ مدرسہ ۸۰ سال سے کتاب وسنت کی شمع روشن کئے ہوئے ہے۔ حضرت صوفی محمد عبداللہ اس مدرسہ کے نگران و مہتمم تھے۔ ان کے انتقال کے بعد کچھ عرصہ مولانا محمد سلیمان وزیرآبادی بن امیر المجاہدین مولانا فضل الٰہی وزیرآبادی اس کے مہتمم رہے۔ آج کل مولانا عبدالقادر ندوی جامعہ کے صدر ہیں۔ جامعہ تعلیم الاسلام میں ممتاز علمائے اہل حدیث نے وقتاً فوقتاً تدریسی خدمات سرانجام دیں۔مثلاً
مولانا حافظ محمد گوندلوی، مولانا محمد اسحق چیمہ، شیخ الحدیث مولانا محمد عطاء اللہ حنیف، شیخ الحدیث مولانا حافظ احمد اللہ بڈھیمالوی، مولانا محمد صادق خلیل، شیخ الحدیث پیر محمد یعقوب قریشی، شیخ الحدیث مولانا محمد عبدہ
الفلاح، شیخ الحدیث حافظ عبداللہ بڈھیمالوی، مولانا عبدالرشید راشد ہزاروی حفظہ اللہ وغیرہم 
اس جامعہ سے فارغ التحصیل ہونے والے علمائے کرام میں چند مشہور یہ ہیں:
مولانا محمد صدیق فیصل آبادی، مولانا ابوالبرکات احمدمدراسی، پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوری، مولانا عبدالحمید ہزاروی، علامہ محمد
مدنی جہلم، مولانا عبدالقادر ندوی، مولانا قاضی محمد اسلم سیف۔ جامعہ تعلیم الاسلام کے آج کل مولانا حافظ بنیامین شیخ الحدیث ہیں۔ اس جامعہ کا معادلہ بھی مدینہ یونیورسٹی سے ہے۔ 

دارالحدیث محمدیہ، جلال پور پیروالہ 
یہ مدرسہ حضرت مولانا سلطان محمود محدث
جلالپوری (م۱۹۹۵ء) نے قیامِ پاکستان سے قبل قائم کیا تھا۔ محدث جلالپوری نے اس مدرسہ میں نصف صدی سے زیادہ حدیث کا درس دیا ۔ یہ مدرسہ اب بھی کتاب و سنت کی شمع روشن کئے ہوئے ہے۔ آج کل مولانا محمد رفیق اثری اس مدرسہ کے روحِ رواں ہیں۔

جامعہ کمالیہ، راجووال
جامعہ کمالیہ راجووال آج سے ۵۰ سال قبل مولانا محمد یوسف راجووالوی نے قائم کیا۔ یہ مدرسہ اب بھی مولانا محمد یوسف حفظہ اللہ تعالیٰ کی زیر نگرانی کتاب و سنت کی اشاعت میں سرگرم عمل ہے۔ اس مدرسہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں مجتہد العصر مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی، شیخ الحدیث حافظ عبداللہ بڈھیمالوی، شیخ الحدیث مولانا محمدعبدہ
الفلاح، مولانا حافظ عبداللہ امجد چھتوی، مولانا قدرت اللہ فوق اور مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی سالانہ تعطیلات میں دورئہ تفسیر کراتے رہے ہیں۔

جامعہ ثنائیہ، ساہیوال
یہ مدرسہ مولانا عبدالرشید راشد ہزاروی کی زیرنگرانی کتاب و سنت کی اشاعت میں سرگرمِ عمل ہے۔مولانا عبدالرشید ہزاروی ایک کامیاب مدرّس ہیں۔ تدریس کا کافی تجربہ رکھتے ہیں، کئی سال تک جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن میں تدریسی خدمات دے چکے ہیں۔

جامعہ ابی ہریرہ، رینالہ خورد
یہ مدرسہ صرف ونحو کے امام ، استادِ پنجاب مولانا عطاء اللہ لکھوی
کے صاحبزادے حافظ عزیز الرحمن لکھوی کے بعد ان کے برادرِ بزرگ حافظ شفیق الرحمن لکھوی کی زیر نگرانی تقریباً ۴۰ سال سے قرآن و حدیث کی تعلیم میں بھی سرگرمِ عمل ہے۔ اس مدرسہ میں تقریباً ۱۲ /اساتذہ کرام تعلیم دے رہے ہیں۔

فيصل آباد كے مدارس



جامعہ سلفیہ، فیصل آباد
۴،۵ / اپریل ۱۹۵۵ء کو جمعیة اہل حدیث پاکستان کی سالانہ کانفرنس لائل پور(فیصل آباد) مولانا سید محمد اسماعیل غزنوی (م۱۹۶۰ء) کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ جس میں اہل حدیث جماعت کا ایک دارالعلوم قائم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ مولانا محمدحنیف ندوی
(م۱۹۸۷ء) نے جامعہ سلفیہ نام تجویز کیا جو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا اور یہ بھی منظور کیا گیا کہ 'جامعہ سلفیہ' لائل پور (فیصل آباد) میں ہی قائم کیا جائے۔ چنانچہ ۴/اپریل ۱۹۵۵ء کو جامعہ سلفیہ کا سنگ ِبنیاد فیصل آباد کے مشہور بزرگ حکیم نور الدین مرحوم نے نصب فرمایا۔
ایک سال بعد ارکانِ جمعیة اہل حدیث پاکستان نے فیصلہ کیا کہ جب تک جامعہ سلفیہ کی عمارت تعمیر نہیں ہوجاتی، لاہور میں جامعہ سلفیہ کے درجہ تکمیل کا آغاز کیا جائے۔ چنانچہ مولانا سید محمد داؤد غزنوی نے اس کے لئے اپنے دارالعلوم 'تقویة الاسلام' کاایک حصہ پیش کردیا۔
چنانچہ ۱۷/ مئی ۱۹۵۶ء کو جمعیة اہل حدیث پاکستان کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ جامعہ سلفیہ کا آغاز جلد کردینا چاہئے۔ اسی طرح ۲۱/ جون ۱۹۵۶ء کوجمعرات کے روز تقویة الاسلام کے ہال میں جامعہ سلفیہ کے درجہ تکمیل کا افتتاح ہوا۔
اس کے ساتھ ہی ۲۲/ جون ۱۹۵۶ء فیصل آباد کی جامع مسجد اہل حدیث (امین پورہ بازار) میں جامعہ سلفیہ کے ثانوی درجے کا افتتاح ہوا۔ اور اس درجہ کے لئے مولانا محمد اسحق چیمہ
اور مولانا محمد صدیق
فیصل آباد کی خدمات حاصل کی گئیں۔
میاں محمد باقر مرحوم نے اپنے مدرسہ خادم القرآن والحدیث جھوک دادو کے ایک استاد مولانا محمدحسین طور کی خدمات بھی درجہ ثانوی کے سپرد کردیں۔ ۱۹۵۸ء میں جامعہ سلفیہ اپنی موجودہ عمارت میں منتقل ہوگیا۔ جامعہ سلفیہ کی مسند ِشیخ الحدیث پرجو علمائے کرام فائز رہے، ان کے اسمائے گرامی بہ ترتیب یہ ہیں:
مولانا محمد عطاء اللہ حنیف(لاہور میں پھر فیصل آباد میں)، حضرت حافظ محمد محدث گوندلوی، حافظ عبداللہ بڈھیمالوی، مولانا محمدعبدہ
الفلاح، مولانا پیر محمد یعقوب قریشی، مولانا سلطان محمود محدث
جلالپوری، مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی،مولانا محمد صدیق فیصل آبادی، مولانا حافظ احمداللہ بڈھیمالوی، اور مولانا حافظ عبدالعزیز علوی (موجودہ شیخ الحدیث)
جامعہ سلفیہ میں جن اساتذئہ کرام نے مختلف اوقات میں تدریس فرمائی ، ان میں سے چند مشہور علمائے کرام درج ذیل ہیں:
مولانا شریف اللہ خان، مولانا عبدالغفار حسن، مولانا محمد صادق خلیل،پروفیسر غلام احمد حریری،مولانا ہدایت اللہ ندوی، مولانا علی محمد حنیف، مولانا حافظ بنیامین، حافظ عبد السلام فتح پوری، مولانا محمد حسین طور، مولانا محمد علی جانباز، مولانا عبد اللہ امجد چھتوی ، ڈاکٹر محمد سلیمان اطہر ، حافظ مسعود عالم۔ 
جامعہ سلفیہ کے ناظم تعلیمات درج ذیل علمائے کرام رہے :
مولانا محی الدین احمد قصوری،
مولانا اسماعیل سلفی، مولانا عبداللہ ثانوی امرتسری،مولانا حافظ اسماعیل ذبیح، حافظ محمد یحییٰ میرمحمدی، مولانا حبیب الرحمن شاہ، مولانا محمد اسحاق چیمہ،مولانا محمد صدیق فیصل آبادی۔ 
جامعہ سلفیہ کے مہتمم مندرجہ ذیل حضرات رہے 
مولانا ابوحفص عثمانی اور مولانا محمد یٰسین ظفر (موجودہ)
جامعہ سلفیہ سے فارغ التحصیل ہونے والے علمائے کرام کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جامعہ سلفیہ کا معادلہ مدینہ یونیورسٹی سے ہے۔ وفاق المدارس سلفیہ کا صدر دفتر بھی جامعہ سلفیہ میں قائم ہے۔ 

جامعہ تعلیماتِ اسلامیہ، فیصل آباد
یہ مدرسہ مولانا حکیم عبدالرحیم اشرف
(م۱۹۹۷ء) نے قائم کیا۔ اس مدرسہ میں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کابھی انتظام ہے۔ مولانا عبدالغفار حسن عمرپوری اس مدرسہ میں تدریسی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ یہ مدرسہ اب بھی کتاب و سنت کی روشنی پھیلا رہا ہے۔ حکیم عبدالرحیم اشرف مرحوم کے صاحبزادے ڈاکٹر زاہد اشرف صاحب اس مدرسہ کے ناظم ہیں۔

ادارة العلوم الاثریہ، فیصل آباد
یہ مدرسہ مولانا عبداللہ فیصل آبادی مرحوم نے قائم کیا۔ مولانا ارشادالحق اثری اور مولانا عبدالحی انصاری اس ادارہ میں علمی وتحقیقی کام کرتے ہیں۔ مولانا ارشادالحق اثری ایک فاضل محقق اور صاحب قلم عالم ہیں۔ حدیث اور فقہ پر عبورہے۔ فقہ حنفی پران کی نظر بہت وسیع ہے۔ ان کے قلم سے عربی اور اردو میں ۲۵ سے زیادہ کتابیں نکل چکی ہیں۔ حال ہی میں مسند ِابی یعلی موصلی ان کی تحقیق و تخریج و تنقیح سے شائع ہوئی ہے۔

مرکز الدعوة السلفیہ، ستیانہ بنگلہ، فیصل آباد
یہ مدرسہ ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا کے زیر اہتمام چل رہا ہے۔ مولانا عبداللہ امجد چھتوی شیخ الحدیث کے عہدہ پر فائز ہیں۔ اس مدرسہ میں۲۰۰ کے قریب طلبا تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

کراچی کے چند مدارس


جامعہ ستاریہ، کراچی
اس مدرسہ کی بنیاد مولانا حافظ عبدالستار صدری دہلوی (م۱۹۶۲ء) نے رکھی۔ مولانا حافظ عبدالستار ، مولانا عبدالوہاب صدری دہلوی کے بڑے صاحبزادے تھے۔ بڑے وسیع النظرعالم دین اور مناظر تھے۔ ان کی ساری زندگی حدیث ِنبوی کی تدریس میں بسر ہوئی۔ کراچی میں اہل حدیث کا یہ بہت بڑا مدرسہ ہے۔ مدینہ یونیورسٹی سے بھی اس کاالحاق ہے۔ آج کل مولانا عبدالرحمن سلفی اس مدرسہ کے مہتمم ہیں۔

جامعہ ابی بکر الاسلامیہ ، کراچی
کراچی کا ایک بڑا جامعہ ہے جسے پروفیسر ظفر اللہ

نے قائم کیا۔ اس مدرسہ میں عربی زبان کی تعلیم کا خاص ذوق وشوق پایا جاتا ہے۔ اسلامی عربی جامعات کی عالمی تنظیم کا یہ جامعہ بھی رکن ہے۔اس میں عصری علوم کا بھی انتظام ہے ، اس جامعہ میں ذریعہ تعلیم عربی زبان ہے۔

پاکستان میں اہل حدیث کے دیگر مدارس

جامعہ توحیدیہ، وزیرآباد
یہ مدرسہ حافظ عبدالستار نے قائم کیا ہے۔ حافظ عبدالستار حامد اس مدرسہ کے مہتمم ہیں۔ اس مدرسہ میں حفظ ِقرآن اور درسِ نظامی کی تعلیم دی جاتی ہے۔

الجامعہ الاثریہ، جہلم
یہ مدرسہ مولانا عبدالغفور جہلمی
نے قائم کیا اس مدرسہ کا سنگ ِبنیاد ۱۹۷۹ء میں امام کعبہ شیخ محمد بن عبداللہ السبیل نے رکھا۔ اس مدرسہ کی بلڈنگ کی تعمیر میں حاکم شارجہ نے بھر پور تعاون کیا۔ الجامعہ الاثریہ کے دو حصے ہیں: ایک طلباء کے لئے اور دوسرا طالبات کے لئے۔
الجامعہ الاثریہ کے رئیس علامہ محمدمدنی تھے جن کا انتقال عید الاضحی ۱۴۲۲ھ سے چند روز قبل ہوا۔مولانا پیر محمد یعقوب قریشی اس کے شیخ الحدیث ہیں۔ الجامعہ الاثریہ کا ترجمان ماہنامہ 'حرمین' ہے جس کے مدیر مدنی
صاحب کے چھوٹے بھائی حافظ عبدالحمید عامر ہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد بھی علمائے اہل حدیث نے دینی مدارس کے قیام کی طرف از سر نو توجہ کی ۔ علمائے کرام نے اپنی ذاتی محنت و کوشش سے مدرسے قائم کئے۔ تمام دینی مدارس کا تفصیل سے تعارف کرانا مشکل ہے۔ اور میں صرف ان مدارس کے ناموں پر ہی اکتفا کرتا ہوں:

جامعہ امام ابن تیمیہ لاہور، مدرسہ ریاض القرآن والحدیث لاہور، مدرسہ تدریس القرآن والحدیث للبنات وسن پورہ لاہور، مدرسہ تدریس القرآن والحدیث ، گرین ٹاؤن لاہور، مدرسہ عربیہ دینیہ گوجرانوالہ، جامعہ رحمانیہ گوجرانوالہ، جامعہ اسلامیہ سلفیہ گوجرانوالہ،جامعہ سلفیہ اسلام آباد، جامعہ اثریہ پشاور، جامعہ سلفیہ کوئٹہ، دارالحدیث رحمانیہ کراچی، جامعہ ابن تیمیہ کراچی، جامعہ احسان الٰہی ظہیر کراچی، جامعہ بحر العلوم سعودیہ کراچی، جامعہ عمربن خطاب کراچی، جامعہ عربیہ اسلامیہ نیو سعید آباد حیدر آباد (سندھ)، مدرسہ اسلامیہ سلفیہ گوٹھ حاجی سلطان، جامعہ محمدیہ خان پور، مدرسہ اسلامیہ بہاولپور، مدرسہ اسلامیہ سلفیہ لودھراں، مرکز ابن قاسم ملتان، دارالحدیث رحمانیہ ملتان، مدرسہ دارالقرآن والحدیث کوٹ ادّو، معہد شریعہ وصناعہ کوٹ ادّو، مدرسہ سعیدیہ خانیوال، مدرسہ اشاعت ِاسلام چیچہ وطنی، جامعہ عزیزیہ ساہیوال، جامعہ رحیمیہ ساہیوال، مدرسہ اسلامیہ البدر ساہیوال، دارالحدیث اوکاڑہ، مدرسہ دارالقرآن والحدیث چشتیاں منڈی، مدرسہ رحمانیہ فاروق آباد، جامعہ محمدیہ شیخوپورہ، جامعہ علمیہ سرگودھا، دارالقرآن والحدیث فیصل آباد، جامعہ اسلامیہ حاجی آباد فیصل آباد، مدرسہ اسلامیہ گوجرہ، مدرسہ خادم القرآن والحدیث جھوک دادو، مدرسہ دارالحدیث مسجد چینیانوالی لاہور، مدرسہ ضیاء السنة راجہ جنگ، مدرسہ دارالحدیث ٹھینگ موڑ، مدرسہ دارالسلام ڈھولن ہٹھار، مدرسہ تجوید القرآن میر محمد، مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث شرقپور، مدرسہ رحمانیہ کامونکی، دارالحدیث محمدیہ حافظ آباد، مدرسہ ترتیل القرآن اوکاڑہ، مدرسہ دارالعلوم ڈھلیانہ، مدرسہ حفظ القرآن میاں چنوں، مدرسہ فیض العلوم منڈی عبدالحکیم، مدرسہ دارالحدیث میاں چنوں، مدرسہ عربیہ دارالحدیث ملتان،مدرسہ دارالقرآن رحمانیہ سرگودھا، مدرسہ اسلامیہ سلفیہ نصرة العلوم گوجرانوالہ، دارالعلوم محمدیہ مظفر آباد (آزادکشمیر)، دارالحدیث محمدیہ رحیم یار خان اور دار الحدیث محمدیہ عام خاص باغ ملتان وغیرہ 


بشکریہ: ماہنامہ محدث لاہور
شماره نمبر :260 جلد34 / شماره 5
مئی2002ء ربیع الاول1423ھ